- Advertisement -

ادھیڑ عمر کی عورت

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

امامہ آپا ۔ آپ لاہور کب جائیں گی؟
وہ اپنے نوٹس کو دیکھتے ہوئے چونکی۔ سر اٹھا کر اس نے سعد کو دیکھا ۔ وہ سائیکل کی رفتار کو اب بالکل آہستہ کئے اس کے گرد چکر لگا رہا تھا ۔
کل ۔۔۔۔۔ کیوں ۔۔۔۔۔ ؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟ امامہ نے اپنی فائل بند کرتے ہوئے کہا۔
جب آپ چلی جاتی ہیں تو میں آپ کو بہت مس کرتا ہوں ۔ وہ بولا
کیوں ۔۔۔۔۔ ؟ امامہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
کیونکہ آپ مجھے بہت اچھی لتی ہیں اور آپ میرے لئے بہت سے کھلونے لاتی ہیں اور آپ مجھے سیر کروانے لے کر جاتی ہیں ۔ اور آپ میرے ساتھ کھیلتی ہیں اس لئے۔ اس نے تفصیلی جواب دیا ۔
آپ مجھے اپنے ساتھ لاہور نہیں لے جاسکتیں ؟ امامہ اندازہ نہیں کرسکی یہ تجویز تھی یا سوال
میں کیسے لے جاسکتی ہوں ۔۔۔۔۔ میں تو خود ہاسٹل میں رہتی ہوں ، تم کیسے رہو گئے وہاں ؟ امامہ نے کہا
سعد سائیکل چلاتے ہوئے کچھ سوچنے لگا پھر اس نے کہا ۔ تو پھر آپ جلدی یہاں آیا کریں
اچھا ۔۔۔۔۔ جلدی آیا کروں گی ۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ تم ایسا کیا کرو مجھ سے فون پر بات کرلیا کرو۔ میں فون کیا کروں گی تمہیں
ہاں یہ ٹھیک ہے ۔ سعد کو اسکی تجویز پسند آئی ۔ سائیکل کی رفتار میں اضافہ کرتے ہوئے وہ لان کے لمبے لمبے چکر کاٹنے لگا ۔ امامہ بے دھیانی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی
وہ اسکا بھائی نہیں تھا ۔ دس سالہ سعد پانچ سال پہلے ان کے گھر آیا تھا ، کہاں سے آیا تھا اس بارے میں وہ نہیں جانتی تھی کیونکہ اسے اس بارے میں اس وقت کوئی تجسس نہیں ہوا تھا مگر کیوں لایا گیا تھا ۔ یہ وہ اچھی طرح جانتی تھی ۔ سعد اب دس سال کا تھا اور وہ گھر میں بالکل گھل مل گیا تھا ۔ امامہ سے وہ سب سے زیادہ مانوس تھا ۔ امامہ کو اکثر اس پر ترس آتا ۔ ترس کی وجہ اسکا لاوارث ہونا نہیں تھا۔ ترس کی وجہ اس کا مستقبل تھا۔ اس کے دو چچاؤں اور ایک تایا کے گھر بھی اس وقت اسی طرح کے گود لئے ہوئے بچے پل رہے تھے ۔ وہ ان کے مستقبل پر بھی ترس کھانے پر مجبور تھی ۔
فائل ہاتھ میں پکڑے سائیکل پر لان میں گھومتے سعد پر نظریں جمائے وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ اسے دیکھتے ہوئے وہ اسی طرح کی بہت سی سوچوں میں الجھ جاتی تھی مگر اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا وہ اس کے لئے کچھ نہیں کرسکتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ چاروں اس وقت لاہور کے ریڈ لائٹ ایریا میں موجود تھے۔ ان کی عمریں اٹھارہ، انیس سال کے لگ بھگ تھیں اور اپنے حلیے سے وہ چاروں اپر کلاس کے لگتے تھے مگر وہاں پر نہ انکی عمر کوئی نمایاں کردینے والی چیز تھی نہ ہی انکی اپر کلاس سے تعلق رکھنے کی امتیازی خصوصیت ۔۔۔۔ کیونکہ وہاں پر ان سے بھی کم عمر لڑکے آتے تھے اور اپر کلاس اس علاقے کے مستقل کسٹمرز مین شامل تھی۔
چاروں لڑکے ریڈ لائٹ ایریا کی ٹوٹی ہوئی گلیوں سے گزرتے جارہے تھے ۔ تین لڑکے آپس میں باتیں کررہے تھے جبکہ صرف چوتھا قدرے تجسس اور دلچسپی سے چاروں طرف دیکھ رہا تھا ۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پہلی بار وہاں آیا تھا اور ان تینوں کے ساتھ تھوڑی دیر بعد ہونے والی اسکی گفتگو سے یہ ظاہر ہوگیا تھا کہ وہ واقعی وہاں پہلی بار آیا تھا ۔
گلی کے دونوں اطراف میں کھلے دروازوں میں بناؤ سنگھار کئے نیم عریاں کپڑوں میں ملبوس ہر عمر اور ہر شکل کی عورت کھڑی تھی ۔ سفید ۔۔۔۔۔ سانولی ۔۔۔۔۔ سیاہ ۔۔۔۔۔ گندمی ۔۔۔۔۔ بہت خوبصورت ۔۔۔۔۔ درمیانی۔۔۔۔۔۔ اور معمولی شکل و صورت والی ۔
گلی میں سے ہر شکل اور عمر کا مرد گزر رہا تھا ۔ وہ لڑکا وہاں سے گزرتے ہوئے ہر چیز پر غور کر رہا تھا ۔ تم یہاں کتنی بار آئے ہو ۔ چلتے چلتے اس لڑکے نے اچانک اپنے ساتھ والے لڑکے سے پوچھا
وہ لڑکا جوابا” ہنسا کتنی بار ۔۔۔۔۔؟ یہ تو پتا نہیں ۔۔۔۔۔ اب تو گنتی بھی بھول چکا ہوں ۔ اکثر آٹا ہوں یہاں پر ۔ اس لڑکے نے قدرے فخریہ انداز میں کہا
ان عورتوں میں مجھے تو کوئی اٹریکشن محسوس نہیں ہورہی
ان میں تو کچھ بھی خاص نہیں ۔ اس نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
اگر کہیں رات ہی گزارنی ہو تو کم از کم ماحول تو اچھا ہو ۔ یہ تو بہت گندی جگہ ہے اس نے گلی میں موجود گڑھوں اور کوڑے کے ڈھیروں کو دیکھتے ہوئے کچھ ناگواری سے کہا
پھر گرل فرینڈز کے ہوتے ہوئے یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے ؟ اس نے اس بار اپنی بھنوئیں اچکاتے ہوئے کہا
اس جگہ کا اپنا ایک چارم ہے ۔ گرل فرینڈز اور یہاں کی عورتوں کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ گرل فرینڈز اس طرح کے ڈانس تو نہیں دکھا سکتیں جو ابھی کچھ دیر بعد تم دیکھو گے ۔ تیسرا لڑکا ہنسا۔ اور پھر پاکستان کی جس بڑی ایکٹریس کا ڈانس ہم تمہیں دکھانے لے جارہے ہیں وہ تو بس ۔۔۔۔۔۔
دوسرے لڑکے کی بات کو پہلے لڑکے نے کاٹ دیا ۔ اس کا ڈآنس تو تم پہلے مجھے دکھا چکے ہو ۔
ارے وہ کچھ بھی نہیں تھا ۔ بھائی کی شادی پر ایک مجرا کیاتھا ۔۔۔۔۔ مگر یہاں پر تو بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ وہ ایکٹرس تو ایک پوش علاقے میں رہتی ہے پھر یہاں کیوں آتی ہے ۔ پہلے لڑکے نے کچھ غیر مطمئن انداز میں اس سے پوچھا
یہ تم آج خود اس سے پوچھ لینا میں کبھی اس سے اس طرح کے سوال نہیں کرتا، دوسرے لڑکے کی بات پر باقی دونوں لڑکے ہنسے مگر تیسرا لڑکا اسی طرح چبھتی ہوئی نظروں سے اسے دیکھتا رہا
ان کا سفر بالآخر اس گلی کے آخر میں ایک عمارت کے سامنے ختم ہوگیا ۔ عمارت کے نیچے موجود دکان سے تینوں لڑکوں نے موتیے کے بہت سے ہار خریدے اور اپنی کلائیوں میں لپیٹ لیے ۔ ایک ہار دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کی کلائی میں بھی لپیٹ دیا جو وہاں آنے پر اعتراض کررہا تھا ۔ پھر ان لوگوں نے وہاں سے پان خریدے۔ تمباکو والا پان دوسرے لڑکے نے اس لڑکے کو بھی دیا جو شاید زندگی میں پہلی بار پان کھا رہا تھا ۔ پان کھاتے ہوئے وہ چاروں اس عمارتے کی سیڑھیاں چڑھنے لگے ۔ اوپر پہنچ کر پہلے لڑکے نے ایک بار پھر تنقیدی نظروں سے چاروں طرف دیکھا اور پھر اس کے چہرے پر اطمینان کی ایک جھلک نمودار ہوئی ۔ وہ جہ بہت صاف ستھری اور خاصی حد تک آراستہ تھی ۔
گاؤ تکیے اور چاندنیاں بچھی ہوئی تھیں اور باریک پردے لہرا رہے تھے ۔ کچھ لوگ پہلے ہی وہاں موجود تھے ۔ رقص ابھی شروع نہیں ہوا تھا ۔ ایک عورت لپکتی ہوئی انکی طرف آئی ۔ اس کے چہرے پر ایک خوبصورت مصنوعی مسکراہت سجی ہوئی تھی اس نے دوسرے لڑکے کو مخاطب کیا پہلے لڑکے نے غور سے اس عورت کو دیکھا ۔ ادھیڑ عمر کی وہ عورت اپنے چہرے پر بے تحاشا میک اپ تھوپے اور بالوں میں موتیے اور گلاب کے گجرے لٹکائے ، شیلون کی ایک چنگھاڑتی ہوئی سرخ ساڑھی میں ملبوس تھی ۔ جس کا بلاؤزر اس کے جسم کو چھپانے میں ناکام ہورہا تھا مگر وہ جسم کو چھپانے کے لئے پہنا بھی نہیں گیا تھا۔ ان چاروں کو وہ ایک کونے میں لے گئی اور وہاں اس نے انہیں بٹھادیا ۔
پہلے لڑکے نے وہاں بیٹھتے ہی منہ میں موجود پان اس اگلدان میں تھوک دیا جو انکے قریب موجود تھا ۔ کیونکہ پان منہ میں ہوتے ہوئے اس سے بات کرنا مشکل ہورہا تھا ۔ پان کا ذائقہ بھی اس کے لئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں تھا۔ تینوں لڑکے وہاں بیٹھے مدہم آوازمیں باتیں کرنے لگے جب کہ پہلا لڑکا اس ہال کے چاروں طرف موجود گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے ہوئے لوگوں کو دیکھتا رہا جن میں سے کچھ اپنے سامنے شراب کی بوتلیں اور نوٹوں کی گڈیاں رکھے بیٹھے تھے ۔ ان میں سے اکثریت سفید لٹھے کے کلف لگے کپڑوں میں ملبوس تھی ۔ اس نے عید کے اجتماعات کے علاوہ آج پہلی بار کسی اور جگہ پر سفید لباس پہننے والوں کا اتنا بڑا اجتماع دیکھا تھا۔ خود وہ اپنے ساتھیوں کی طرح سیاہ چینز اور اسی رنگ کی آدھے باروؤں والی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا ۔ انکی عمر کے کچھ اور لڑکے بھی وہاں انہی کی طرح جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس تھے تھوڑی دیر میں ایک اور عورت وہاں آکر ہال کے درمیان میں بیٹھ کر ایک غزل سنانے لگی تھی ۔ اس کے ساتھ کچھ سازندے بھی تھے ۔ وہ غزلیں سنانے اور اپنے اوپر اچھالے ہوئے نوٹ اٹھا کر وہ خاصی خوش اور مطمئن واپس چلی گئی ۔ اور اس کے جانے کے فورا” بعد ہی فلم انڈسٹری ہال میں داخل ہوئی اور ہال میں موجود ہر مرد کی نظر اس سے جیسے چپک کر رہ گئی تھی ۔ اس نے ہال میں باری باری چاروں طرف گھوم کر ہر ایک کو سر کے اشارے سے خوش آمدید کہا تھا ۔
سازندوں کو اس بار کسی تکلیف کا سامنا نہیں کرنا پڑآ تھا ۔ کیسٹ پلیئر پر باری باری چند ہیجان انگیز گانے لگائے گئے تھے جن پر اس عورت نے اپنا رقص پیش کرنا شروع کیا تھا ۔ اور کچھ دیر پہلے کی خاموشی یک دم ختم ہوگئی تھی چاروں طرف موجود مرد اس عورت کو دادو تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ شراب نوشی میں مصروف تھے۔ ان میں سے کچھ جو زیادہ جوش میں آرہے تھے وہ اٹھ کر اس ایکٹرس کے ساتھ ڈانس میں مصروف ہوجاتے ۔
ہال میں واحد شخص جو اپنی جگہ پر کسی حرکت کے بغیر بے تاثر چہرے کے ساتھ بیٹھا تھا وہ وہی لڑکا تھا مگر اس کے باوجود یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ اس ایکٹریس کے رقص سے خاصا محظوظ ہورہا تھا
تقریبا دو گھنٹے بعد جب اس ایکٹریس نے اپنا رقص ختم کیا تو وہاں موجود آدھے سے زیادہ مرد انٹا غفیل ہوچکے تھے واپس گھر جانا ان کے لئے زیادہ مسئلہ اس لیے نہیں تھا کہ ان میں سے کوئی بھی گھر جانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا ۔ وہ سب ہی وہاں رات گزارنے آئے تھے ۔ ان چاروں نے بھی رات وہاں گزاری ۔
اگلے دن وہاں سے واپسی پر گاڑی میں اس دوسرے لڑکے نے جمائی لیتے ہوئے پہلے لڑکے سے پوچھا جو اس وقت لاپرواہی سے گاڑی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
کیسا رہا یہ تجربہ ؟
اچھا تھا ۔۔۔۔ پہلے لڑکے نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا ۔
بس اچھا تھا ۔۔۔۔ اور کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ تم بھی بس ۔۔۔۔ اس نے قدرے ناراضی کے عالم میں بات ادھوری چھوڑ دی
کبھی کبھار جانے کے لئے اچھی جگہ ہے ۔ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہوں ۔ مگر بہت خاص والی کوئی بات نہیں ہے ۔ میری گرل فرینڈ اس لڑکی سے بہتر ہے جس کے ساتھ میں نے رات گزاری ہے ۔ اس لڑکے نے دو ٹوک انداز میں کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈائنگ ٹیبل پر ہاشم مبین کی پوری فیملی موجود تھی ۔ کھانا کھانے ہوئے وہ سب آپس میں خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے ۔ موضوع گفتگو اس وقت امامہ تھی جو اس ویک اینڈ پر بھی اسلام آباد میں موجود تھی ۔
بابا ۔۔۔۔۔ آپ نے یہ بات نوٹ کی کہ امامہ دن بدن سنجیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ وسیم نے قدرے چھیڑنے والے انداز میں امامہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔
ہاں ۔۔ یہ تو میں بھی پچھلے کئی ماہ سے نوٹ کررہا ہوں ۔ ہاشم مبین نے وسیم کی بات پر بیٹی کے چہرے کو غور سے دیکتھے ہوئے کہا ۔
امامہ نے چاولوں کا چمچہ منہ میں رکھتے ہوئے وسیم کو گھورا ۔
کیوں امامہ ۔ کوئی مسئلہ ہے ؟
بابا یہ بڑی فضول باتیں کرتا ہے اور آپ بھی خوامخواہ اس کی باتوں میں آرہے ہیں ۔ میں اپنی اسٹڈیز کی وجہ سے مصروف اور سنجیدہ ہوں ۔ اب ہر کوئی وسیم کی طرح نکما تو نہیں ہوتا ۔ اس نے اپنے ساتھ بیٹھے وسیم کے کندھے پر کچھ ناراضی سے ہلکا سا ہاتھ مارتے ہوئے کہا
بابا ۔ آپ اندازہ کریں میڈیکل کے شروع کے سالوں میں اس کا یہ حال ہے تو جب یہ ڈاکٹڑ بن جائے گی تو اس کا کیا حال ہوگا ۔ وسیم نے امامہ کی تنبیہ کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کا مذاق اڑایا۔ سالوں گزر جایا کریں گے مس امامہ ہاشم کو مسکراتے ہوئے ۔
ڈآئنگ ٹیبل پر موجود لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دوڑ گئی ۔ ان دونوں کے درمیان یہ نوک جھوک ہمیشہ ہی رہتی تھی ۔ بہت کم مواقع ایسے ہوتے تھے جب وہ دونوں اکٹھے ہوں اور انکے درمیان آپس میں جھگڑا نہ ہو ۔ مستقل بنیادوں پر ہوتے رہنے والے ان جھگڑوں کے باوجود امامہ کی سب سے زیادہ دوستی وسیم کے ساتھ ہی تھی ۔ اس کی وجہ شاید انکی اوپر تلے کی پیدائش بھی تھی ۔
اور آپ تصور کریں کہ ۔۔۔۔ اس بار امامہ نے اسے اپنی بات مکمل کرنے نہیں دی ۔ اس نے اس کے کندھے پر پوری طاقت سے مکا مارا ۔ وسیم پر کچھ زیادہ اثر نہیں ہوا ۔
ہمارے گھر میں ایک ڈاکٹر کے ہاتھ میں شفا کے سوا اور کیا کیا ہوسکتا ہے ۔ آپ اس کا مظاہرہ دیکھ رہے ہیں ۔ اس سے آپ اندازہ بھی لگا سکتے ہیں کہ آج کل کے ڈاکٹڑز وارڈ میں مریضوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہونگے ۔ ملک میں بڑھتی ہوئی شرح اموات کی ایک وجہ ۔۔۔۔۔۔
بابا اس کو منع کریں ۔ امامہ نے بالآخر ہتھیار ڈالتے ہوئے ہاشم مبین سے کہا ۔
وسیم ۔۔۔۔۔ ہاشم نے اپنے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے وسیم کو جھڑکا ۔ وہ بڑی سعادت مندی سے فورا” خاموش ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے پورے لفافے کو گرائنڈر میں خالی کردیا اور پھر اسے بند کرکے چلایا۔ خانساماں اسی وقت اندر آیا ۔
چھوٹے صاحب لائیں میں آپکی مدد کردوں ۔ وہ اسکی طرف بڑھا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا ۔ نہیں نہیں میں خود کرلیتا ہوں ۔ تم مجھے دودھ کا ایک گلاس دے دو ۔ اس نے گرائنڈر آف کرتے ہوئے کہا ۔ خانساماں ایک گلاس میں دودھ لے کر اس کے پاس چلا آیا ۔ دودھ کے آدھے گلاس میں اس نے گرائینڈ میں موجود تمام پاؤڈر ڈال دیا اور ایک چمچہ سے اچھی طرح ہلانے لگا پھر ایک ہی سانس میں وہ دودھ پی گیا۔
کھانے میں آج کیا پکایا ہے تم نے ۔ اس نے خانساماں سے پوچھا
خانساماں نے کچھ ڈشز گنوانی شروع کردیں ۔ اس کے چہرے پر کچھ ناگواری ابھری
میں کھانا نہیں کھاؤں گا ۔ سونے جارہا ہوں ۔ مجھے ڈسٹرب مت کرنا ۔ اس نے سختی سے کہا اور کچن سے نکل گیا ۔
پیروں میں پہنی ہوئی باٹا کی چپل کو وہ فرش پر تقریبا” گھسیٹ رہا تھا ۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور آنکھیں سرخ تھیں ۔ شرٹ کے چند ایک کے سوا سارے ہی بٹن کھلے ہوئے تھے ۔
اپنے کمرے میں جاکر اس نے دروازے کو لاک کرلیا اور وہاں موجود جہازی سائز کے میوزک سسٹم کی طرف گیا اور کمرے میں بولٹن کا گانا بلند آواز میں بجنے لگا ۔ وہ ریموٹ لیکر اپنے بیڈ پر آگیا اور اوندھے منہ بے ترتیبی کے عالم میں لیٹ گیا۔
اس کا ریموٹ والا بایاں ہاتھ بیڈ سے نیچے لٹک رہا تھا اور مسلسل ہل رہا تھا۔ اس کے دونوں پاؤن بھی میوزک کے ساتھ گردش میں تھے ۔
کمرے میں بیڈ اور اس کے اپنے حلیے کے علاوہ ہر چیز اپنی جگہ پر تھی ۔ کہیں پر کچھ بھی بے ترتیب نہیں تھا ۔ کہیں پر گرد کا ایک ذرہ تک نظر نہیں آرہا تھا ۔ میوزک سسٹم کے پاس موجود دیواری شیلف میں تمام آڈیو اور ویڈیو کیسٹس بڑے اچھے طریقے سے لی ہوئی تھیں ۔ ایک دوسری دیوار میں موجود ریکس پر کتابوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ کونے میں پڑی ہوئی کمپیوٹر ٹیبل سے عیاں تھا کہ اسے استعمال کرنے والا بہت آرگنائزڈ ہے ۔ کمرے کی مختلف دیواروں پر ہالی وڈ کی ایکٹریسز کے پوسٹر لگے ہوئے تھے ۔ باتھ روم کے دروازے اور کمرے کی کھڑکیوں کے شیشوں کو پلے بوائے میگزین سے کاٹی گئی کچھ ماڈلز کی تصویروں سے سجایا گیا تھا۔ کمرے میں پہلی بار داخل ہونے ولا دروازہ کھولتے ہی بہت بری طرح چونکتا کیونکہ بالکل سامنے کھڑکیوں کے شیشوں پر موجود چند لمحوں کے لئے دیکھنے والوں کو تصویریں نہیں بلکہ اصل لڑکیاں نظر آتی تھیں ۔ میوزک سسٹم جس دیوار میں موجود تھا اسی دیوار کے ایک کونے میں دیوار پر ایک الیکٹرک گٹار لٹکایا گیا تھا اور اسی کونے میں اسٹینڈ پر ایک کی بورڈ رکھا ہوا تھا ۔ بیڈ کے سامنے والی دیوار میں بنی کیبنٹ میں ٹی وی موجود تھا ۔ اور اسی کیبنٹ کے مختلف خانوں میں مختلف شیلڈز اور ٹرافیز پڑی ہوئی تھیں۔
کمرے کا چوتھا کونا بھی خالی نہیں تھا وہاں دیوار پر مختلف ریکٹس لٹکے ہوئے تھے ان میں سے ایک ٹینس کا تھا اور دو اسکواش کے ۔ ان ریکٹس کو دیوار پر لٹکانے سے پہلے نیچے پوسٹر لگائے گئے تھے اور پھر ریکٹس اس طرح لٹکائے گئے تھے کہ یوں لگتا تھا وہ ریکٹس ان کھلاڑیوں نے پکڑے ہوں ٹینس کے ریکٹ کے نیچے گبریلا سباٹینی کا پوسٹر تھا جبکہ اسکواش کے ایک ریکٹ کے نیچے جہانگیرخان کا پوسٹر تھا اور دوسرے کے نیچے روڈنی مارٹن کا ۔
کمرے میں واحد جگہ جہاں بے ترتیبی تھی وہ ڈبل بیڈ تھا ۔ جس پر وہ لیٹا ہوا تھا ۔ سلک کی بیڈ شیٹ بری طرح سلوٹ زدہ تھی اور اس پر ادھر ادھر چند غیر ملکی میگزین پڑے ہوئے تھے جن میں پلے بوائے نمایاں تھا ۔ بیڈ پر ایک پیپر کٹر اور کاغذ کی کچھ چھوٹی چھوٹی کترنیں بھی پڑی ہوئی تھیں ۔ یقینا” کچھ دیرپہلے وہ ان میگزینز سے تصاویر کاٹ رہا تھا ۔ چیونگمز کے کچھ ریپرز بھی تڑے مڑے بیڈ پر ہی پڑے ہوئے تھے۔ ڈن ہل کا ایک پیکٹ اور لائٹر بھی ایش ٹرے کے ساتھ بیڈ پر ہی پڑا ہوا تھا ۔ جبکہ سلک کی سفید چمک دار بیڈ شیٹ پر کئی جگہ ایسے نشانات تھے جیسے وہاں پر سگریٹ کی راکھ گری ہو ۔ کافی کا ایک خالی مگ بھی بیڈ پر پڑا ہوا تھا اوراس کے پاس ایک ٹائی اور رسٹ واچ بھی تھی ۔ ان سب چیزوں سے کچھ فاصلے پر سرہانے ایک موبائل فون پڑا تھا جس پر یک دم کوئی کال آنے لگی تھی ۔ بیڈ پر اوندھے منہ لیٹا ہوا وہ نوجوان اب شاید نیند کے عالم میں تھا کیونکہ موبائل کی بیپ پر اس نے سر اٹھائے بغیر اپنا دایاں ہاتھ بیڈ پر ادھر سے ادھر پھیرا مگر موبائل اسکی رسائی سے بہت دور تھا ۔ اس پر مسلسل کال آرہی تھی ۔ کچھ دیر اسی طرح ادھر ادھر ہاتھ پھیرنے کے بعد اسکا ہاتھ ساکت ہوگیا ۔ شاید وہ اب سو چکا تھا ۔ موبائل پر اب بھی کال آرہی تھی ۔ پھر یک دم کسی نے دروازے پر دستک دی اور پھر دستک کی آواز بڑھتی گئی ۔ موبائل پر کال ختم ہوچکی تھی لیکن دروازے پر دستک دینے والے ہاتھ بڑھتے گئے اور وہ بیڈ پر اوندھے منہ بے حس و حرکت لیٹا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈونٹ ٹیل می ، امامہ ۔ کیا تم واقعی انگیجڈ ہو
زینت کو جویریہ کے انکشاف پر جسیے کرنٹ لگا ۔ امامہ نے ملامتی نظروں سے جویریہ کو دیکھا جو پہلے ہی معذرت خواہانہ انداز میں اسے دیکھ رہی تھی ۔
اسے نہیں ، مجھے دیکھ کر بتاؤ کیا تم واقعی انگیجڈ ہو ؟ زینب نے اس بار اسے کچھ جھڑکتے ہوئے کہا
ہاں مگر یہ اس قدر غیر معمولی اور حیرت انگیز واقعہ تو نہیں کہ تم اس پر اس طرح ری ایکٹ کرو
امامہ نے بڑی رسانیت سے کہا ۔ وہ سب لائبریری میں بیٹھی ہوئی تھیں اور اپنی طرف سے حتی المقدور سرگوشیوں میں باتیں کررہی تھیں
مگر تمہیں ہمیں بتانا تو چاہیے تھا، آخر راز میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی ۔ اس بار رابعہ نے کہا
راز میں نے تو نہیں رکھا ، بس یہ کوئی اتنا اہم واقعہ نہیں تھا کہ تمہیں بتاتی اور پھر تم لوگوں سے میری دوستی تو اب ہوئی ہے جبکہ اس منگنی کو کئی سال گزر چکے ہیں۔ امامہ نے وضاحت کرنے ہوئے کہا ۔ کئی سال سے تمہاری کیا مراد ہے ؟ میرا مطلب ہے دو تین سال
پھر بھی امامہ بتانا تو چاہیے تھا تمہیں ۔۔۔۔۔ زینب کا اعتراض ابھی بھی اپنی جگہ قائم تھا ۔ امامہ نے مسکراتے ہوئے زینب کو دیکھا
اب کروں گی تو اور کسی کو بتاؤں یا نہ بتاؤں تمہیں ضرور بتاؤں گی
ویری فنی ۔ زینب نے اسے گھورتے ہوئے کہا
اور کچھ نہیں تو تم ہمیں کوئی تصویر وغیرہ ہی لاکر دکھا دو موصوف کی ۔۔۔۔ ہے کون؟ ۔۔۔۔۔۔ نام کیا ہے ؟ کیا کرتا ہے ؟
رابعہ نے ہمیشہ کی طرح ایک ہی سانس میں سوال در سوال کر ڈالے ۔
فرسٹ کزن ہے ۔۔۔۔۔ اسجد نام ہے ۔ امامہ نے رک رک کر کچھ ہوچتے ہوئے کہا ۔ ایم بی اے کیا اس نے اور بزنس کرتا ہے ۔
شکل و صورت کیسی ہے ۔ اس بار زینب نے پوچھا ۔ امامہ نے غور سے اسکے چہرے کو دیکھا
ٹھیک ہے
ٹھیک ہے ؟ میں تم سے پوچھ رہی ہوں ۔۔۔ لمبا ہے ؟ ڈارک ہے ؟ ہینڈسم ہے ؟ اس بار امامہ مسکراتے ہوئے کچھ کہے بغیرزینب کو دیکھتی رہی ۔
امامہ نے اپنی پسند سے منگنی کی ہے ۔۔۔۔۔ وہ اچھا خاصا گڈلکنگ ہے ۔۔۔ جویریہ نے اس بار امامہ کی طرف سے جواب دیتے ہوئے کہا ۔
ہاں ہمیں اندازہ کرلینا چاہیے تھا ۔ آخر وہ امامہ کا فرسٹ کزن ہے ۔۔۔۔ اب امامہ تمہارا اگلا کام یہ ہے کہ تم ہمیں اس کی تصویر لا کر دکھاؤ ۔ زینب نے کہا
نہیں ، اس سے پہلے کا ضروری کام یہ ہے کہ تم ہمیں کچھ کھلانے پلانے لے چلو ۔ رابعہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ۔
فی الحال تو یہاں سے چلیں ، ہاسٹل جانا ہے مجھے ۔۔۔۔۔ امامہ یک دم اٹھ کر کھڑی ہوگئی تو وہ بھی اٹھ گئیں
ویسے جویریہ تم نے یہ بات پہلے کیوں نہیں بتائی ، ساتھ چلتے ہوئے زینب نے جویریہ سے پوچھا۔
بھئی امامہ نہیں چاہتی تھی اس لیے میں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی ۔ جویریہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا ۔ امامہ نے مڑکر ایک بار پھر جویریہ کو گھورا ، اس کی نظروں میں تنبیہ تھی
امامہ کیوں نہیں چاہتی تھی ۔ میری منگنی ہوئی ہوتی تو میں تو شور مچاتی ہر جگہ ، وہ بھی اس صورت میں جب یہ میری اپنی مرضی سے ہوتی ۔ زینب نے بلند آواز میں کہا ۔
امامہ نے اس بار کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کا بیٹا آبادی کے اس 2.5 فیصد حصے میں شامل ہے جو 150 سے زیادہ کا آئی کیو لیول رکھتے ہیں۔ اس آئی کیو لیول کے ساتھ وہ جو کچھ کررہا ہے وہ غیر معمولی سہی لیکن غیر متوقع نہیں ہے ۔
اس غیر ملکی اسکول میں سالار کو جاتے ہوئے ابھی صرف ایک ہفتہ ہوا تھا جب سکندر اور اسکی بیوی کو وہاں بلوایا گیا تھا ۔ اسکول کے سائیکالوجسٹ نے انہیں سالار کے مختلف آئی کیو ٹیسٹ کے بارے میں بتایا تھا ، جس میں اس کی پرفارمنس نے اس کے ٹیچرز اور سائکالوجسٹ کو حیران کردیا تھا ۔ اس اسکول میں وہ 150 آئی کیو لیول والا پہلا اور واحد بچہ تھا اور چند ہی دنوں میں وہ وہاں سب کی توجہ کا مرکز بن گیا تھا ۔
سکندر اور انکی بیوی سے ملاقات کے دوران سائیکالوجسٹ کو اس کے بچپن کے بارے میں کچھ اور کھوج لگانے کا موقع ملا ۔ وہ کافی دلچسپی سے سالار کے کیس کو اسٹڈی کررہا تھا اور دلچسپی کی یہ نوعیت پروفیشنل نہیں ذاتی تھی ۔ اپنے کیرئیر میں وہ پہلی بار اس آئی کیوکے بچے کا سامنا کررہا تھا ۔
سکندر کو آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد تھا ۔ سالار اس وقت صرف دو سال کا تھا اور غیر معمولی طور پر وہ اس عمر میں ایک عام بچے کی نسبت زیادہ صاف لہجے میں باتیں کرتا تھا ۔ اور باتوں کی نوعیت ایسی ہوتی تھی کہ وہ اور انکی بیوی اکثر حیران ہوتے ۔
ایک دن جب وہ اپنے بھائی سے فون پر بات کرنے کے لئے فون کررہے تھے تو سالار ان کے پاس کھڑا تھا ۔ وہ اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے اور فون پر باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ٹی وی بھی دیکھ رہے تھے ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے فون رکھ دیا ۔ ریسیور رکھنے کے فورا” بعد انہوں نے سالار کو فون کا ریسیور اٹھاتے ہوئے دیکھا ۔
ہیلو انکل ، میں سالار ہوں ۔ وہ کہہ رہا تھا ۔ انہوں نے چونک کر اسے دیکھا ۔ وہ اطمینان سے ریسیور کان سے لگائے کسی سے باتوں میں مصروف تھا۔
میں ٹھیک ہوں ۔ آپ کیسے ہیں ؟ سکندر نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ پہلے انکے ذہن میں یہی آیا کہ وہ جھوٹ موٹ فون پر باتیں کررہا ہے ۔
پاپا میرے پاس بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے ہین ۔ نہیں ۔ انہوں نے فون نہیں کیا ۔ میں نے خود کیا ہے ۔ وہ اسکے اگلے جملے پر چونکے
سالار کس سے باتیں کررہے ہو ۔ سکندر سے پوچھا
انکل شاہنواز سے۔ سالار نے سکندر کو جواب دیا ۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کرریسیور اس سے لے لیا ۔ انکا خیال تھا کہ اس نے غلطی سے کوئی نمبر ملا لیا ہوگا یا پھر لاسٹ نمبر کو ری ڈائل کردیا ہوگا ۔ انہوں نے کان سے ریسیور لگایا ۔ دوسری طرف انکے بھائی ہی تھے ۔
یہ سالار نے نمبر ڈائل کیا ہے ۔ انہوں نے معذرت کرتے ہوئے اپنے بھائی سے کہا
سالار نے کیسے ڈائل کیا ۔ وہ تو بہت چھوٹا ہے ۔ ان کے بھائی نے دوسری طرف کچھ حیرانی سے پوچھا
میرا خیال ہے اس نے آپکا نمبر ری ڈائل کردیا ہے ۔ اتفاق سے ہاتھ لگ گیا ہوگا ۔ ہاتھ مار رہا تھا سیٹ پر ۔ انہوں نے فون بند کردیا اور ریسیور نیچے رکھ دیا ۔ سالار جو خاموشی سے ان کی گفتگو سننے میں مصروف تھا ریسیور نیچھے رکھتے ہی اس نے ایک بار پھر ریسیور اٹھالیا ۔ اس بار سکندر اسے دیکھنے لگے ۔ وہ بالکل کسی میچور آدمی کی طرح ایک بار پھر شاہنواز کا نمبر ڈائل کررہا تھا اور بڑی روانی کے ساتھ ۔ وہ ایک لمحہ کے لئے دم بخود رہ گئے ۔ دو سال کے بچے سے انہیں یہ توقع نہیں تھی ۔ انہوں نے ہاتھ بڑھا کر کریڈل دبا دیا ۔
سالار تمہیں شاہنواز کا نمبر معلوم ہے ۔ انہوں نے حیرانی کے اس جھٹکے سے سنبھلتے ہوئے کہا ۔
ہاں ۔ بڑے اطمینان سے جواب دیا گیا ۔
کیا نمبر ہے ۔ اس نے بھی روانی سے وہ نمبر دہرادیا ۔ وہ اسکا چہرہ دیکھنے لگے ۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ گنتی کے اعداد سے واقف ہوگا اور پھر وہ نمبر ۔۔۔۔۔
تمہیں یہ نمبر کس نے سکھایا ؟
میں نے خود سیکھا ہے ۔
کیسے ؟
ابھی آپ نے ملایا تھا ۔ سالار نے انکو دیکھتے ہوئے کہا ۔
تمہیں گنتی آتی ہے ؟
ہاں
کہاں تک
ہنڈرڈ تک
سناؤ
وہ مشین کی طرح شروع ہوگیا ۔ ایک ہی سانس میں اس نے انہیں سو تک گنتی سنا دی ۔ سکندر کے پیٹ میں بل پڑنے لگے
اچھا ۔ میں ایک اور نمبر ڈائل کرتا ہوں میرے بعد تم اسے ڈائل کرنا ۔ انہوں نے ریسیور اس سے لیتے ہوئے کہا ۔
اچھا ۔ سالار کو یہ سب ایک دلچسپ کھیل کی طرح لگا ۔ سکندر نے ایک نمبر ڈائل کیا اور پھر فون بند کردیا ۔ سالار نے فورا” ریسیور پکڑ کر روانی کے ساتھ وہ نمبر ملا دیا ۔ سکندر کا سر گھومنے لگا ۔ وہ واقعی وہی نمبر تھا جو انہوں نے ملایا تھا ۔ انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی نمبر ملائے اور پھر سالار سے وہی نمبر ملانے کے لئے کہا ۔ وہ کوئی غلطی کئے بغیر وہی نمبر ملاتا رہا ۔ وہ یقینا” فوٹو گرافک میموری رکھتا تھا ۔ انہوں نے اپنی بیوی کو بلایا ۔
میں نے اسے گنتی نہیں سکھائی ۔ میں نے تو بس کچھ دن پہلے اسے چند کتابیں لا کر دی تھیں اور کل ایک بار ایسے ہی اس کے سامنے سو تک گنتی پڑھی تھی ۔ انہوں نے سکندر کے استفسار پر کہا ۔ سکندر نے سالار کو ایک بار پھر گنتی سنانے کے لیے کہا ۔ وہ سناتا گیا ، انکی بیوی ہکا بکا اسے دیکھتی رہیں ۔
دونوں میاں بیوی کویہ اندازہ ہوگیا تھا کہ انکا بچہ ذہنی اعتبار سے غیر معمولی صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ان دونوں نے اپنے باقی بچوں کی نسبت اسے بہت جلد ہی اسکول میں داخل کروا دیا تھا اور اسکول میں بھی وہ اپنی ان غیر معمولی صلاحتیوں کی وجہ سے بہت جلد ہی دوسروں کی نظروں میں آگیا تھا ۔
اس بچے کو آپ کی خاص توجہ کی ضرورت ہے ۔ عام بچوں کی نسبت ایسے بچے زیادہ حساس ہوتے ہیں ، اگر آپ اسکی اچھی تربیت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بچہ آپ کے اور آپ کے خاندان کے لئے ایک سرمایہ ہوگا ۔ نہ صرف خاندان کے لئے بلکہ آپ کے ملک کے لئے بھی ۔ سکندر اور ان کی بیوی اس غیر ملکی سائیکالوجسٹ کی باتیں بڑے فخریہ انداز میں سنتے رہے ۔ اپنے دوسرے بچوں کے مقابلے میں وہ سالار کو زیادہ اہمیت دینے لگے تھے ۔ وہ ان کی سب سے چہیتی اولاد تھا اور انہیں اس کی کامیابیوں پر فخر تھا ۔
اسکول میں ایک ٹرم کے بعد اسے اگلی کلاس میں پرموٹ کردیا گیا ۔ اور دوسری ٹرم کے بعد اس سے اگلی کلاس میں اور اس وقت پہلی بار سکندر کو کچھ تشویش ہونے لگی ۔ وہ نہیں چاہتے تھے سالار آٹھ دس سال کی عمر میں جونیئر یا سینئر کیمرج کرلیتا ۔ مگر جس رفتار سے وہ ایک کلاس سے دوسری کلاس میں جارہا تھا یہی ہونا تھا ۔
میں چاہتا ہوں آپ میرے بیٹے کو اب پورے ایک سال بعد ہی اگلی کلاس میں پرموشن دیں ۔ میں نہیں چاہتا وہ اتنی جلدی ابنارمل طریقے سے اپنا ایکڈمک کیرئیر ختم کرلے۔ آپ اس کے سبجیکٹس اور ایکٹیوٹیز بڑھا دیں ۔ مگر اسے نارمل طریقے سے ہی پروموٹ کریں ۔
ان کے اصرار پر سالار کو دوبارہ ایک سال کے اندر پروموشن نہیں دیا گیا ۔ اس کے ٹیلنٹ کو اسپورٹس اور دوسری چیزوں کے ذریعے چینلائز کیا جانے لگا ۔ شطرنج ، ٹینس، گالف ، اور میوزک ۔ وہ چار شعبے تھے جن میں اسے سب سے زیادہ دلچسپی تھی ۔ مگر اسکا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ خود کو صرف ان چار چیزوں تک ہی محدود رکھتا تھا ۔ وہ اسکول میں ہونے والے تقریبا” ہر گیم میں شریک ہوتا تھا ۔ اگر کسی میں شریک نہیں ہوتا تھا تو اسکی وجہ صرف یہ ہوتی تھی کہ وہ گیم اسے زیادہ چیلنجنگ نہیں لگتی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جویریہ ! پروفیسر امتان کے لیکچر کے نوٹس مجھے دینا ۔ امامہ نے جویریہ کو مخاطب کیا جو ایک کتاب کھولے بیٹھی تھی ۔ جویریہ نے ہاتھ بڑھا کر اپنی ایک نوٹ بک اسے تھما دی ۔ امامہ نوٹ بک کھول کر صفحے پلٹنے لگی ۔ جویریہ ایک بارپھر کتاب کے مطالعے میں مصروف ہوگئی ۔ کچھ دیر بعد اچانک اسے جیسے ایک خیال آیا ۔ اس نے مڑ کر بستر پر بیٹھی ہوئی امامہ کو دیکھا ۔
تم نے لیکچر نوٹ کرنا کیوں بند کردیا ہے ۔ اس نے امامہ کو مخاطب کیا ۔ امامہ نے نوٹ بک سے نظریں اٹھا کر اسے دیکھا
مجھے کچھ سمجھ میں آئے تو میں نوٹ کروں
کیا مطلب ۔ تمہیں پروفیسر امتنان کا لیکچر بھی سمجھ نہیں آتا۔ جویریہ کو جیسے حیرت ہوئی ۔ اتنا اچھا تو پڑھاتے ہیں
میں نے کب کہا کہ برا پڑھاتے ہیں ۔ بس مجھے ۔۔۔۔۔۔
اس نے کچھ الجھے ہوئے لہجے میں بات ادھوری چھوڑ دی ۔ وہ ایک بار پھر ہاتھ میں پکڑی نوٹ بک کو غور سے دیکھ رہی تھی ۔ جویریہ نے غور سے اسے دیکھا ۔
تم آج کل کچھ غائب دماغ نہیں ہوتی جارہیں ۔ ڈسٹرب ہو کسی وجہ سے ؟ جویریہ نے اپنے سامنے رکھی کتاب بند کرتے ہوئے بڑے ہمدردانہ لہجے میں کہا ۔
ڈسٹرب ؟ وہ بڑبڑائی ۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے بھی پڑے ہوئے ہیں ۔ کل رات کو شاید ساڑھے تین کا وقت تھا جب میری آنکھ کھلی اور تم اس وقت بھی جاگ رہی تھیں ۔
میں پڑھ رہی تھی ۔ اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔
نہیں ۔ صرف کتاب اپنے سامنے رکھے بیٹھی ہوئی تھی ۔ مگر کتاب پر نظر نہیں تھی تمہاری ۔ جویریہ نے اس کا عذر رد کرتے ہوئے کہا ، تمہیں کوئی مسلئہ تو نہیں ہے ۔
کیا مسلئہ ہوسکتا ہے مجھے ۔
پھر تم اتنی چپ چپ کیوں رہنے لگی ہو ۔ جویریہ اس کی ٹال مٹول سے متاثر ہوئے بغیر بولی ۔
نہیں ۔ میں کیوں چپ رہوں گی ۔ امامہ نے مسکرانے کی کوشش کی ۔ میں تو پہلے کی طرح ہی بولتی ہوں ۔
صرف میں ہی نہیں ۔ باقی سب بھی تمہاری پریشانی کو محسوس کررہے ہیں ۔ جویریہ سنجیدگی سے بولی ۔
کوئی بات نہیں ہے ۔ صرف اسٹیڈیز کی ٹینشن ہے مجھے ۔
میں یقین نہیں کرسکتی ہم بھی تمہارے ساتھ ہیں ۔ تمہیں ہم سے زیادہ ٹینشن تو نہیں ہوسکتی ۔
جویریہ نے سرہلاتے ہوئے کہا ۔ امامہ نے ایک گہرا سانس لیا ۔ وہ اب زچ ہورہی تھی ۔
تمہارے گھر میں تو خیریت ہے نا ؟
ہاں ۔ بالکل خیریت ہے
اسجد کے ساتھ تو کوئی جھگڑا نہیں ہوا
اسجد کے ساتھ جھگڑا کیوں ہوگا ۔ امامہ نے اسی کے انداز میں پوچھا
پھر بھی اختلافات تو ایک بہت ہی ۔ ۔۔۔۔۔ جویرہ کی بات اس نے درمیاں میں ہی کاٹ دی ۔ جب کہہ رہی ہوں کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے تو تمہیں یقین کیوں نہیں آرہا ۔ اتنے سالوں سے کون سی بات ہے جو میں نے تم سے شیئر نہیں کی یا جو تمہیں پتا نہیں ہے پھر تم اس طرح مجھے مجرم سمجھ کر تفتیش کیوں کر رہی ہو ۔ وہ اب خفا ہورہی تھی
جویریہ گڑبڑا گئی ۔ یقین کیوں نہیں کروں گی ، صرف اس لئے اصرار کررہی تھی کہ شاید تم مجھے اس لئے اپنا مسئلہ نہیں بتا رہی کہ میں پریشان نہ ہوں اور تو کوئی بات نہیں
جویریہ کچھ نادم سی ہوکر اس کے پاس سے اٹھ کر واپس اپنی اسٹدی ٹیبل کے سامنے جا بیٹھی ۔ اس نے ایک بار پھر وہ کتاب کھول لی جسے وہ پہلے پڑھ رہی تھی ۔ کافی دیر تک کتاب پڑھتے رہنے کے بعد اس نے ایک جماہی لی اور گردن موڑ کر لاشعوری طور پر امامہ کو دیکھا ۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے اسکی نوٹ بک کھولے بیٹھی تھی مگر اسکی نظریں نوٹ بک پر نہیں تھیں وہ سامنے والی دیوار پر نظریں جمائے کہیں گم تھی

عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
عمیرہ احمد کے ناول پیرِ کامل سے اقتباس