- Advertisement -

ایک مہرے کا سفر

جاوید اختر کی ایک اردو نظم

ایک مہرے کا سفر

جب وہ کم عمر ہی تھا
اس نے یہ جان لیا تھا کہ اگر جِینا ہے
بڑی چالاکی سے جِینا ہو گا
آنکھ کی آخری حد تک ہے بساطِ ہستی
اور وہ معمولی سا اِک مُہرہ ہے
ایک اک خانہ بہت سوچ کے چلنا ہو گا
بازی آسان نہیں تھی اس کی
دُور تک چاروں طرف پھیلے تھے
مُہرے
جَلّاد
نہایت سَفّاک
سخت بے رحم
بہت ہی چالاک
اپنے قبضے میں لئے
پوری بِساط
اس کے حصّے میں فقط مات لئے
وہ جِدھر جاتا
اسے مِلتا تھا
ہر نیا خانہ نئی گھات لئے
وہ مگر بچتا رہا
چلتا رہا
ایک گھر
دوسرا گھر
تیسرا گھر
پاس آیا کبھی اَوروں کے
کبھی دُور ہوا
وہ مگر بچتا رہا
چلتا رہا
گو کہ معمولی سا مُہرہ تھا مگر جیت گیا
یوں وہ اک روز بڑا مُہرہ بَنا
اب وہ محفوظ ہے اِک خانے میں
اتنا محفوظ کہ دشمن تو الگ
دوست بھی پاس نہیں آ سکتے
اُس کے اِک ہاتھ میں ہے جیِت اُس کی
دوسرے ہاتھ میں تنہائی ہے​

جاوید اختر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از جاوید اختر