پھر چشمِ نیم وا سے ترا خواب دیکھنا
اور اس کے بعد خود کو تہِ آب دیکھنا
کیوں زخم ہائے سینہ پہ خنداں بہ لب ہیں دوست
اے آسمان! شیوۂ احباب دیکھنا
ٹوٹا ہے دل کا آئنہ اپنی نگاہ سے
اب کیا شکستِ ذات کے اسباب دیکھنا
شوریدگی پہ میری تُو حیرت زدہ ہے کیوں
دیوانگی ہے رات میں مہتاب دیکھنا
اُترے ہیں بحرِ عشق میں اہلِ جنوں سو اب
طوفان دیکھنا ہے نہ گرداب دیکھنا
تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب
تہذیب اُس کی دیکھنا، آداب دیکھنا
کیسی ہے سرد مہریِ جاناناں سعدؔ جی
شل ہو نہ جائیں اپنے یہ اعصاب دیکھنا
سعد اللہ شاہ