- Advertisement -

رخصت

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

صبح کی دستک

وال کلاک نے

ٓآنکھیں ملتے ملتے سنی تھی

کمرے کے ساکت سینے میں

آخری منظر

قطرہ قطرہ پگھل رہا تھا

جلتی ہوئی سانسوں کے سائے

دیواروں سے لپٹے ہوئے تھے

میز کی چکنی سطح پہ رکھی

دو آوازیں پگھل رہی تھیں

دو خوابوں کی گیلی تلچھٹ

خالی گلاس میں جمی ہوئی تھی

وقت کی گٹھڑی سے کھسکائے

سارے لمحے

اِک اِک کر کے

بیت چکے تھے

چپ تھے دونوں

لیکن پھر بھی

سادہ سی خاموش نظر کے

پیچھے کہیں ہیجان چھپا تھا

سینے کی مدھم لرزش میں

مانو کوئی طوفان بپا تھا

رُوح کے اندر جیسے کوئی

جاتے لمحے کو

جتنوں سے روک رہا تھا

اور پھر اس نے رخصت چاہی

آخری پل کی آخری مہلت میں

جب بھری بھری نگہ سے

ایک ستارہ چھلک رہا تھا

میں نے بھی پھر رخصت چاہی

گلناز کوثر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ارشاد نیازی کی ایک اردو غزل