- Advertisement -

سلطان مظفر کا واقعہ نویس

ایک افسانہ از نیر مسعود

سلطان مظفر کا واقعہ نویس
(۱)

اب جبکہ سلطان مظفرکے مقبرے کو اس کی زندگی ہی میں اتنی شہرت حاصل ہوگئی ہے کہ دور دور سے لوگ اسے دیکھنےآتے ہیں، مجھ کو حکم ہوا ہے کہ اس کی تعمیر کا واقعہ لکھوں۔ اس حکم کے ساتھ میری خانہ نشینی کازمانہ ختم ہوتا ہے۔

یہ بات کہ سلطان کا مقبرہ تعمیر ہوگیا ہے، مجھے سلطان ہی سے معلوم ہوئی اور جب سلطان نے مجھ کویہ بتادیا کہ اس کامقبرہ اس وادی میں نہیں بنایا گیاہے جہاں اس کے اجداد کے مقبرے ہیں تو میں سمجھ گیا کہ مقبرہ صحرا میں ہوگا۔اس لئے کہ میں اس کی صحرائی مہم کا واقعہ نویس تھااورجب اس نے یہ بتایاکہ مقبرہ ایک انوکھی عمارت ہے تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ عمارت بغیر چھت کی ہوگی، یہ بھی اس لئےکہ میں سلطان کی صحرائی مہم کا واقعہ نویس تھا۔ وہ میری آخری واقعہ نویسی تھی۔ اسی کے بعدمیری خانہ نشینی کازمانہ شروع ہوا تھا۔

اس زمانے کی بہت سی باتیں میں بھول چکاہوں لیکن اپنی خانہ نشینی کاپہلا دن مجھے اتنی اچھی طرح یاد ہے کہ اس کاحال میں ایک مستند واقعہ نویس کی طرح لکھ سکتا ہوں۔

اس دن صبح کی سیر میں مجھے مقبروں والی وادی کے کنارےچھوٹے چھوٹے پودے پڑے نظر آئےتھے جنہیں شاید تھوڑی ہی دیر پہلے زمین سے اکھاڑ کر پھینکا گیا تھا۔ یہ چھتری کی شکل کے ان بڑے درختوں کے پودے تھے جن کی قطاروں نے وادی کو گھیرے میں لے رکھاتھا۔ مجھے ان درختوں کا نام نہیں معلوم تھا لیکن میں نے کبھی کبھی ان کے نیچے آرام کیا تھا۔ ان کے تنے سفیدی مائل اور شاخیں گھنی تھیں اور ان کے سائے میں نیند آتی تھی۔ میں نے زمین پرپڑے ہوئے پودوں کو غور سے دیکھا۔ ان میں سے دوکی جڑیں سلامت تھیں۔ انہیں احتیاط سے اٹھا کر میں نے ان کی جڑوں پر بڑے درختوں کے نیچے کی مرطوب مٹی چڑھادی اور اپنے گھر کارخ کیا۔ گھر پہنچتے پہنچتے میں فیصلہ کرچکا تھا کہ انہیں اپنے باغ میں کہاں پرلگاؤں گا۔ میں راستے میں رکانہیں، البتہ ایک چھوٹی جھیل کے کنارے سے گزرتے ہوئے میں نے جھک کر تھوڑا پانی چلو میں لیا اور پودوں کی پتیوں پر چھڑک دیا۔ میرا اندازہ ہے کہ ٹھیک اسی وقت سلطان کا گماشتہ میرے گھر کی طرف روانہ ہوا ہوگا۔

میں اپنے باغ میں دونوں پودوں کو بٹھا چکا تھا اورانہیں دھوپ سے بچانے کی تدبیریں کررہاتھا۔ ان میں سے ایک کے گردمیرے گھرکے بچوں نےگھیرا ڈال رکھا تھا۔ وہ اپنےکھیلنے کی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے باری باری اس پر سایہ کررہےتھے اور اس نئے کھیل سے اس قدر خوش تھے کہ اپنی اپنی باری کےلئے جھگڑ رہےتھے۔ میں دوسرے پودےکی پتیوں پر پانی کے چھینٹے ماررہاتھا کہ اس پر سلطان کے گماشتے کی پرچھائیاں پڑی۔ میں نے پرچھائیں کو پہلے، گماشتے کےبعد میں دیکھا۔ بچوں نے پودے کو چھوڑ کر گماشتے کے گرد گھیرا ڈال دیا لیکن کچھ دیر تک اس کے لباس کوغور سے دیکھنے کے بعد وہ اس سے ڈرگئے اور بھاگ کر گھر کے اندر جا چھپے۔

میں نے اس کے لباس کوغور سے دیکھا اس لئے کہ سلطانی گماشتوں کےپاس ان کے لباس کےسوا کوئی زبانی یا تحریری پیغام نہیں ہوتا۔ ان کی آمد کا مقصد ان کے مقررہ لباس سے معلوم ہوتا ہے۔ اس گماشتے کی آمدکا مقصد یہ بتانا ہوتا تھا کہ سلطان کو مجھ سے کوئی خدمت لینا ہے اور مجھے گھر پررہ کر اس کے حکم کا انتظار کرناہے۔ یہ گماشتہ، یا اس لباس والا گماشتہ میرے یہاں پہلے بھی آتا رہتا تھا، لیکن اس وقت اسے دیکھ کر مجھ کو تھوڑا تعجب ہوا۔ اس لئے کہ سلطان کی صحرائی مہم کو سر ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے اور بہ ظاہر ایک مدت تک اس بات کی توقع نہیں تھی کہ اسے پھر کوئی ایسی مہم درپیش ہو جس کے لئے واقعہ نویس کی ضرورت پڑے، لیکن سلطان کا توقع کے خلاف کام کرناکوئی ایسی بات نہیں تھی جس پر دیر تک تعجب کیاجاتا، اس لئے میرے نزدیک اس دن کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ میرے لگائےہوئے دو پودوں میں سے ایک سلطانی گماشتے کے پیروں کے نیچے آکر کچل گیا تھا، لیکن دوسرا پودا محفوظ تھا اور اس کے بڑے ہوجانے کے بعد میں اس کے نیچے آرام کر سکتا تھا۔

(۲)

میں اس کے نیچے آرام کر رہا تھا کہ مجھے ایک پرچھائیں حرکت کرتی نظر آئی اور سلطان کا ایک گماشتہ میرے سامنے آکرکھڑا ہو گیا۔ گماشتوں کو پہچاننا مشکل نہیں ہوتا اگرچہ ان کے لباس مختلف ہوتے ہیں۔ میں نے کئی بار اوپر سے نیچے تک اس کے لباس کی ہرچیز کو، سلائی کے دھاگوں تک کو، غور سے دیکھا اور باربار اپنے ذہن پر زور دیا۔ گماشتہ میرے اس معائنے کو خاموشی سے دیکھ رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں دبی دبی حیرت نظر آرہی تھی۔ آخر میں اس سے بات کرنے پرمجبور ہوا۔

’’اب میری نگاہ ٹھیک کام نہیں کرتی۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔

’’ظاہر ہے۔‘‘ وہ میرے بالکل قریب آکر بولا، ’’اس لئے کہ مجھے دیکھنے کے بعد بھی تم جہاں تھے وہیں ہو۔‘‘

اور مجھے یاد آگیا۔

’’طلبی۔‘‘ میں نے کہا۔

’’فوراً۔‘‘

گماشتہ تیزی سے مڑگیا۔ درخت کی ایک ابھری ہوئی جڑ سے اسے ٹھوکر لگی اور شاید چوٹ بھی آگئی۔ جب وہ واپس ہو رہا تھا تو اس کے پاؤں میں ہلکا سا لنگ تھا۔ شاید اسی لئے میں اس سے پہلے گھر سے باہر نکلا۔ کچھ دور چل کر میں رکا اور جب گماشتہ مجھ سے چند قدم آگے ہوگیا تو میں اس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

سلطان سے حکم لے کر واپس آتےہوئے میں نے اپنی پرانی عادت کے مطابق بازاروں والا راستہ اختیار کیا۔ کئی چھوٹے بازاروں میں رک رک کروہاں کی خرید و فروخت کو دیکھتا ہوا میں بڑے بازار میں داخل ہوا۔ بازار قریب قریب ویسا ہی تھا جیسا میں نےاسے آخری باردیکھا تھا، البتہ مجمع وہاں پہلے سے زیادہ نظر آرہا تھا۔ بازار والوں کی مقررہ جگہوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی اس لئے میری نظر سب سے پہلے ان باغبانوں پرپڑی جو زمین پرپھول پودے بچھائے بیٹھے تھے لیکن ان میں وہ بوڑھا باغبان دکھائی نہیں دے رہا تھا جس سے میں ہمیشہ اورکبھی کبھی بلا ضرورت بھی پودے خریدا کراتا تھا۔ دوسرے باغبانوں کے بر خلاف وہ اپنے مال کواس طرح ترتیب کے ساتھ سجا کر بیٹھتا تھا کہ اس کے سامنے ایک چھوٹا سا باغ لگاہوا معلوم ہوتا تھا۔ بازار کے دوسرے باغبانوں کی طرح وہ بھی سلطانی باغوں میں کام کرتاتھا اوران فاضل پودوں کو بازار میں لے آتا تھا جو باغوں کی آرائشی ترتیب میں خلل پیدا کرنےکی وجہ سے اکھاڑ دیے جاتے تھے۔

بازار کے اس سرسبزحصے میں اس وقت میرے علاوہ صرف ایک گاہک اور تھا۔ باغبانوں نے ہمیں دیکھتے ہی پکار پکار کر مختلف پھولوں اور پودوں کے نام گنانا شروع کر دیے۔ یہ ان کا دستور تھا،لیکن وہ بوڑھا باغبان ان موقعوں پر خاموش رہتا تھا۔ اس وقت بھی میں نے دیکھا کہ ان بولتےہوئے باغبانوں کے ہجوم میں ایک آدمی چپ بیٹھا ہے۔ میں اس کے سامنے جاکر رکا تو وہ خاموشی کے ساتھ اپنے سامنے لگے ہوئے پودوں کو ادھر سے ادھر کرنے لگا۔ میں نے زمین پربیٹھ کر یوں ہی کچھ پودے اٹھا کے دیکھے، پھر پوچھا:

’’یہاں ایک بوڑھا بیٹھا کرتا تھا، پودوں کو سجا کر۔‘‘

اس نے اثبات میں سرہلا دیا اور میں نے دیکھا کہ دوسرا گاہک بھی میرے قریب آکر بیٹھ گیا ہے اور ایک بڑے زرد پھول کی پنکھڑیوں کو چھیڑ رہا ہے۔ میں نے نوجوان باغبان کو ایک نظر دیکھ کر اس میں بوڑھے باغبان سے مشابہت تلاش کی۔

’’وہ تمہارا کون تھا؟‘‘

’’دادا۔‘‘ اس نے کہا۔

’’تم بھی سلطانی باغ میں کام کرتے ہو؟‘‘

اس نے پھر اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’اپنے دادا کی جگہ پر؟‘‘

’’باپ کی جگہ پر۔‘‘ اس نے کہا۔

میں نے پورے بازار پر نظر دوڑائی اور پھر محسوس کیا کہ مجمع زیادہ ہو جانے کے سوا اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوئی ہے، البتہ میرے داہنی جانب جس بڑے چبوترے پرتماشے دکھائے جاتے تھے وہ پہلے سے کچھ زیادہ اونچا معلوم ہو رہا تھا اور اس کےکنارے جگہ جگہ سے کٹ گئےتھے۔ چبوترے پر مجمع بازار کے دوسرے حصوں سے زیادہ تھا لیکن وہاں پہلے بھی مجمع زیادہ رہتا تھا۔ میں پھر باغبان کی طرف متوجہ ہوگیا۔

’’بڑے درختوں کے پودے نہیں ہیں؟‘‘

اس نے کچھ پودے الگ کرکے میرے سامنے رکھ دیے۔ میں نے پودوں کو سرسری طور پر الٹ پلٹ کر دیکھا۔ دوسرا گاہک اب بھی زرد پھول کو چھیڑ رہا تھا اور اس کی دو پنکھڑیاں نیچے لٹک آئی تھیں،لیکن وہ پھول کے بجائے میری طرف دیکھ رہا تھا۔

’’تم اسے خراب کر رہے ہو۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔

’’یہ میں نے لے لیا ہے۔‘‘ اس نے باغبان کو بتایا اور پھول کے پودے کو کھینچ کر باہر نکال لیا۔

اس کے بعد بھی وہ وہیں بیٹھا رہا۔ مجھے خیال ہوا کہ کسی وجہ سے وہ میرے ساتھ ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ میں نے ایک بار اس کو غور سے دیکھا لیکن اس کی صورت میری پہچانی ہوئی نہیں تھی۔ میں نے اپنی یادداشت پرزور دےکر اسے دیکھا لیکن اس میں مجھے اپنے کسی جاننے والے کی مشابہت بھی محسوس نہیں ہوئی، پھر بھی وہ بار بار میری طرف دیکھ رہا تھا اس لئے مجھے الجھن سی ہوئی اور میں گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر اٹھنے لگا لیکن اسی وقت میری نظر باغبان کے پہلو میں سبز پودوں کے ایک چھوٹے سے ڈھیر پر پڑی۔ میں بیٹھ گیا۔ پھر اٹھا اور گھوم کر باغبان کے پہلو میں آیا۔میں نے ایک پودے کو اٹھا کر دیکھا،پھر باغبان سے کہا:

’’ان کی جڑیں نہیں ہیں۔‘‘

’’یہ لگانے کے لئے نہیں ہیں۔‘‘

’’پھر؟‘‘ دوسرے گاہک نے پوچھا۔

’’یہ لوگ لے جاتے ہیں۔‘‘ باغبان نے کہا، ’’انہیں کھلانے کے لئے‘‘ اور اس نے تماشوں والے چبوترے کی طرف اشارہ کیا۔ دوسرا گاہک اب میرے پہلو میں کھڑا تھا۔ اس نے جھک کر ان میں سے دو تین پودے اٹھائے اور باغبان سے پوچھا:

’’ان میں کیا خاص بات ہے؟‘‘

’’زہر۔‘‘

اور میں سمجھ گیا کہ چبوترے پر کون لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ میں نے باغبان سے، یا شاید اپنے آپ سے پوچھا: ’’یہ لوگ پھر آنے لگے ہیں؟‘‘

’’کیا یہ لوگ پہلے بھی آتے تھے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔

وہ پہلے بھی آتے تھے۔ صحرا ان کا مسکن تھا اور ہرسال تماشوں کے موسم میں ایک بارشہر کی طرف ان کاپھیرا ہوتاتھا۔ وہ دوپہر سے لے کر سورج ڈھلنے تک اپنا تماشا دکھاتےتھے۔ اورجب تک وہ چبوترے پرموجود رہتے دوسرے تماشا گردوں کی طرف کوئی رخ نہ کرتاتھا۔ اس لئے کبھی کبھی دوسروں سے ان کا جھگڑا بھی ہوجاتا جسے تماشائی ختم کراتے تھے۔

اوران کا تماشا یہ تھا کہ وہ سب کچھ کھالیتےتھے۔ تماشائی ان کے لئے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ایسی چیزیں لاتےجنہیں ان کے خیال میں کوئی انسان بلکہ کوئی جانوربھی نہیں کھاسکتا تھا۔لیکن یہ صحرا کے رہنے والے ہرچیز کھالیتے اور اس کےبدلے میں تماشائیوں سے انعام پاتے تھے۔ لوگ ان کا تماشا دیکھ کر کبھی ہنستے ہنستے زمین پر بیٹھ جاتے، کبھی خوف زدہ ہوکر پیچھے ہٹنے لگتے اورکبھی کراہت سے منھ پھیر لیتے۔ اس تماشے سے کسی کسی تماشائی کی طبیعت بگڑجاتی اور اس کے ساتھی اسے الگ ہٹالے جاتے، لیکن چبوترے پر لگا ہوا مجمع دوپہر سے لے کر سورج ڈھلنے تک کسی بھی وقت کم نہ ہوتا تھا۔

سلطان کی صحرائی مہم شروع ہونے سے کئی موسم پہلے ہی ان لوگوں نے شہر میں آنا چھوڑ دیا تھا۔ صحرائی مہم ختم ہونے کے بعد بھی یہ لوگ نہیں آئے۔ مجھے یقین تھا کہ شہر میں اب ان کا تماشا کبھی دیکھنے میں نہیں آئےگا، لیکن اس وقت وہ تماشا دکھارہےتھے اور بڑے بازار کے چبوترے پر مجمع ہمیشہ سے زیادہ تھا۔ اس مجمعے میں سے دوتین تماشائی چبوترے پرسے نیچے کودے اور آپس میں ہنسی مذاق کرتے ہوئے ہماری طرف آئے۔

’’لاؤ‘‘ ان میں سے ایک نےہاتھ بڑھا کر باغبان سے کہا۔ دوسرے گاہک نے اپنے ہاتھ کے پودے زمین پر ڈال دیے اور تماشائیوں نے دوسرے پودوں کے ساتھ انہیں بھی سمیٹ لیا۔ تماشائیوں کے واپس جانے کے بعدمیں مڑا۔ مجھے باغبان کی آواز سنائی دی۔

’’ان کے زہر کا کوئی توڑ نہیں ہے۔‘‘ وہ کہہ رہا تھا، ’’انہیں شہر کے اندر نہیں لگایا جاتا۔‘‘

میں تماشوں والے چبوترے کی طرف بڑھ گیا۔

(۳)

سورج ڈھلنے میں ابھی دیر تھی۔ چبوترے کے قریب پہنچ کر میں رکا۔ دوسرا گاہک میرے برابر سے ہوتا ہوا چبوترے پر چڑھ گیا۔ میں نے اسے تماشائیوں کی بھیڑ میں گم ہوتے دیکھا۔ لیکن جب میں بازار سے آگے بڑھ کر صحرا کے راستے پر مڑا تو وہ کچھ فاصلے پر میرے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ میں خاموشی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ شہر کی حد ختم ہونے کے قریب پہنچی اور دور پر صحرا کا حاشیہ نظر آنے لگا۔ میں رکا اور سستانے کے لئے ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیربعد وہ میرے سامنے کھڑا تھا۔ میں نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ وہ بھی خاموشی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ آٓخر میں نے اس سے پوچھا:

’’کیا مجھے پہچانتے ہو؟‘‘

اس نے میرے قریب کے پتھر پر بیٹھ کر انگڑائی سی لی۔

’’پہچانتے ہو؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔

’’سلطان مظفرکا واقعہ نویس۔‘‘ اس نے اعلان کرنے کے سے انداز میں کہا، ’’اس مقبرے کے بننے کا حال لکھنے جا رہا ہے جسے اس نے بنتے نہیں دیکھا۔‘‘

اس کے بعد وہ یوں چپ ہو گیا جیسے اس نے کچھ کہا ہی نہ ہو۔

’’سلطان کا کارندہ۔ ’’میں نے سوچا اور اس سے پوچھا: ’’کیا تم مجھے اذیت دینے کے لئے مقرر ہوئے ہو؟‘‘

لیکن وہ خود کسی اذیت میں مبتلا معلوم ہوتا تھا۔ مجھے اس کے ساتھ مبہم سی ہمدردی محسوس ہوئی۔

’’میں تمہیں مقبرے کو دیکھتے ہوئے دیکھنے پر مامور ہوا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔

’’صرف دیکھنے پر؟‘‘

’’اور اس پرکہ جب تم اس کی تعمیر کا واقعہ لکھ لو تو میں اس کی تاریخ لکھوں۔‘‘

مجھے حیر ت ہوئی، اس لئے کہ اس کی عمر زیادہ نہیں معلوم ہوتی تھی۔

’’سلطانی مورخ؟‘‘ میں نے پوچھا، ’’اور وہ جو تم سے پہلے تھا؟‘‘

’’مجھ سے پہلے کئی تھے۔‘‘

’’وہ جو صحرائی مہم کے زمانے میں تھا۔‘‘

’’اسے مرنا پڑا۔‘‘

اسی وقت صحرا کی طرف سے آتے ہوئے لوگوں کاایک جتھا ہمارے قریب سے گزرا۔ یہ دوسرے شہروں کے رہنےوالے معلوم ہوتے تھے۔ پھر کچھ اورجتھے گزرے۔صحرا کی طرف جاتاہوا مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ کچھ دیر تک ہمارے آس پاس سناٹا رہا، پھر راستوں پر عارضی دکانیں لگانے والے اپنے اپنے مال کے ساتھ تیزقدموں سے ہماری طرف آتے دکھائی دیے۔ ہمارے قریب پہنچ کر ان میں سے ایک دو ذرا سا رکے، لیکن ہمارا دھیان کسی بھی طرف نہ دیکھ کر آگے بڑھ گئے۔ پھر مجھے اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محسوس ہونے لگا کہ اب صحرا میں سناٹا ہے۔ اسی وقت میرا ساتھی اٹھ کھڑا ہوا۔

’’وقت ہوگیا۔‘‘ اس نے کہا اور صحرا کی طر ف چل دیا۔

میں نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا اور اٹھ کر اس کے برابر چلنے لگا۔ ہم خاموشی کے ساتھ راستہ طے کرتے ہوئے صحرا کے حاشیے تک آگئے۔ مجھے دور پر ایک عمارت کا ہیولا نظر آیا۔ اس تک پہنچنے کے لئے ایک لمبی سیدھی سڑک بنادی گئی تھی۔ سڑک پر پتھر کی چھوٹی چھوٹی سلوں کا فرش تھا جس کے دونوں کناروں پر پتھر ہی کی نیچی نیچی سے خانوں دار دیواریں اٹھائی گئی تھیں۔ سڑک دونوں کناروں پراتنی ڈھلواں تھی کہ اس پر جمع ہونے والی ریت دیوارں کے نچلے خانوں سے مسلسل باہر گر رہی تھی جیسے شہر کی برسات میں نالیوں سے پانی نکلتا ہے۔ ہم اس سڑک کو بھی خاموشی کے ساتھ طے کرتے رہے۔ مقبرہ اب نظر نہیں آ رہا تھا اور سڑک رفتہ رفتہ بلند ہوتی جارہی تھی یہاں تک کہ اس کا خاتمہ ایک اونچے چبوترے کی سیڑھیوں پر ہوا۔

ہم سیڑھیاں چڑھ کرچبوترے پرپہنچے۔ چبوترے کے دوسری جانب ویسی ہی ایک سڑک نشیب کی طرف جارہی تھی۔ اس سیدھی سڑک پربہت آگے جہاں اس کی دونوں دیواریں قریب قریب ملی ہوئی نظرآرہی تھیں، مقبرہ اس کے راستے میں حائل تھا اورایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک ایک نوک کی طرح اسے چیرتی ہوئی دوسری طرف صحرا کے قلب تک پہنچ گئی ہے۔

میں پھر تھک گیا تھا۔ صحرا کی ہوا کے گرم تھپیڑے میری تھکن کو بڑھا رہے تھے۔ لیکن ان میں قریب آتی ہوئی شام کی خنکی بھی شامل ہونے لگی تھی اس لئے میں نے کچھ دیر چبوترے پر سستانےکا فیصلہ کیا۔ چبوترے کا سفید سنگی فرش گرم تھا، پھر بھی میں اس پر بیٹھ سکتا تھا۔ میں بیٹھ گیا۔ اتنے فاصلے سے مقبرے کی عمارت میں مجھے کوئی انوکھا پن محسوس نہیں ہوا۔ اس کی کٹاؤدار مدور چھت پر ڈھلتے ہوئے سورج کی روشنی پڑ رہی تھی۔ میں نے کہا:

’’اس کی چھت۔۔۔‘‘

’’نہیں ہے،‘‘ میرا ساتھی بولا،’’صرف دور سے نظر آتی ہے۔‘‘

نگراں کے انتطار میں مجھ کوسنگی فرش پرکچھ دیر اور بیٹھنا پڑا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اسی سڑک سے آئے گا جس سے ہم آئے تھے، لیکن وہ مقبرے کے پیچھے سے گھوم کر آتا دکھائی دیا۔ تیزی سے چلتا ہوا وہ چبوترے پر چڑھا، رسمی انداز میں ہمارے سامنے جھکااورآہستہ سے پیچھے مڑ کر ہمارے آگے آگے چلنے لگا۔ چبوترے سے مقبرے کا فاصلہ میرے اندازے سے کم تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہم اس کے پھاٹک کے سامنےکھڑے تھے۔ یہاں پہنچ کر نگراں نے بولنا شروع کیا۔ زمین کی پیمائش سےلےکر پتھر کی آخری سل کے رکھےجانے تک کا حال اس نے اس طرح بیان کیا جیسے مجھ کو مقبرہ بنتے دکھا رہا ہو،کہیں کہیں تو مجھے ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں اس کا کہا ہوا سن نہیں رہا ہوں بلکہ اپنا لکھا ہوا پڑھ رہا ہوں۔

بیان ختم کرنے کے بعد نگراں چبوترے کی سمت بڑھا تھا کہ میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا۔

’’تم نے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن میں اسے دیکھنا بھی چاہتا ہوں۔‘‘

پھر میں پھاٹک کے اندر داخل ہوگیا۔ مجھے ہر طرف دیواریں ہی دیواریں نظر آئیں۔ آگے پیچھے بنی ہوئی اونچی اونچی دیواریں، مختلف زاویوں سے ایک دوسرے کے قریب آتیں، پھر دور ہوجاتیں۔ سب سے اونچی دیواریں سب سے پیچھے تھیں۔ یہ نیم دائرے کی شکل میں اٹھائی گئی تھیں اور یہی دور سے چھت کا فریب دیتی تھیں۔ دیواروں کی کثرت سے اور کچھ اس وجہ سے کہ سورج نیچا ہو چکا تھا، مقبرے کے اندر اندھیرا اندھیرا سا تھا اور اس پر چھت کا نہ ہونا محسوس نہیں ہوتا تھا۔ دیواروں نے ادھر ادھر گھومتی ہوئی راہ داریوں کی بھول بھلیاں سی بنادی تھی جس کے وسط کا پتا لگانا ممکن نہ تھا۔ اور جب میں نے باہر نکلنا چاہا تو مجھے راستہ نہیں ملا۔ شاید اسی لئے لوگ دور دور سے مقبرے کو دیکھنے آتے تھے۔ میں دیر تک ان راہ داریوں میں بھٹکتا پھرا یہاں تک کہ نگراں مجھے ڈھونڈھتا ہوا آ پہنچا۔

کچھ دیر بعد ہم پھر اسی چبوترے پر تھے۔ میں نے نگراں سے کہا۔

’’مجھے کچھ اور بھی معلوم کرنا ہے۔‘‘

وہ کچھ پریشان سا نظر آنے لگا۔

’’میں نے شروع سے آخر تک سب بتا دیا ہے۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔

’’تم نے اسے شروع سے آخر تک بنتے دیکھا ہے؟‘‘

وہ چپ رہا۔

’’اسے بنانے میں صرف شہر کے لوگوں سے کام لیا گیا تھا؟‘‘ میں نےپوچھا۔

’’بعد میں صحرا والوں سے بھی۔‘‘

’’ان کا نگرا ں کون تھا؟‘‘

’’میں تھا۔‘‘

’’کیا انہیں معلوم تھا کہ وہ مقبرہ بنا رہے ہیں؟‘‘

’’معلوم تھا۔ انہیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا۔‘‘

’’کہ وہ سلطان کا مقبرہ بنا رہے ہیں؟‘‘

وہ پھر چپ رہا اور پہلے سے زیادہ پریشان نظر آنے لگا۔

’’مقبرے کے لئے جگہ کس نے مقرر کی تھی؟‘‘

’’سلطان نے۔ ’’

’’پتھر کہاں سے آیا؟‘‘

’’بتا چکا ہوں۔ مقبروں والی وادی کے پار پہاڑوں کا جو سلسلہ ہے۔۔۔‘‘

’’۔۔۔وہاں سے لایا گیا تھا، مگر کس عمارت کے لئے؟‘‘

’’وہ مقبرے میں لگایا گیا ہے۔‘‘

’’مقبرہ ٹھیک اس جگہ پر ہے جہاں صحرائی مہم والا قلعہ تھا۔ قلعے میں کون سا پتھر استعمال ہوا تھا؟‘‘

اس نے قدرے حیرت سے میری طرف دیکھا اوربولا: ’’مجھے مقبرے کاحال بتانے کا حکم ہوا ہے، قلعہ میں نے نہیں دیکھا۔‘‘

’’اسے گرا دیا گیا تھا۔‘‘ میں نے اس کو بتایا۔

نگراں خاموش کھڑا رہا۔ میں نے مقبرے کی طرف جاتی ہوئی سڑک کو دیکھا، پھر صحرا میں آتی ہوئی سڑک کو۔ دونوں سڑکیں ایک سی تھیں، بلکہ اگر چبوترہ نہ ہوتا تو وہ ایک ہی سڑک تھی۔

’’یہ چبوترہ۔۔۔‘‘ میں نے چبوترے کے خوبصورت ترشے ہوئے سفید پتھروں پر جھک کر پوچھا، ’’۔۔۔یہ چبوترہ کیوں بنایا گیا ہے؟‘‘

’’آرام کرنے کے لئے۔‘‘ اس نے جواب دیا۔

’’اس کے اوپر؟‘‘

’’ظاہر ہے۔‘‘

’’اس کے نیچے کیا ہے؟‘‘

’’ریت۔‘‘

’’اس کی جگہ بھی سلطان نے مقرر کی تھی؟‘‘

’’نہیں، سلطانی کارندوں میں سے کسی نے۔ ’’ وہ بولا، ’’ مگر سلطان ہی کے حکم سے۔‘‘

’’ظاہر ہے۔‘‘ میں نے بھی کہا۔

وہ بار بار سورج کی طرف دیکھ رہا تھا اس لئے میں نے اس سے آخری سوال کیا؟

’’مجھے یہ بتانا کیوں ضروری نہیں تھا کہ مقبر ے میں قلعے کا پتھر استعمال ہوا ہے؟‘‘

’’میں نے وہ سب بتا دیا ہے جو بتانے کا مجھے حکم تھا۔‘‘ اس نے کہا، اور مجھے اس کے لہجے میں جھلاہٹ کے ساتھ ہلکے سے خوف کی آمیزش محسوس ہوئی، ’’اس کے سوا تم جو کچھ لکھوگے وہ میرا بتایا ہوا نہیں ہوگا۔‘‘ پھر وہ میرے ساتھی کی طرف مڑا اور بولا، ’’اور اس کی گواہی تمہیں دینا ہوگی۔‘‘

وہ چبوترے سے شہر کی طرف والی سڑک پر اترا اور اس کے بائیں پہلو کی دیوار پر ہاتھ ٹیکتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ سڑک کے ڈھلواں کنارے پر جمع ہونے والی ریت اس کے پیروں سے منتشر ہو کر دیوار کے نچلے خانوں سے اور بھی تیزی کے ساتھ باہر گرنے لگی اور ڈوبتے ڈوبتے سورج کی روشنی اس کے بہت سے ذرے مجھے چنگاریوں کی طرح چمکتے نظرآئے۔ نگراں کے آخری جملے نے مجھے اپنے ساتھی کا وجود یاد دلا دیا تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی عمر واقعی کم تھی۔ میں نے اس سے پوچھا: ’’تمہیں تاریخ لکھناکس نے سکھایا؟‘‘

’’کسی نے نہیں۔‘‘ وہ بولا، ’’میں نے صرف پڑھا ہے۔‘‘

’’کتنا پڑھا ہے؟‘‘

اس نے کئی علموں کے نام گنا دیے۔

’’اور تاریخ؟‘‘

’’صرف ایک۔ صحرائی مہم کی تاریخ۔‘‘

مجھ کو صحرائی مہم کے زمانے والا مورخ یاد آیا۔ وہ میرا واحد دشمن تھا۔ مجھے اس کی آواز یاد آئی اور یہ بھی کہ جب وہ ہنستا تھا تو اس کی آنکھیں اپنے آپ بند ہو جاتی تھیں۔

’’تم نے کہا تھا اسے مرنا پڑا؟‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ہاں۔ صحرائی مہم کی تاریخ سلطان کو پسند نہیں آئی تھی۔‘‘

’’لیکن وہ بہت اچھا مورخ تھا۔‘‘

’’اس نے تاریخ میں وہ سب لکھ دیا تھا جو صحرائی مہم کے واقعہ نویس نے لکھا تھا۔‘‘ وہ بولا، کچھ رکا۔ پھر بولا، ’’یہ بات اس نے اپنی صفائی میں بھی کہی تھی۔‘‘

’’صفائی میں؟‘‘ میں نےپوچھا، ’’اور اس پرالزام کیاتھا؟‘‘

’’یہی۔ اس نے تارخ میں وہ سب لکھ دیاتھا جو واقعہ نویس نے لکھا تھا۔‘‘

’’اسے کس طرح مرنا پڑا؟‘‘

’’کسی درخت کے زہریلے پھل کھا کر۔‘‘

’’سلطان کے حکم سے؟‘‘

’’اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘‘ میں نے پھر پوچھا:

’’سلطان کے حکم سے؟‘‘

’’سلطان کےحکم سے وہ تاریخ اب میں لکھ رہا ہوں۔‘‘

’’وہ اب تمہارے پاس ہے؟‘‘

اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔

’’اور واقعہ نویس کا بیان بھی؟‘‘

’’واقعہ نویس کا بیان بھی۔‘‘

’’اسے ضائع نہیں کیا گیا؟‘‘

’’کیا جائے گا، جب میں تاریخ لکھ کر سلطان کو پیش کروں گا، مجھے یقین دلایا گیا ہے۔‘‘

’’کہاں تک لکھ چکے ہو؟‘‘

’’صحرا میں سلطان کا پہنچنا۔۔۔‘‘

’’۔۔۔اور قلعے میں۔۔۔‘‘

میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، اوراس نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا: ’’کوئی قلعہ نہیں تھا، اور قلعے میں کوئی عورت نہیں تھی۔‘‘ میں نے اور زیادہ حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔

’’تم نے لکھا ہے۔‘‘ وہ تیز آواز میں بولا، ’’میں نہیں لکھوں گا۔ مجھے اس کا حق دیا گیا ہے۔‘‘

’’اس لئے یہ تمہارا فرض ہے۔‘‘ میں نے دھیمی آواز میں کہا۔

’’مگر ہم اس کی، مہم کی بات کیوں کر رہے ہیں۔‘‘ اس نے کہا، پھر مجھے چبوترہ کے سنگی فرش پر بیٹھتے دیکھ کر میری طرف بڑھا اور بولا، ’’کچھ دیر میں یہاں اندھیرا ہو جائے گا۔‘‘

’’میں ابھی یہیں رہوں گا،’’ میں نے کہا، ’’ شاید یہاں مجھے صبح ہو جائے۔‘‘

’’آج ہی سے لکھنا شروع کردوگے؟‘‘

’’نہیں۔ کاغذمجھے کل ملیں گے۔‘‘ میں نے کہا، پھر اسے بتایا،’’واقعہ نویسی سلطانی کاغذوں پر ہوتی ہے۔ کاغذ تمہیں بھی ملیں گے لیکن ان پر سلطان کی مہر نہیں ہوگی اور وہ گن کر نہیں دیے جائیں گے۔‘‘

اسے یہ بتاتے وقت مجھے خیال نہیں رہا کہ اس کے پاس ایک واقعہ نویس کا بیان موجود ہے اور وہ خود تاریخ لکھنا شروع کر چکا ہے۔ اس نے میری بات کو بے توجہی سے سنا، البتہ ابھی تک وہ مجھ سے خفا خفا سا تھا لیکن اب اس نے میرے برابر زمین پربیٹھ کر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور رازدارانہ لہجے میں بولا: ’’اس مقبرے کا بننا۔۔۔ کیا ایسا نہیں ہوسکتا ہے ہم دونوں اس کے بننے کا حال ساتھ ساتھ لکھیں؟‘‘

’’پھر تمہیں بھی اپنی صفائی میں کہناپڑے گا کہ تم نے وہی سب لکھ دیا ہے جو مقبرے کی تعمیر کے واقعہ نویس نے لکھا تھا۔‘‘

وہ کچھ دیر گم سم بیٹھا رہا۔ پھرمیرے کندھے پرزور دے کر اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:

’’مجھے دیر ہو رہی ہے۔‘‘

’’تمہارا کام میرے بعد شروع ہوگا۔‘‘ میں نے کہا،’’ابھی آرام کرو۔‘‘

’’اور تم یہیں رہوگے؟‘‘ اس نے قدرے تشویش کے ساتھ کہا، ’’یہاں رات کو ٹھنڈک زیادہ ہو جاتی ہے۔‘‘

’’میں برداشت کرلوں گا۔‘‘ میں نےکہا، ’’نہیں مقبرے کے اندر پناہ لوں گا۔‘‘

اس وقت نہ مجھے خیال آیااورنہ شاید اسے کہ مقبرے میں صرف دیواریں ہیں۔

اس کے جاتے ہی صحرا میں اندھیرا پھیلنا شروع ہوا اور میرے سامنے مقبرے کی عمارت دھندلا گئی۔ میں کئی بار پہلو بدل کر ذرا آرام سے بیٹھ گیا۔ اب صرف اتنا معلوم ہوتا تھا کہ سامنے کوئی عمارت ہے اور اس عمارت کی وجہ سے مجھ کو یہ احساس نہیں ہو رہا تھا کہ میں صحرا میں ہوں۔ کچھ دیر بعد یہ عمارت ایک بہت بڑے دھبے کی طرح رہ گئی اور دیکھنے والے کا تصور اسے کوئی بھی شکل دے سکتا تھا۔ میرے تصور نے اسے قلعے کی شکل دی اور دیکھتے دیکھتے مجھے اس کا برج اور فصیل نظر آنے لگی۔ شہر کی جھیلوں پرسے واپس ہوتے ہوئے صحرا ئی پرندوں کے پروں کی سنسناہٹ میرے قریب سے ہوتی ہوئی دور نکل گئی اور مجھے سلطان کی صحرائی مہم یاد آنے لگی۔ میں نے اسے بھلانا چاہا، لیکن یہ بے سود تھا۔

(۴)

مجھے قلعے کے مشرقی برج میں بٹھایا گیا تھا، گنے ہوئے سلطانی کاغذوں کا پلندہ میرے سامنے تھا۔ سفیدپتھر کاایک خوبصورت مہرہ اسے دبائےہوئے تھا تاکہ ہوا، جو برجوں پرہمیشہ تیزرہتی ہے، کاغذوں کواڑا نہ لے جائے۔ ہر کاغذ کی پیشانی پر سلطان کی سنہری مہر۔۔۔ ایک تاج، دوتلواریں اوران پرسایہ کئے ہوئے ایک چھتری۔۔۔ نکلتے ہوئے سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ مجھے برج میں اس وقت بٹھا دیا گیا تھا جب سورج نکلنے میں دیر تھی، اس لئے میں ان لوگوں کو دیکھ نہیں سکا جو مجھے برج تک لاکر خاموشی سے نیچے اترگئے تھے۔ میں سفید مہرے پرایک ہاتھ رکھے سورج نکلنے کا انتظار کر رہا تھا تاکہ اس کی روشنی کو ہر طرف پھیلی ہوئی ریت کی لہروں پر دوڑتے دیکھوں اور اس کے بعد میری آنکھیں جو کچھ دیکھیں میرا قلم اس کو کاغذ پر لے آئے۔

یہ میرے لئے آسان تھا اس لئے کہ میں جوکچھ دیکھتا اور لکھتا تھا اس کو سمجھنے سمجھانے کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہوتی تھی۔ اور صحرائی مہم کے بارے میں تو مجھے کچھ بتایا بھی نہیں گیا تھا۔ میں شہر کے بازاروں میں صرف یہ سنتا تھا کہ مہم شروع ہو چکی ہےاور سلطان خود بھی صحرا میں ہے۔ پھر آدھی رات کے وقت میری فورا طلبی ہوئی اور اندھیرے ہی میں مجھے سلطانی کاغذوں کے پلندے کے ساتھ مشرقی برج میں بٹھا دیا گیا۔ اس وقت مجھے یہ بھی پتا نہیں تھا کہ میں کسی قلعے کے برج میں ہوں یا میرے بیٹھنے کے لئے بلندی پر کوئی عارضی چوکی بنائی گئی ہے تاکہ صحرا میں دور دور تک جو کچھ ہو وہ مجھے صاف دکھائی دے۔ اس لئے میرا دماغ بالکل خالی تھا اورمیں روشنی کا انتظار کر رہا تھا۔

لیکن جب روشنی پھیلی تومجھے اپنے سامنے قلعے کی فصیل نظر آئی۔ اس کے پیچھے خاموش آسمان کے سوا کچھ نہ تھا۔ میرے برج اور فصیل کے درمیان ایک چھت تھی اور اس چھت پرمیں نے سلطان کو کپڑوں کے ایک ڈھیر پرجھکےہوئے دیکھا۔ وہ اسی طرح جھکا رہا یہاں تک کہ سورج کی پہلی کرنیں آپہنچیں۔ تب وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ چلتا ہوا فصیل تک گیا۔ فصیل اس کے قدسے کچھ کم تھی اس نے پنجوں پرکھڑے ہوکر فصیل کے باہرجھانکا،پھروہ چھت کی طرف بڑھ کر کھڑا ہوگیا۔ کمر سے اوپر وہ پورا جنگی لباس پہنے ہوئے تھا جس کے فولادی حصوں پر سورج کی کرنیں پڑنے سے ستارے سے چمکتے تھے۔

’’ہر طرف صحراہی صرا ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ اس کی بھاری بلند آواز یہاں کھلی فضا میں کچھ کھوکھلی سی معلوم ہوئی اور مجھ کو بہ مشکل سنائی دی۔

’’صحرا ہی صحرا۔‘‘ اس نے پھر کہا اور مجھے گمان ہواکہ وہ مجھ سے مخاطب ہے۔ لیکن اسی وقت مجھے چھت پرکپڑوں کے ڈھیر میں حرکت نظر آئی اور میں نے وہاں پرایک عورت کو کھڑے ہوتے دیکھا۔ اس کا چہرہ اس کے بالوں سے چھپا ہوا تھا اس لئے میں اس کی صورت نہیں دیکھ سکا لیکن جب وہ سلطان کی طرف بڑھی تو اس کی چال سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ شہر کی عورت نہیں ہے۔ تہہ در تہہ لباس نے ا س کے بدن کے زیادہ حصے کو ڈھانپ رکھا تھا پھر بھی مجھ کو اس کی گردن اور ہاتھوں کے کچھ زیوروں کی چمک نظر آئی۔

’’میں دیکھوں۔‘‘ اس نے سلطان کے قریب پہنچ کر کہا اور دونوں ہاتھ فصیل کے اوپر رکھ کر اس طرح زور لگایا جیسے وہ فصیل کے اوپر جانا نہیں بلکہ فصیل کو اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہو۔ سلطان کچھ دیر تک اس کی کوشش کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے عورت کے دونوں شانے پکڑ کر اسے اوپر اٹھایا اور عورت کے چیخنے کی آواز ایک طرف میرے برج سے ٹکرائی اور دوسری طرف دور کہیں صحرا سے آتی سنائی دی۔ سلطان نے اسے زمین پر ٹکا دیا۔ عورت کے بال اس کے جنگی لباس کے بعض نوکیلے حصوں میں الجھ گئے تھے اور وہ تکلیف میں تھی۔ سلطان نے مشکل سے اورآہستہ آہستہ اس کے بال چھڑائے اور اس کے شانے پھر پکڑ لئے۔

’’دیکھو۔‘‘ اس نے عور ت کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا لیکن وہ تڑپ کر اس کی گرفت سے نکل گئی۔

’’مجھے نہیں دیکھنا۔‘‘ وہ نفرت سے بولی اور چھت پرکپڑوں کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر بعد سلطان بھی آ کر اس کے قریب بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا۔ اس اجنبی منظر کو دیکھ کر مجھے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ میں برج میں واقعہ نویسی کے لئے بیٹھا ہوں۔ اس لئے میں چپ چاپ سامنے دیکھتا رہا یہاں تک کہ دھوپ تیز ہوئی اور سلطان کا چہرہ کچھ اور سرخ ہوگیا۔

’’دھوپ پھر بڑھ رہی ہے۔‘‘ اس نے عورت سے کہا، برج کے پہلو کی طرف اشارہ کیا اور اب شاہانہ لہجے میں بولا، ’’ادھر چلو، چھت کے نیچے۔‘‘

’’چھت کے نیچے نہیں۔‘‘ عورت نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا، ’’وہاں میں مر جاؤں گی۔‘‘

اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سلطان یہ جواب کئی مرتبہ سن چکا ہے، اس لئے کہ وہ کچھ کہے بغیر اٹھا، فصیل تک گیا اور باہر جھانک کر پھر عورت کے پاس آگیا۔

’’مجھے واپس جانا ہوگا۔‘‘ اس نے کہا، ’’اور تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا۔‘‘

’’شہر میں نہیں۔‘‘ عورت نے پھر اسی لہجے میں جواب دیا، ’’وہاں چھتیں ہوں گی۔‘‘

دھوپ اور بڑھی اور برج پر کی تیز ہوا میں گرمی آگئی۔ سلطان نے پھر جا کر فصیل سے باہر جھانکا اور برج کے دوسرے پہلو کی طرف آکر کسی کو آواز دی۔

’’اب کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے پوچھا،’’باہر کچھ ٹھیک دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

جواب میں کسی سلطانی کارندے کی آواز سنائی دی جس میں ہلکی سی گونج تھی۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس نے کیا کہا، البتہ اس آواز نے مجھے یاد دلا دیا کہ میں سلطان کی صحرائی مہم کا واقعہ نویس ہوں۔

’’انہیں گھیرا بنا لینے دو۔‘‘ سلطان نے کہا۔

کارندے نے کچھ اور کہا۔ سلطان بولا: ’’نہیں، وہ ساتھ جائے گی۔‘‘

کارندے کے کسی اور سوال کے جواب میں اس نے کہا: ’’یادگار بھی۔‘‘ اس نے مڑکر عورت کی طرف دیکھا، ’’اورثبوت بھی۔‘‘

اس کے بعد اس کی توجہ عورت کی طرف سے قریب قریب ہٹ گئی اور وہ زیادہ تر اسی کارندے سے سوال جواب کرتا رہا۔ کارندے کی بات مجھے کبھی سنائی دیتی، کبھی نہ سنائی دیتی،کبھی سمجھ میں آتی، کبھی نہ آتی، پھر بھی اس طرح مجھ کو صحرائی مہم کی کچھ ایسی تفصیلیں معلوم ہوگئیں جن کی واقعہ نویسی میں آنکھوں دیکھے منظروں کی طرح کر سکتا تھا۔ میں نے اپنے ذہن میں ان منظروں کو ترتیب دینا بھی شروع کر دیا تھا کہ مجھے پروں کی سنسناہٹ سنائی دی اور چھت پر سائے سے گزرتے نظر آئے۔ ان سایوں کے ساتھ لمبی لمبی لکیریں جڑی ہوئی تھیں۔ سائے فصیل سے آگے نکل گئے تو میں نے دیکھا کہ یہ صحرائی پرندوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں تھیں، اور ان ٹکڑیوں کا ہر پرندہ تیرے سے چھدا ہوا تھا۔ سلطان نے ان کی اڑان کو حیرت سے دیکھا۔ مجھے بھی حیرت ہوئی۔ اس لئے کہ یہ پرندے اپنے لمبے پروں کو پورا پھیلائے ہوئے اطمینان کے ساتھ ہوا میں تیر رہے تھے۔ سلطان نے بہ ظاہر اپنے آپ سے کہا: ’’ایسا معلوم ہوتا ہے یہ تیروں کی قوت سے اڑ رہے ہیں۔‘‘

لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ فصیل سے آگے نکل جانے کے بعد یہ پرندے پر پھڑپھڑاتے اور ہوا میں لوٹتے ہوئے نیچےگر جاتے۔ کوئی کوئی پرندہ اتنی تیزی سے لوٹتا کہ اس کے بدن میں چبھے ہوئے تیر سے آسمان میں دائرہ سا بن جاتا تھا۔ یہ منظر میں سلطان کی شکارگاہوں میں بھی بارہا دیکھ چکا تھا۔کئی اور ٹکڑیاں چھت کے اوپر سے گزریں۔ سلطان فصیل سے پیٹھ لگائے انہیں غور سے دیکھ رہا تھا، جیسے پرندوں کا شمار کر رہا ہو۔ اچانک اس نے کمر سے خنجر کھینچ لیا اور کئی قدم آگے بڑھ آیا۔

’’ان میں ایک بہت نیچے آرہا ہے۔‘‘ اس نے وہیں سے اپنے کارندے کو بتایا، ’’اور اس کے تیر نہیں لگا ہے۔‘‘

اسی وقت میں نے دیکھا کہ عورت لپکتی ہوئی سلطان کے قریب آئی، سلطان نے اسے کھینچ کر اپنے پیچھے کر لیا اور خود بھی پیچھے کی طرف خم ہو کر خنجر تانا۔ پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دی، ایک پرندہ سلطان اور عورت پر جھکا، مجھے یقین تھا کہ وہ فصیل سے ٹکرا کر وہیں پر گر جائے گا،لیکن اس نے پروں کو زور سے پھڑپھڑایا اور اوپر اٹھا۔ فصیل سے آگے نکل کر اس نے اپنے پر پورے پھیلا دیے اور ہوا میں تیرتا ہوا غائب ہوگیا۔ یہ سب ایک ساتھ ہوا اور اسی کے ساتھ میں نے عورت کی چیخ سنی۔ سلطان کا خنجر اس کے بالوں میں پھنس گیا تھا اور وہ پھر تکلیف میں تھی۔ سلطان نے جھٹکے دے دے کر اپنے خنجر کو آزاد کیا۔ اس میں بالوں کے کئی لچھے کٹ کر فرش پر گرے اور شاید پتھر کی حدت سے کچھ دیر تک وہیں پر پڑے بل کھاتے رہے۔

سلطان خنجر تانے ہوئے اس پرندے کو آسمان میں تلاش کر رہا تھا کہ فصیل سے بہت دور پر ریت کا ایک بادل سا اٹھا اور آہستہ آہستہ سرکتا ہوا فصیل کے قریب آنے لگا اور اس بار کارندے کی آواز میں نے بالکل صاف سنی۔

’’کچھ ہونے والاہے۔‘‘ وہ کہہ رہاتھا’’اب کھلی جگہ پرٹھہرنا ٹھیک نہیں۔‘‘

’’میں بھی یہاں رہوں گا۔‘‘ سلطان نے جواب دیا،’’انہیں گھیرا بنالینے دو۔‘‘

’’کم سے کم وہ اندربھیج دی جائے۔‘‘

’’وہ بھی یہیں رہے گی۔‘‘

’’شاید وہ اسے ماردینا چاہیں۔‘‘

’’نہیں چاہیں گے۔‘‘ سلطان نے بڑے اعتماد کے ساتھ کہا۔

جواب میں کارندے نے کچھ کہنا شروع کیا تھا کہ اس کی آواز ہوا کے شور میں دب گئی۔ گرم تھپیڑوں نے میرا اپنی جگہ پر بیٹھے رہنا دشوار کر دیا لیکن میں نے سلطانی کاغذوں کو دونوں ہاتھوں سے دبا کر خود کو پتھر کے مہرے کی طرح فرش پر جما لیا۔ مجھے اس کی اچھی مشق تھی، لیکن اڑتی ہوئی ریت سے یہ میرا پہلا سابقہ تھا۔ کرکراتے ہوئے ذرے مجھے اپنے بالوں اور گردن سے ہوکر پیٹھ تک اترتے معلوم ہوئے۔ دھوپ جگہ جگہ سے دھندلا گئی تھی اور ریت کا بادل جو دور پر اٹھا تھا، فصیل سے قریب قریب مل گیا تھا۔ ہوا کا اثر اس پر بھی تھا۔ وہ کبھی دبتا، کبھی ابھرتا، کبھی ادھر جھکتا، کبھی ادھر اور کبھی اپنی جگہ پر ایک بہت بڑے بگولے کی طرح گھومنےلگتاتھا۔ پھراس کے پیچھے سے کئی تیرآئے اور سلطان کے پیروں کے پاس گر گئے۔ سلطان نے اسی سکون کے ساتھ جو خطرناک معرکوں میں ہمیشہ اس کے چہرے پرنظر آنے لگتا تھا، جھک کر ایک تیر اٹھایا اور کچھ دیر تک اس کے پھل کو الٹ پلٹ کو دیکھتا رہا۔ اس نے باقی تیروں کو اپنی جگہ پر کھڑے کھڑے ایک نظر دیکھا اور ہاتھ والا تیر کارندے کی آواز کی طرف پھینک کر بولا:

’’اس پر خون کیسا ہے؟‘‘

کچھ دیر بعد کارندے کی آواز آئی: ’’یہ ہمارا تیر ہے اور خون شاید۔۔۔‘‘

لیکن اچانک اس کی آواز میں کئی اور انسانی آوازیں شامل ہوگئیں اوراسی وقت مجھے فصیل پرصحرائی پرندوں کا جھرمٹ سا نظر آیا۔ کارندے کی آواز کی طرف سے تیروں کی سنسناہٹ سنائی دی اور پرندوں کے کئے گچھے تھوڑے بلند ہوکر فصیل کے پیچھے الٹ گئے، لیکن اتنی ہی دیر میں مجھے ان کے نیچے آدمیوں کے چہرے نظر آگئے تھے۔ پھر سلطان کی آواز بلند ہوئی: ’’ان کی کلغیاں کن پروں کی ہیں؟‘‘

اسے کوئی جواب نہیں ملا اور اس کی آواز پھر بلند ہوئی: ’’یہ کن کے پرہیں؟‘‘

جوا ب میں کمانوں کی ترنگ اور تیروں کی سنسناہٹ سنائی دی اور فصیل کےپیچھے پروں کی کلغیاں جلدی جلدی ابھرنے اور غائب ہونے لگیں۔

’’اب کیا حال ہے؟‘‘ سلطان نے پکار کر پوچھا لیکن وہ شاید ایسے موقعوں پر جواب نہ پانے کا عادی تھا۔ وہ آہستہ آہستہ بڑھتا ہوا زمین پر پڑی ہوئی عورت کے سرہانے پہنچا، کچھ دیر تک اسے غور سے دیکھتا رہا، پھر جھکا اور عورت کو ایک ہاتھ میں قریب قریب لٹکائے ہوئے اٹھا۔‘‘ سب تیرے لئے۔‘‘ اس نے غراتی ہوئی سرگوشی میں کہا،’’سب تیرے لئے۔‘‘

اس کی سرگوشی مجھ کو ہوا کے شور کے باوجود سنائی دی اور اس قت میری نظر پہلی بار عورت کے پورے کھلے ہوئے چہروں پر پڑی۔ شاید بند آنکھوں کی وجہ سے وہ مجھے مری ہوئی سی معلوم ہوئی۔ سلطان اس کو لئے ہوئے اس طرف گھوما جدھر سے کارندے کی آواز آتی تھی۔‘‘ اسے چھت کے نیچے کھینچ لو۔‘‘ اس نے پوری آواز سے کہا۔

عورت کا بدن ہلکے سے تھرتھرایا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ کچھ دیر تک وہ بے تعلقی کے انداز میں سلطان کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔ سلطان کی گھورتی ہوئی آنکھوں میں اچانک پیدا ہو جانے والی سفاکی نے بہ ظاہر اس پر کوئی اثر نہیں کیا۔ اس نے آہستگی لیکن مضبوطی کے ساتھ خود کو سلطان کی گرفت سے چھڑایا اور ہلکے قدموں سے کارندے کی آواز کی سمت چلی، لیکن سلطان نے بڑھ کر اتنی ہی آہستگی اور مضبوطی کے ساتھ اسے پکڑ لیا اور پھر پوری آواز سے کہا: ’’رسیاں پھینکو۔‘‘

اس کی بات پوری بھی نہیں ہوئی تھی کہ دوتین رسیوں کے سر ے اس کے قدموں میں آکر گرے۔ اس نے عورت کی کمر اور شانوں کو کس کر باندھ دیا۔ مجھے زیوروں کی ہلکی کھنک سنائی دی، پھر میں نے رسیوں کو تنتے دیکھا، لیکن اسی کے ساتھ میری نظر فصیل کی طرف اٹھ گئی۔ ریت کا بادل فصیل کے اوپر رکھا ہوا معلوم ہو رہا تھا۔ تیروں کی آواز ہوا کی آواز پر غالب تھی اور بادل کے پیچھے ابھرتے اور غائب ہوتےہوئے پروں کے گچھے صاف نظرنہیں آتے تھے۔ میں نے پھر چھت کو دیکھا۔ سلطان وہاں تنہا کھڑا ہوا تھا۔ ایک ہاتھ دوسرے شانے پر رکھے ہوئے وہ کسی خبر کا منتظر معلوم ہوتا تھا۔

اس وقت مجھے لمحہ بھر کو وہم سا ہوا کہ میں خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن اسی لمحے ہوا کا ایک تھپیڑا میرے منھ پر پڑا اور گرم ریت میری کھلی ہوئی آنکھوں میں گھس گئی۔ میں نے سر جھکا لیا اور اپنی آنکھوں سے پانی بہنے دیا یہاں تک کہ اس کے ساتھ ریت کے سارے ذرے نکل گئے اور میں پھر سے دیکھنے کے قابل ہوا۔ اتنی ہی دیر میں ہوا دھیمی ہوگئی تھی، ریت کا بادل غائب تھا اور فصیل کے پیچھے خاموش آسمان کے سوا کچھ نہ تھا۔ سلطان اسی طرح چپ چاپ کھڑا تھا۔ آخر کارندے کی آواز آئی جس کے ساتھ کئی آوازیں شامل تھیں جو سلطان کو مہم کے سر ہونے کی مبارکباد دے رہی تھیں۔ سلطان نے ایک ہاتھ اوپر اٹھا کر مبارک باد قبول کی، مڑکر فصیل تک گیا،کچھ دیر تک باہر دیکھتا رہا، پھر بولا:

’’صحرا ہی صحرا۔‘‘

اورمجھے پھر گمان ہوا کہ وہ مجھ سے مخاطب ہے اور چھت پر سلطان کے سوا کسی اور کونہ دیکھ کر مجھے اپنا گمان یقین میں بدلتا محسوس ہوا، لیکن وہ میری جانب نہیں دیکھ رہا تھا۔

’’سب حکم کے منتظر ہیں۔‘‘ کارندے کی آواز نےکہا۔

’’واپسی۔‘‘ سلطان نے جواب دیا، پھر ذرا رک کر بولا، ’’اور اسے بتا دو، وہ بھی ساتھ جائے گی۔‘‘

’’وہ۔۔۔‘‘ کارندے کی دہشت زدہ آواز آئی، ’’۔۔۔وہ ختم ہوگئی۔‘‘

سلطان نے فصیل سے پیٹھ لگا لی۔

’’کس طرح؟‘‘ اس نے پوچھا۔

’’کچل کر۔‘‘

’’کیا کوئی چھت گر گئی؟‘‘ سلطان نے پوچھا اور کئی قدم آگے بڑھ آیا۔

’’چھتیں اپنی جگہ پر ہیں۔‘‘ آواز آئی، ’’لیکن وہ کچل کر مری ہے۔ اس کے چہرے سے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ اس کاچہرہ۔۔۔‘‘

’’۔۔۔واپسی۔‘‘ سلطان نے بات کاٹ کر کہا، ’’رات ہونے سے پہلےقلعہ خالی ہو جائے۔‘‘

’’اور وہ؟‘‘

سلطان نے آواز کی طرف دیکھا، میرے برج کی طرف دیکھا، گردن موڑ کر فصیل کی طرف دیکھا، پھر شفاف آواز میں بولا: ’’اسے صحرا میں ڈال دو۔ کچھ دن میں وہ پھر ریت ہوجائے گی۔‘‘

(۵)

نکلتےہوئے سورج کی روشنی مجھے ریت کی لہروں پر دوڑتی دکھائی دی۔ مقبرہ میرے سامنے تھا۔ رات بھر خنکی میں چبوترے پر بیٹھے بیٹھے میرا جسم اکڑ گیا تھا۔ میں نے دھوپ کے کچھ تیز ہونے کا انتظار کیا اور جب میرا بدن ذرا گرم ہوگیا تو میں نے ایک بار پھر مقبرے کو قریب سے جاکر دیکھا۔ واپسی کے راستے کو دھیان میں رکھتے ہوئے میں اس کے پھاٹک میں داخل ہوا اور نیم دائرے میں بنی ہوئی آخری دیواروں تک پہنچ گیا۔ ایک دیوار پر مجھے شبہہ ہوا کہ اس میں اس برج کے پتھر استعمال ہوئے ہیں جس کے فرش پر مجھ کو صحرائی مہم کی واقعہ نویسی کے لئے بٹھایا گیا تھا اور وہاں میں نے کچھ نہیں لکھا تھا۔صحرائی مہم کی روداد میں نے اپنے گھر کے باغ میں بیٹھ کر لکھی تھی جہاں اس وقت تک کوئی بھی سایہ دار درخت نہیں تھا۔ اور اس روداد میں زیادہ تر سنی ہوئی باتیں تھیں جن کو میں نے آنکھوں دیکھے منظروں کی طرح بیان کیا تھا، مگر اس میں وہ بھی تھا جو میں نے برج میں بیٹھے بیٹھے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا جس کی وجہ سے ایک سلطانی مورخ کو، جو میرا واحد دشمن تھا، مرنا پڑا تھا۔

اور اب مجھے اس مقبرے کی تعمیر کا واقعہ لکھنا تھا جسے میں نے تعمیر ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ اس کے بننے کا حال مجھے نگراں نے بتایا لیکن اس کو بنا ہوا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ مجھے نیا سلطانی مورخ اور اس کی کم عمری یاد آئی اور میں آہستہ آہستہ چلتا ہوا مقبرے کے پھاٹک سے باہر آگیا۔ چبوترے پر سے مقبرے کی کٹاؤدار چھت، جو نہیں تھی، خوبصور ت معلوم ہورہی تھی۔ میں دوسری طرف کی سڑک پر اترا۔ راستے میں مجھے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے جتھے ملے جو دور دور سے مقبرے کی سیر کوآرہےتھے۔ میرے اوپرصحرائی پرندوں کے جھنڈتھے جوشہر کی جھیلوں کی طرف جارہے تھے۔ میں کسی بھی طرف دیکھے بغیر بڑے بازار اور چھوٹے بازاروں سے ہوتا ہوا اپنے گھر میں داخل ہوگیا جہاں سلطان کا کارندہ میرا انتظار کررہا تھا۔ اس نے سلطان کے مہری کاغذوں کاپلندہ میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ ہم دونوں نے ایک ساتھ کاغذں کو گنا اور کارندہ واپس چلاگیا۔

یہ سب شروع سے آخر تک میں نے سلطان کے مہری کاغذوں پر لکھا ہے جو گن کر مجھ کودیے گئے ہیں اور گن کر مجھ سے لیے جائیں گے۔ واقعہ نویس کا سلطانی کاغذوں کو اپنے مصرف میں لے آنا ایک نیا جرم ہے جس کی سزا بھی نئی ہونا چاہئے۔ سلطان کو سزائیں ایجاد کرنے کا سلیقہ بھی ہے اور میں نے ان سزاؤں کی بھی واقعہ نویسی کی ہے۔ لیکن اب مجھ کو حکم ہوا ہے کہ سلطان کے مقبرے کی تعمیر کا واقعہ لکھوں، اورمیں سمجھتا ہوں کہ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کردی ہے، اگرچہ خانہ نشینی کے دوران کی بہت سے باتوں کے ساتھ میں واقعہ نویسی کے قاعدے بھی بھول سا گیا ہوں۔ اپنی خانہ نشینی کی مدت بھی میں نہیں بتا سکتا، لیکن اس ساری مدت کا حاصل چھتری کی شکل کا یہ درخت ہے جس کے نیچے میں نے بہت آرام کیا ہے۔ اس کی جڑ سے لے کر پھول تک اور پھل کے چھلکے سے لے کر گٹھلی کے گودے تک ہر چیز میں زہر ہی زہر ہے۔ شاید اسی لئے اس کے سائے میں نیند آتی ہے۔

نیر مسعود

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک افسانہ از نیر مسعود