اردو غزلیاتشعر و شاعریعدیم ہاشمی

جھومتی ٹہنی پر اس کا ہمنوا ہو جاؤں میں

عدیم ہاشمی کی اردو غزل

جھومتی ٹہنی پر اس کا ہمنوا ہو جاؤں میں
وہ اگر ہے پھول تو بادِ صبا ہو جاؤں میں

اس کے چہرے پر بکھیروں اپنی کرنیں رات بھر
اس کے آنگن میں کوئی جلتا دیا ہو جاؤں میں

ہرکسی کا ایک سا کردار تو ہوتا نہیں
بےوفا ہے وہ تو کیسے بےوفا ہو جاؤں میں

واد یوں میں جھومتی گاتی گھٹا ہو جائے وہ
لہلہاتے کھیت کی تازہ ہوا ہو جاؤں میں

انکسار اک میرا اخلاقی فریضہ ہے عدیم!!
اس کا مطلب یہ نہیں ہے گردِ پا ہو جاؤں میں

وہ پجارن بن کے کیا گذری پہاڑوں سے عدیم
ہر کوئی پتھر پکارا، دیوتا ہو جاؤں میں

عدیم ہاشمی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button