مرے مُرشد کہا کرتے تھے ‘ سب اچھا نہيں ہوتا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو سوچا نہيں ہوتا
بہت خستہ مکانوں میں رہائش بھی مصیبت ہے
اگر کھڑکی سلامت ہو تو دروازہ نہيں ہوتا
کسی سے راہ چلتے میں اچانک عشق ہو جائے
یہ ایسا جرم ہے ‘ جس پر کہیں پرچہ نہيں ہوتا
مری بینائی کَھو جانے کا اِک یہ فائدہ بھی ہے
کہ میں اب وہ بھی پڑھ لیتا ہوں جو لکھا نہيں ہوتا
محبت ہو کسی سے اور یک طرفہ محبت ہو
یہ وہ احساس ہے ‘ جس میں کبھی دھوکہ نہيں ہوتا
ہر اِک درویش کے کاسے میں درویشی نہيں ہوتی
ہر اِک چشمے کا پانی دوستا ! میٹھا نہيں ہوتا
کسی کے عشق میں برباد ہو کر یہ کُھلا ‘ عامی
بہت خوش حال ہونا بھی ‘ بہت اچھا نہيں ہوتا
عمران عامی