لاڈلی کا کارنامہ
بینا خان کے ناول اب میرے ہو کے رہو سے اقتباس
فواد ایک دم گھبرایا اور عزیر کو کال کر کے اسے ساری بات بتائی
” یار جس طرح وہ بات کر رہا تھا اس سے لگتا ہے کہ جیسے بہت بڑی اور بارعب پارٹی ہے پریشے جیسی لڑکی بھی بےبس تھی اس کے سامنے تو میں کیا ہوں گا ”
” ہممم۔۔۔ تو پنگا نہ ہی لے تو اچھا ہے ویسے اس کی پھپو سے بات کر کے دیکھ وہ کیا کہتی ہیں”
” دفع کرو۔۔۔۔۔ مجھے کیا ہے میں کیوں اپنی جان مشکل میں پھنساؤں اس جیسی لڑکیاں بہت”
” یہ ہوئی نا بات میرے یار ویسے پریشے نے پیسے بھیجے ”
” ہاں تین دن پہلے بھیج دیے تھے”
” تو تو اکیلے اکیلے ہی موجے اڑا رہا ہے چل چلتے ہیں کہیں ”
” ہاں ہاں کیوں نہیں ” فواد فوراً تیار ہوا۔۔۔۔۔۔
اگلے دن زوار اس پہ زور زور سے چیخ رہا تھا اس نے آنکھیں کھولیں
” اٹھ بھی جاؤ گھوڑے بیچ کے سوئی ہو کیا ” پریشے اٹھ کے بیٹھی
” کیا مصیبت ہے ”
” مصیبت یہ ہے کہ مجھے بھوک لگی ہے اٹھو ناشتہ بناؤ”
” واااٹ۔۔۔۔۔ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد تم مجھ سے ایکسپیکٹیشنز لگائے بیٹھے ہو کہ میں تمہیں ناشتہ بنا کے دوں ”
” کیا ہوا ہے؟؟؟ جسٹ نکاح ہوا ہے ہمارا اور اس ناطے سے تم بیوی ہو ہماری حق بنتا ہے ہمارا تم پہ اور تمہارا فرض کے تم ہمارا دھیان رکھو”
” ہونہہ۔۔۔۔۔ دھیان مائے فٹ میرا بس چلے تو گلا دبا دوں تمہارا”
” ہہاہاہاہاہا” وہ بے ساختہ ہنسا ” آج تک کوئی ایسا پیدا نہیں ہوا ہے ”
” میں ہوئی ہوں نا”
” تم۔۔۔۔ تم دباؤ گی گلا ہمارا؟ ؟؟ چلو کوئی بات نہیں یہ بھی کوشش کر لو ناکام ہی رہو گی”
” تم۔۔۔”
” یہ فالتو کی بحث چھوڑو اور ناشتہ بناؤ ہمارے لیے ہمیں ذبان دراز عورتیں ذرا نہیں پسند” وہ کچھ کہتی کہ وہ بولا اور بات ختم کر کے چلتا بنا پیچھے وہ دیر تک کڑھتی رہی پھر فریش ہو کے ناشتہ بنانے چل دی۔
کچن میں داخل ہوئی اور بریڈ نکالی سوچا ساتھ انڈے فرائی کر لے اور چولہے کی طرف گئی اتنے میں زوار کچن میں آیا
” کیا بنا رہی ہو”
” ذہر ” وہ جل کے بولی
” کوئی بات نہیں کھا لوں گا اگر تم اپنے ہاتھ سے کھلاؤ ” وہ شوخ ہوا پریشے کو یہ کوئی اور ہی زوار لگا پریشے نے کافی دیر تک جوئی جواب نہ دیا تو وہ پھر بولا
” یہ کیا خالی انڈے ہی کھلاؤ گی ”
” بریڈ ہے نا میں تو یہ ہی کھاتی ہوں ” وہ بولی تو زوار بولا
” کیا۔۔۔۔۔ میں بریڈ نہیں کھاتا مجھے پراٹھا بنا کے دو تم ہی کھاؤ یہ”زوار نے فرمائیش کی
” واااٹ تمہارا دماغ ٹھیک ہے میں پراٹھا بناؤں وہ بھی تمہارے لیے ”
” تو شوہر ہوں تمہارا ”
” یہ لفظ میرے سامنے بار بار یوز مت کرو” پریشے نے ٹوکا
” کیوں شرم آتی ہے کیا تمہیں ” وہ اس کے پاس آ کے بولا
” ہاں آتی ہے شرم تمہیں اپنا شوہر کہتے ہوئے اور شرم آئے گی مجھے تمہیں اپنا شوہر بتاتے ہوئے ” وہ پیچھے ہٹی اور غصے سے بولی وہ اسے کچھ دیر گھورتا رہا
” ہم تم سے آرام سے بات کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم ہم سے یوں بدتمیزی سے بات کرو ”
” ہم سے تم ابھی واقف نہیں ہو کہ ہم کیا ہیں ” اور کہہ کر چلا گیا۔
————
پریشے نے تین دن پہلے آنے کا کہا تھا اور اب تک نہیں آئی تھی پھپو نے کتنی ہی بار کال کی لیکن جواب ندارد۔۔۔
پھپو کا رو رو کے برا حال تھا
” یااللٰہ۔۔۔ میری بچی ٹھیک ہو خیریت سے ہو میرء مالک ” وہ بار بار یہ ہی دعائیں کر رہی تھی پولیس کو اس لیے اس معاملے میں انوالو نہ کیا کہ ایک تع لڑکی کا معاملا ہے اور دوسرا یہ بھی خیال آ رہا تھا کہ کیا پتا کوئی ضروری کام کی وجہ سے نہ آ پائی ہو ان کا دل۔کسی طور مطمئن نہ ہو رہا تھا۔۔۔
انہوں نے فواد کو کال کی
” جی بولیں ” وہ عزیر کے ساتھ آیا تھا گھومنے پھپو کا نمبر دیکھ کر بدمزا ہوا
” فواد کہاں ہے وہ تمہاری بات ہوئی پریشے سے”
” مجھے کیا پتا کہاں ہے وہ اور رہی بات اس سے بات ہونے کی تو ہاں ہوئی تھی شادی کر چکی ہے وہ کسی سے اور بہت خوش ہے ”
” کیا کس سے کون ہے وہ”
” مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں اپنی لاڈلی سے پوچھیں ”
” پر۔۔۔۔۔”
” آئیندہ مجھے کال کر کے تنگ نہیں کریے گا ” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔
—————
وہ اسے لے کے فارم ہاؤس سے نکلا اور اور وہ دوبارہ گاؤں کی طرف روانہ ہوئے گاؤں قریب تھا کہ وہ بولا
” میری ایک بات کان کھول کے سن لو ”
” تمہاری کڈنیپنگ کا کسی کو نہیں پتا اس لیے ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں اور دوسری بات میں تمہیں آزادی دے رہا ہوں” پریشے ایک دم چونکی
” اتنا خوش مت ہو نکاح سے آزادی نہیں دے رہا تمہیں یہ آزادی ہے کہ تم آرام سے اپنی کلینک چلاؤ جو کرنا ہے کرو پر۔۔۔۔ اس گاؤں سے نہیں جاؤ گی ”
” کیوں ”
” زیادہ سوال مت کرو میں جو کہہ رہا ہوں وہ اپنے کانوں کے بیچ میں رکھو اور اب چپ کرکے بیٹھو” لو جی یعنی بات ہی ختم۔۔۔ وہ چڑ کے دوسری طرف دیکھنے لگی وہ اسے دیکھ کے مسکرا دیا یہ لڑکی پتا نہیں کیوں اسے اچھی لگنے لگی تھی اس نے اس کے تپے تپے سے روپ کو دیکھا سفید رنگت جس میں گلابیاں گھلی ہوئی تھیں جب وہ کڈنیپ ہوئی تھی تب سے اس نے وہی بلیک سوٹ زیب تن کیا ہوا تھا بالوں کی کچھ لٹیں اس کے چہرے کے اطراف میں پھیلی ہوئی تھیں وہ اس حلیے میں بھی بہت پیاری لگ رہی تھی۔۔۔۔۔
پریشے نے اس کی نظروں کی تپش محسوس کی تو جل کے بولی
” اگر میرا جائزہ ہو گیا ہو تو کہیں اور بھی دیکھ لیں ” وہ قہقہہ لگا کے ہنسا۔
زوار نے اسے اس کے گھر چھوڑا اس نے جاتے کے ساتھ پھپو کو کال کی
” ہیلو پھپو”
” کہاں تھی میری بچی تجھے پتا ہے میں کتنا پریشان ہو رہی تھی ”
” میں ٹھیک ہوں پھپو آپ پریشان نہ ہوں ”
” کیسے پریشان نہ ہوؤں میں وہ فواد کہتا ہے تم نے شادی کرلی ہے ” پریشے کو یاد کر کے پھر رونا آنے لگا
” ہاں نہیں۔۔۔ نہیں پھپو یہ کس نے کہا آپ کو فواد نے؟؟؟ اس نے مذاق میں کہا ہو گا آپ پریشان نہ ہوں ”
” نہیں وہ ایسا مذاق کیوں کرے گا بتا مجھے ”
” میں آآپ سے کیوں کیوں جھوٹ بولوں گی پھپو ” وہ چاہ کے بھی انہیں سچ نہ بتا سکی تھی صرف ان کی پریشانی کے ڈر سے اور دوسرا یہ کہ انہیں ہارٹ پرابلم تھی
” میں بزی تھی یہاں کچھ ایمرجنسی ہو گئی تھی تبھی آپ کو بتا نہ سکی پریشانی والی بات نہیں ہے ” پھپو تھوڑا مطمئن ہوئیں
” اچھا تو پھر کب آرہی ہے”
” ابھی تو نہیں آ سکتی پھپو کوشش کرتی ہوں جلد آنے کی” پھر کچھ اور باتیں کر کے اس نے فون رکھ دیا تھا یہ تو طے تھا کہ وہ یہاں سے ہمیشہ کے لیے چلی جائے گی۔
بینا خان