نئے دھان سے پہلے
یہ کنگلوں کی قطار تھی۔ ہو بہ ہو کمان کی طرح۔ ایک ساتھ کہیں سات آدمی کھڑے تھے تو کہیں دس، عورتیں اور بچے اور مرد، جوان اور بوڑھے۔۔۔ سبھی ایک ترازو میں تل رہے تھے۔ سبھی بھوکے تھے۔ ننھے بچے سوکھی چھاتیوں کو چچور رہے تھے۔ بڑی عمر کے بچے قطار سے نکل کر لنگر کے دروازے پر پہنچنے کے لیے ضد کر رہے تھے۔ لنگر والوں نے لاکھ جتن کیا کہ عورتوں اور مردوں کی الگ الگ قطار یں بن جائیں، پر یہ بھاری بھرکم کمان اپنی جگہ پر ڈٹی رہی۔
قطار میں کھڑے کھڑے جے شری کے من میں ایک لفظ گونج اٹھا۔۔۔ ’ستیہ یگ!‘ نہ جانے ستیہ یگ کب آئے گا۔ اور کون جانے آئے گا بھی یا نہیں۔ ستیہ یگ، تریتا، دواپر، کل یگ۔ اور کل یگ کے بعد پھرستیہ یگ آتا ہے۔ ستیہ یگ کتنے ورش کا ہوتا ہے، کچھ معلوم نہیں۔ کل یگ کی عمر بھی تو کوئی نہیں جانتا۔ ہاں، یاد آیا۔۔۔ تریتا بارہ لاکھ چھیانوے ہزار برس کا ہوتا ہے۔ اور دواپر آٹھ لاکھ چونسٹھ ہزار برس کا۔ پروہت تو شاستر اور پُران پڑھتا ہے۔ اس نے ٹھیک ہی کہا ہوگا۔ کل یگ کی عمر شاستر بھی نہیں جانتے۔ نہ جانے کل یگ کا انت بھی ہوگا یا نہیں۔ شاید کل یگ تریتا سے بھی بڑا ہو۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، یہی سنتی آئی ہوں کہ پاپ کی نیّا بھر چکی ہے یہ اب ڈوبی کہ ڈوبی۔ اس کے دل میں ان گنت گدھ منڈلانے لگے۔ یہ سب گدھ اس پر جھپٹنے کی کوشش میں تھے۔ اس نے سوچا کہ ستیہ یگ اب آئے یا نہ آئے، یہ گدھ تو ہم کنگلوں کو نوچ نوچ کر کھا جائیں گے۔ ہم بچ نہیں سکتے۔ سب سہمے جا رہے ہیں۔ جیسے سب کو گدھ نظر آرہے ہوں۔ راکھال اس کا ہاتھ کھینچتے ہوئے ’ماں، بھوک! ماں بھوک‘ کی رٹ لگا رہا تھا۔ کوئی اور وقت ہوتا تو وہ اس کا ہاتھ چھڑا کر بھاگ جاتا۔ پر اب اس کے بدن میں اتنی طاقت نہ تھی۔
جے شری نے راکھال کی گردن تھپتھپاتے ہوئے سوچا آٹھ سال سے میں اسے پالتی آئی ہوں۔ ارے، ارے! اس کا پیٹ تو کُپّا ہو رہاہے۔ کس طرح ہڈیاں نکل آئی ہیں۔ آج اس کا باپ زندہ ہوتا تو کہیں نہ کہیں مزدوری ڈھونڈ ہی لیتا۔ لنگر کے سامنے گھنٹوں کھڑے رہو، پھر کہیں تھوڑا دال بھات ملتا ہے۔ آخرہم کیسے بچ سکتے ہیں؟ اس کے دل میں بھوکے گدھ برابر منڈلاتے رہے۔ یہ گدھ راکھال پر بھی جھپٹنا چاہتے تھے۔
راکھال نے ماں کا ہاتھ کھینچتے ہوئے پوچھا ’’ہمیں دال بھات کب ملے گا؟ ماں گرم گرم دال بھات؟‘‘
’’ہماری باری تو آلے راکھال‘‘، جے شری نے اسے چومنے کا جتن کرتے ہوئے کہا۔
نہ جانے ہماری باری کب آئے گی، شاید ہماری باری آنے سے پہلے ہی سب دال بھات ختم ہوجائے گا۔ شاید ہم یہاں کھڑے کھڑے گر پڑیں گے اور ان گنت گدھ ہمیں نوچ نوچ کر کھاجائیں گے۔ بھوک کے مارے پیٹ شمشان کی طرح جل رہا ہے۔ ہائے رام! ہماری بھوک کا اب کبھی انت نہیں ہوگا۔ ہم بھوکے ہیں اور گدھ بھی بھوکے ہیں۔ کوئی کہا ں تک تسلی رکھے گا؟ نہ جانے ابھی اور کتنی دیر ہوگی؟ ادھک نہیں تو تھوڑا ہی سہی۔ جلدی نہیں تو دیر سے ہی سہی۔ بس دال بھا ت ملے ضرور۔ یہ لنگر والے بھی کتنے رحم دل ہیں۔ وہ ہمیں موت کے منھ سے بچانے کا جتن کررہے ہیں۔
جے شری، او جے شری۔۔۔! گانو چھوڑتے ہوئے اس کے پتی نے کہا تھا، پہلے میری موت ہوگی۔ جب تک میں زندہ ہوں، یمدوت تمھاری اُور دیکھ بھی نہیں سکتے۔۔۔ یہ مت کہو پتی دیو! پہلے میں مروں گی۔ تم بچ جاؤ اور میرا راکھال بچ جائے۔۔۔ ارے، ارے! جے شری، تمھیں چنتا کاہے کی ہے؟ راکھال کا بال بھی بانکا نہ ہوگا۔
اس نے سوچا کہ اس کل یگ میں یہ ایک ستیہ یگی بات ہوئی کہ اس کا پتی وچن نبھا گیا۔ کنگلے کا جیون کسے پسند ہوگا؟ اور یہ جیون بھی کوئی جیون ہے؟ یہ تو بوجھ ہے بوجھ، بھاری بھرکم بوجھ۔ ارے کوئی اسے کب تک ڈھوتا رہے گا؟
جے شری، او جے شری! کل کی بیلا سدا ہی ہری۔ جے شری!، ارے، ارے! تم تو گربھوتی ہو، جے شری! سات مہینے تو ہو بھی گئے، دو مہینے رہتے ہیں۔ بیٹا جنمے گا تو سب کشٹ دور ہوجائیں گے اور اگر بیٹی آگئی؟ اونہہ! بیٹی نہیں چاہیے۔ بیٹا چاہیے، بیٹا۔ بیٹا جو دھرتی میں ہل چلائے گا، بیٹا جو برس برس کے نیا دھان اگائے گا۔۔۔
یہ بھیانک اکال اور میں گربھوتی ہوں۔ جے شری نے جھنجھلا کر راکھال کا ہاتھ جھٹک دیا۔ جیسے سب کرودھ اسی پر انڈیل دینا چاہتی ہو۔ پر اگلے ہی پل وہ پہلے کی طرح اس کی گردن تھپتھپانے لگی۔۔۔ راکھال۔۔۔ چندا بیٹا۔۔۔ ہاں، ہاں کل کی بیلا سدا ہری رہی۔
’’ سکھ میں دان دیا جاتا ہے، دکھ میں دان کا پھل ملتا ہے۔‘‘ پیچھے سے ایک بڈھا کھانستا ہوا کہہ رہا تھا۔، ’’ہم دان لینے پر مجبور ہیں۔‘‘
’’ایسا اکال تو نہ دیکھا تھا نہ سنا تھا‘‘، ایک بڑھیا کہہ اٹھی، ’’پہلے تو اکال اسی وقت پڑتا تھا جب بارش نہ ہوتی تھی اور دھان کی فصل ماری جاتی۔ پر اب کے اتنا دھان ہوا، پھر بھی یہ بھیانک اکال۔۔۔ ہے بھگوان، یہ اکال کب ختم ہوگا؟‘‘
’’ہم پھر اپنے گانو کو جائیں گے، دیدی!‘‘ ایک لڑکی نے شہہ دی، ’’جن کو مرنا تھا وہ کبھی کے مر گئے۔ اب یہ لنگر والے ہمیں نہ مرنے دیں گے۔‘‘
’’ تم جینا چاہو تو شوق سے جیو، بیٹی!‘‘ بڑھیا بولی ’’مجھے تو بھگوان اپنے پاس بلا لے تو لاکھ لاکھ دھنیہ و اد کروں۔‘‘
جے شری بڑے دھیان سے یہ باتیں سنتی رہی۔ دائیں ٹانگ کا بوجھ بائیں ٹانگ پر ڈالتے ہوئے اس نے راکھال کا مکھ چوم لیا، بولی ’’تیرا باپ تو ہمیں چھوڑ گیا، راکھال! اب تو ہی اس کی نشانی ہے، راجا بیٹا، چندا بیٹا!‘‘
’’سورگ میں تو اکال نہ پڑتا ہوگا‘‘، بغل میں وہ لڑکی کہہ رہی تھی ’’بھوک کی مہاماری بھوگتے ہوئے ہمیں کتنا کشٹ ہوتا ہے، یہ ہمارے دیوتا کیا جانیں؟‘‘
’’سکھیرلاگیا اے گھر باندھینوں، انلے پوڑیا گیلو!‘‘ وہ بڑھیا گنگنارہی تھی، ’’چنڈی داس بابا سچ کہہ گئے۔۔۔ سکھ کے لیے یہ گھر بنایا تھا، ہائے یہ آگ میں جل گیا!‘‘
اور جے شری کو جھٹ اپنی جھونپڑی کا دھیان آیا۔ ابھی تو وہ اسی طرح کھڑی ہوگی۔ اس کے من میں شنکھ کی آواز گونج اٹھی۔ جیسے دیوتاؤں کو جگایا جا رہا ہو۔ دیوتا تو سورگ میں رہتے ہیں، پر ان کی مورتیاں مندروں میں استھاپت کی گئی ہیں۔ ہر روز انھیں رات میں سلایا جاتا ہے اور سویرے جگایا جاتا ہے۔ اشنان کے بعد طرح طرح کے بھوجن ان کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔ زمیندار بابو کے راج محل سے ان کے لیے الگ پکوان پک کر آتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ زمیندار بابو کو کچھ نہیں کہتے چاہے زمیندار بابو نردھن پرجا پر کتنا ہی اتّیاچار کیوں نہ کرتا رہے۔ مہاجن بھی دیوتاؤں کو خوش رکھتا ہے اور ہماری رہی سہی زمین ہڑپ کرتے ہوئے زمیندار بنتا چلاجاتا ہے۔ دیوتا چپ ہیں۔ لٹے ہوئے لوگ ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہیں، پتھر اور دھاتو کے دیوتا ان کا انصاف نہیں کر پاتے۔
پیچھے سے دھکے شروع ہوگئے تھے۔ جے شری نے جھٹ راکھال کو سنبھال لیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھنا کٹھن تھا۔ ان لوگوں کو شرم بھی تو نہیں آتی۔ آج انھیں دال بھات نہ دیا جائے توکل سے یہ آدمیوں کی طرح کھڑے ہوا کریں گے۔ پر جھٹ اس کے دماغ میں دوسرے بھاگ سے آواز آئی۔۔۔ دال بھات کیوں نہ دیا جائے؟ یہ تو بڑی کڑی سزاہوگی۔ وہ بھی کیا کریں؟ پیچھے سے یہ بھی تو دھکے کھا رہے ہیں۔
کٹہل کے پیڑ نہ ہوتے توسورج ان کے ادھ ننگے شریر پر چبھوتا چلا جاتا۔ چھایا رہنے پر بھی وہ پسینہ پسینہ ہوئی جاتی تھی۔ راکھال نے اس کا ہاتھ کھینچا۔ گردن گھماکر وہ ماں کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ ارے، ارے! راکھال! تو بھی پسینہ پسینہ ہو رہا ہے۔ میرا راجا بیٹا۔۔۔ میرا چندا بیٹا، تجھے بہت بھوک لگی ہوگی۔ ارے آج تو میں تجھے اپنے حصے میں سے تھوڑا سا دال بھات دے دوں گی۔۔۔ پھر ذرا جھک کر اس نے راکھال کے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’ہائے، یہ تیرے پیٹ کو کیا ہوگیا؟ راکھال! ہائے رام یہ کیسا روگ ہے۔۔۔؟‘‘ اگلے ہی پل اس نے ہاتھ پھیر کر راکھال کے ماتھے کے پسینے کی بڑی بڑی بوندیں پوچھتے ہوئے اس کا مکھ چوم لیااور کہا ’’راجا بیٹا، راجا بیٹا۔ ارے، ارے! آج تو گرم گرم دال بھات کھائے گا میرا راجا بیٹا۔‘‘
وہ زور زور سے سر کھجا رہی تھی۔ موئی جوئیں، لہو پینے والی جوئیں۔ نہ جانیں اتنی جوئیں کہاں سے پیدا ہوتی رہتی ہیں! نہ جانیں یہ جوئیں مریں گی بھی یا نہیں! ہائے رام! یہ جوئیں میرا سب لہو پی جائیں گی، پیتی چلی جائیں گی۔
’’نہ جانے اب گانو کی کیا دشا ہوگی؟‘‘ پیچھے سے وہ بڈھا کہہ رہا تھا، ’’مجھے گانو چھوڑے ڈھائی مہینے ہوگئے۔‘‘
’’اب تو وہاں بھوت بستے ہوں گے بھوت‘‘، بڑھیا بولی، ’’اب وہاں انسان کا کیا کام؟‘‘
’’چاول کا دانہ دانہ گانو سے نکال کر لے گئے تو گانو والے گانو چھوڑنے پر مجبور ہوئے‘‘، وہ لڑکی کہہ اٹھی ’’اب کوئی اپنے گانو کو لوٹ کر نہیں جائے گا۔‘‘
’’کہاں چلا گیا چاول؟‘‘ جے شری نے جھنجھلا کر کہا، ’’کون لے گیا چاول؟ تجھ سے یہ کیسے دیکھا گیا بھگوان؟‘‘
قطار آگے کو سرک رہی تھی۔ ابھی لنگر کا دروازہ دور تھا۔ اس طرح تو بہت وقت بیت جائے گا۔ پاؤ گھنٹہ، آدھا گھنٹہ، ایک گھنٹہ۔ نہ جانے کتنے آدھ گھنٹے۔ جے شری کی انگلیاں اس کے بالوں میں دھنس گئی۔ پیچھے سے الجھا الجھا سا شور سنائی دینے لگا۔ جیسے لوگ لنگر کے دروازے پر دھاوا بولنے کی سازش کر رہے ہو۔ یہ شور قطار کے اگلے حصے کی طرف سرکنے لگا۔ ’’ہائے دال ہائے بھات!‘‘ کسی نے نعرہ لگایا اور پھر پوری قطار پنکھے کی طرح ڈولتی دکھائی دی۔
یہ انتظاراسے ایک لمبانیرس سپنا معلوم ہوا۔ یہ جیون ایک بوجھ ہے۔ اسے کب تک اٹھایا جائے؟ اس نے گھوم کر بوڑھے کی طرف دیکھا۔ وہ شاید اسی لمحہ کے انتظارمیں کھڑا تھاکہ یہ ادھیڑ عورت گردن گھماکر اس کی طرف دیکھے۔ وہ جے شری کو گھور رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ باؤری، ہم سب مردے ہیں، مردے۔ قبروں سے اٹھ کر ہم یہاں کھڑے ہوگئے ہیں۔ چلو پھر قبروں میں جا سوئیں، باؤری!
اسے باڑھ کا دھیان آیا۔ یہ باڑھ تو ہر سال آتی ہے۔ بھگوان کا شراپ! کتنے گانو بہہ گئے۔ کتنے پشو ڈوب گئے۔ ہائے رام آدمی کتنے کشٹ سہتا ہے۔ باڑھ کے بعد دھرتی میں دراڑیں ہی دراڑیں نظر آئیں۔ پوکھڑوں میں پانی کا پانی گدلا اور کسیلا ہو گیا۔ ہے بھگوان! یہ باڑھ بند نہیں ہو سکتی۔۔۔ یہ بھوک کی باڑھ؟ ہائے ہم ہی دھان اگائیں اور ہم ہی بھوک سے مریں۔ یہ کہاں کا نیائے ہے؟
سر کھجانے کے بجائے وہ اب نتھونوں کے بال اکھاڑ رہی تھی۔ راکھال چاہتا تھا کہ بندر کی طرح اچھلے، اور ابھی لنگر کے دروازے پر پہنچ جائے۔ اپنے اپنے حصے کا دال بھات لے کر ہر کوئی پرے ندی کی طرف چلا جاتا ہے۔ وہ بھی اسی طرح کریں گے۔ اس نے سوچا کہ ماں کے حصے میں سے تھوڑا سا دال بھات ضرور لے گا۔ آج اسے اتنی بھوک لگ رہی تھی، آج تو وہ اپنے حصے میں سے ماں کو تھوڑا بھات بھی نہ دے گا۔
پسینے کی بدبو متواتر بڑھتی چلی گئی۔ جے شری کے من میں برابر گانو کا وچار چکر کاٹتا رہا۔ اب کسے پتا ہو سکتا ہے کہ وہ لوٹ کر وہاں جا ئے گی یا نہیں۔ پتی نہیں راکھال تو ہے۔ راکھال محنت کرے گا اور اپنی زمین چھڑا لے گا۔ راستے میں بھکاریوں کی طرح وہ کبھی اپنے بچے کے ساتھ ماری ماری نہ پھرے گی۔ وہ ضرور اپنے گانو کو لوٹے گی۔
’’عمر بھر کا پسینہ جیسے آج ہی ٹپک پڑے گا‘‘، لڑکی کہہ رہی تھی۔
بڑھیا بولی ’’کیا دھنوان، کیا نردھن، پسینہ تو سب کے جسم سے ٹپکتا ہے۔‘‘
پیچھے سے بوڑھا کہہ اٹھا ’’میں پیاسا ہوں۔ میرے بھیتر پانی کی ایک بوند بھی نہ ہوگی۔ پھر نہ جانے اتنا پسینہ کہاں سے نکل رہا ہے؟‘‘
اورپھر بڈھے نے جے شری کو ٹہوکا دیا۔ جیسے پوچھ رہا ہو۔۔۔ باؤری، توکیوں چپ کھڑی ہے۔ پر جے شری نے گردن گھماکربڈھے کی طرف یا لڑکی کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہ سمجھی۔
سامنے سے ایک نوجوان نے گردن گھماکر دیکھا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ ہوں تو میں تیرا کنہیا، رادھے! لیکن میں سچ مچ بھوک سے مرا جارہا ہوں، رادھے تو بھی بھوکی ہے۔ جے شری نے کنہیا اور رادھا کو دھیان سے دیکھا۔ کبھی تو وہ بھی اپنی کنہیا کی رادھا تھی۔ پھر اسے اپنے پتی کے آخری دنوں کا دھیان آیا۔ اسے بھیک مانگنا پسند نہ تھااور اس نے پران چھوڑ دیے۔ اس دن وہ کیسے بلک بلک کر رو رہی تھی۔ پایل بیچ کر اس نے داہ سنسکار کے لیے لکڑی خریدی تھی۔ ہائے رام، آج اس چتا کی راکھ کو ہوا اڑائے لیے پھرتی ہوگی! نہ جانے کہاں کہاں؟
اس کا من پھر گانو کی طرف گھوم گیا۔ ابھی کل تک گانو میں اس کاسمّان بنا ہوا تھا۔ کہیں نہ کہیں سے یاترا والے آنکلتے تھے۔ کنہیا اور رادھا کا کھیل کھیلا جاتا۔ چنڈی داس کے پد گائے جاتے۔ جیون کو پنکھ لگ جاتے۔ ہر کوئی گانے لگتا۔ وہ ہرسال یاترا والوں کے لیے نئے دھان نکالا کرتی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ پیسے لے کے خوش رہتے ہیں۔ وہ مہاجن کی دکان پر چلی جاتی اور سستے داموں پر دھان بیچ کر نقد پیسے لے آتی۔ رات کو مشعلوں کی روشنی میں جب یاترا والے تھالی میں آرتی کا چومکھا دیپک رکھ کر ساری سبھا میں گھماتے تو وہ جھٹ اس میں پیسے ڈال دیتی۔ پچھلی بار اس کے لیے تین سو جمع ہو گئے تھے۔ پورے پچاس تو اکیلے زمیندار بابو نے دیے تھے، پورے پچاس۔ اونہہ! یہ روپیے بھی تو ہمارے ہی تھے۔ ارے، کام کریں ہم اور موج اڑائیں زمین دار بابو! دھنیہ ہے تیرا نیائے، ہے بھگوان، دھنیہ ہے تیری لیلا! اسے یاد تھا کہ اس نے کیول ایک روپیہ دیا تھا۔ ایک روپیہ۔ کنہیا ناچے، رادھا ناچے۔ اس کا تو کوئی مول ہی نہیں دیا جا سکتا۔ یاترا والوں کو جو کچھ بھی دیا جائے تھوڑا ہے۔ ارے، یہی تو ان کی کھیتی ہے۔ مردنگ کہتا ہے۔۔۔ کنہیا کی جے، رادھا کی جے۔ منجیرا کہتا ہے۔۔۔ کنہیا سانورے اور رادھا گوری۔ رادھا گاتی ہے۔۔۔ میں برج کی گوپی مرلی والے کے سنگ راس رچاؤں، ارے کہاں برج اور کہاں بنگلہ دیش۔ سارا دیش کنہیا سانورے اور رادھا گوری کا ہی تو ہے۔
یہ بھیانک اکال۔ ارے، ارے، اسے رادھا گوری اور کنہیاسانورے بھی نہ روک سکے۔ یہ سوچتے ہوئے جے شری نے لنگر کے دوارکی اور ایک لمبی نظر دوڑائی۔ اس نے بانھیں پھیلانے کا جتن کیا۔ ایک بار پھر وہ گانو کی یاد میں کھو گئی۔ اسے یاد تھا کہ کیسے چاول مہنگا ہوتا گیا اور کس طرح لوگ اندھے ہو کر چاول بیچتے چلے گئے۔ مہاجن خوش تھے۔ وہ کسانوں کو سمجھا رہے تھے کہ اب مہنگے بھاؤ پرچاول بیچ ڈالو۔ پھر سستے داموں چاول خرید لینا۔ وقت وقت کا جادو ہے۔ یہ موقع ہمیشہ تو نہیں آتا۔ اور ہم مورکھوں نے اتنا بھی نہیں سوچا کہ دوسری فصل تک کھانے لائق ہی سہی، چاول گھر میں تو رکھ لیں۔ چاول نکلتا گیا۔ گھر میں کھانے یوگیہ بھی چاول نہ رہا تھا۔ آخر وہ بھیانک گھڑی بھی آئی کہ چاول کا دانہ سونے کے بھاؤ بکنے لگاکل یگ میں۔ ارے، ارے، ارے! یہ کیسا کل یگ ہے؟
پیچھے سے بڈھے نے جے شری کو ٹہوکا دیا۔ جے شری نے مڑ مڑ کر اس کے طرف دیکھنے لگی۔ جیسے کہہ رہی ہو۔۔۔ ہاں بابا! ہاں بابا! دنیا مسافر خانہ ہے۔ آج یہاں کل وہاں، اب ہم بھکاری رہیں گے۔۔۔ عمر بھر، راستے کے بھکاری روزروز تو یہ دال بھات ملنے سے رہا۔ اسے یاد آیا کہ گانو چھوڑنے سے کچھ ہی دن پہلے اس نے ہاٹ بازار میں ایک بڈھے کو رادھااور کنہیا کی مورتیاں بیچتے دیکھا تھا۔ ارے، ارے! وہ بڈھا تو اس بڈھے سے ملتا جلتا تھا۔ وہ کتنا مجبور تھا۔ جن مورتیوں کو ان کے پرکھے پوجتے آئے تھے، انہیں وہ بہت سستے داموں بیچ رہا تھا۔ اس کے جی میں تو آیا کہ وہ پوچھ لے، پر وہ چپ کھڑی رہی۔
پھر اس کے سامنے تاراپد کی شکل گھوم گئی۔ اس نے ان دلالوں کی بری گت بنائی تھی جونگر سے عورتوں کی دلالی کرنے آئے تھے۔ حرامی، سور، راکشش چلے آئے گانو میں۔ ارے، گانو کی کنّیائیں بھی کسی کی بیٹیاں ہیں، کسی کی بہنیں۔ حرامی، سور، راکشش۔۔۔ یہ گالیاں اس کے من میں گونج اٹھیں۔۔۔ ہائے ری دنیا! اسی تارا پد نے گانو کی سب سے سندرلڑکی کو پکڑکر بیچ ڈالا۔ نہ جانے وہ کدھر نکل گیا۔ حرامی، سور، راکشش! گانو چھوڑنے سے پہلے وہ ایک، نہ دو، نہ تین، پوری سات کنّیاؤں کو بیچ چکا تھا۔ اسے تو خوب بھات ملتا ہوگا۔ رس گلّے سندیش اور نہ جانے کیا کیا مٹھائی۔ اسے ہماری طرح لنگر کے سامنے گھنٹوں انتظار نہ کرنا پڑتا ہوگا۔ اب تو وہ بڑا دلال بن چکا ہوگا۔ سب سے بڑا دلال۔
اب لنگر کا دروازہ بھی قریب تھا۔ راکھال خوش نظر آتا تھا۔ اب ماں کا ہاتھ کھینچ کر لنگر کے دروازہ تک اور دوڑلگانے کی کچھ ضرورت نہ تھی۔ گرم گرم دال، گرم گرم بھات۔ اپنے حصے کا دال بھات وہ خود کھائے گا۔ ماں لاکھ کہے گی کہ تھوڑا سا مجھے دے دو راکھال! بھگوان نے بڑا پیٹ لگایا ہے۔ اور مجھے تم سے زیادہ بھوک لگتی ہے۔ وہ ایک نہیں سنے گا۔
جے شری، او جے شری! سب زمین بندھک رکھ دی اور ایک بوری چاول ملا۔ ایک بوری چاول۔ ارے جانتی ہے آج کل ایک بوری چاول کا کیا مول ہے؟ سوا دو سو، بلکہ ڈھائی سو۔ ارے اب تو کوئی تین سو بھی مانگ لے تو کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔۔ پتی دیو، سات دن سے ہم گھوئیاں کے پتّے کھا رہے ہیں، اور یہ پتّے بھی کب تک ملیں گے۔۔۔؟ ارے سن تو جے شری، آدھا بوری چاول کے لیے ایک بیگھہ زمین بیچ کر آرہا ہوں۔۔۔ پاپ مہا پاپ، یہ تو تم نے راکھال کا بھاگیہ بیچ ڈالا۔ ہائے رام! اب راکھال یہ زمین کبھی نہ چھڑاسکے گا۔۔۔ ارے میں کیا کرتا۔۔۔؟ مہاجن تو ساری زمین کی رجسٹری کرانے کے بدلے دوبوری چاول دینے کو تیار تھا۔ میں نے سوچا، راکھال کا سارا بھاگیہ کیوں بیچ ڈالوں۔ ارے ہماری زندگی میں تو کل یگ کا انت ہونے سے رہا، پتی دیو! یہ اکال ہمیں کھاجائے گا۔ پھر ستیہ یگ آئے نہ آئے۔ چلو اب اس گانو سے نکل چلیں۔ اب ہم امان کی فصل کے لیے بھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔۔۔
اسے یاد تھا کہ انھوں نے رات کے بڑھتے ہوئے اندھکارمیں گانو چھوڑا تھا۔ اس رات مہاجن کی بیل گاڑیاں بھی کسی چور بازار کے لمبے طلسماتی سفرپر چل پڑی تھیں۔ چاول ہی چاول۔ اتنا چاول کہاں جا رہا تھا؟
اب وہ لنگر کے دروازہ کے سامنے پہنچ چکی تھی۔ اسے اس وقت پتا چلا جب راکھال نے اپنے حصے کا دال بھات لے لیا۔ اس نے بھی اپنے حصے کا دال بھات سنبھال لیا۔
’’انّ داتا، سدا ہی سکھی رہو!‘‘ وہ بولی ’’انّ داتا کی سداہی جے؟‘‘
’’ماں! ٹھنڈی دال اور ٹھنڈا بھات۔‘‘ راکھال نے للچائی درشٹی سے ماں کا دل ٹٹولتے ہوئے کہا ’’یہ تو بہت تھوڑا سا ہے۔‘‘
’’تھوڑا بھی بہت ہے، بیٹا!‘‘جے شری اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’’ارے بیٹا، یہ بھی نہ ملتا تو ہم کیا کر لیتے؟‘‘
وہ ندی کی طرف چلے جا رہے تھے۔ پیچھے سے وہ لڑکی جلدی جلدی قدم اٹھا تی ان کے ساتھ آملی۔
’’ذرا رک کیوں نہیں جاتی، دیدی!‘‘ لڑکی بولی’’میری ماں کو بھی آلینے دو۔ ہم ایک ہی گانو کے نہیں تو نہ سہی۔ بھگوان نے ہمارا ملاپ کرا دیا۔‘‘
’’ہاں بہن، ہم دکھ کے ساتھی ہیں۔‘‘ جے شری نے اپنا آنچل سنبھالتے ہوئے کہا۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں حیرت کا منظر سا لہرا گیا۔ جیسے وہ کہہ رہی ہو۔۔۔ ارے، ارے! میرا تو وچار تھا کہ تم اس نوجوان کے ساتھ بیٹھ کر دال بھات کھاؤگی۔
پیچھے سے لڑکی ماں بھی آگئی۔ آتے ہی اس نے راکھال کی ٹھوری اٹھا کر اسے پیار سے چوم لیا اور بولی، ’’ارے چندا بیٹا، تھوڑا دال بھا ت تو تجھے میں بھی دے سکتی ہوں اپنے حصے میں سے۔‘‘
لڑکی گھبرا گئی۔ وہ بولی، ’’ابھی تو سب کو زندہ رہنا ہے، ماں! اپنے حصے کا دال بھات تو ہر کسی کو خود کھانا چاہیے۔‘‘
ندی کے کنارے پہنچ کر انھوں نے اپنا اپنا دال بھات کھایا۔ راکھال کے پھولے ہوئے پیٹ پر نگاہ جماتے ہوئے لڑکی کی ماں کہہ رہی تھی ’’ارے بیٹا، تیرا پیٹ تو ایسے نظر آتا ہے جیسے کسی زمیندار کے بیٹے کا ہو۔‘‘
’’یہ تو کمتی بھوجن کی بیماری کے کارن ہے، ماں!‘‘ جے شری بولی’’اب کون وید راکھال کو اوشدھی دے گا؟‘‘
جے شری کی رانوں میں جیسے کسی نے سیسہ بھر دیا تھا۔ اس کے کولہے بھی بری طرح درد کر رہے تھے۔ وہ دھرتی پر لیٹ گئی۔
راکھال بھی نڈھال ہو رہا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا، ایک رنگ جاتا تھا۔ جیسے دیا بجھ رہا ہو۔ جیسے چاند ڈوب رہا ہو۔
جے شری اٹھ کر بیٹھ گئی۔ لڑکی اور اس کی ماں بھی گھبرا گئیں۔ انھوں نے راکھال کو آرام سے لٹا دیا۔ ماں دھیرے دھیرے اس کا پیٹ سہلانے لگی اور وہیں لیٹے لیٹے راکھال کی آنکھ لگ گئی۔
جے شری گھبرائی گھبرائی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ بولی’’کچھ تمھیں بھی معلوم ہے بہن کہ یہ کل یگ کب ختم ہوگا؟‘‘
’’یہ تو بہت کٹھن سوال ہے، دیدی، اس کا جواب تو جنتا کے سیوکوں کو بھی معلوم نہیں ہوگاجو ہمیں روز روز سمجھاتے ہیں کہ نیا یگ آنے والا ہے۔‘‘
لیٹے لیٹے راکھال نے کروٹ لی۔ اسے پتلا دست آیا۔ جے شری نے اسے پونچھ کر دوسری طرف لٹا دیا اور غلاظت کو ڈھانپ دیا۔ اس کا دل زورزور سے دھک دھک کر نے لگا۔ اس بار وہ پھر راکھال کا پیٹ سہلاتی رہی۔
’’ستیہ یگ۔۔۔ نیایگ۔۔۔ یہ کب آئے گا، بہن؟‘‘جے شری نے اڑنے کے لیے تیارچڑیاکی طرح بانھ پھیلاتے ہوئے کہا۔
’’یہ تو میں نہیں جانتی ہوں، دیدی! سنتی ہوں، نئے یگ میں زمیندار نہ ہوں گے۔ جو ہل چلائے گا، وہی زمین کا مالک ہوگا۔‘‘
’’وہ یگ کب آئے گا؟ ستیہ یگ؟‘‘
’’ہمارے ساتھی کہتے ہیں۔۔۔ دیدی، یہ دال بھات ہمیں دان میں نہیں دیا جا رہا۔ اس پر ہمارا ادھیکار ہے۔ وہ کہتے ہیں، سب لوگ پھر اپنے اپنے گانو کو لوٹیں گے۔ پھر نیا دھان ہوگا۔ ہم اتنا کھائیں گے کہ خوب موٹے ہوجائیں گے۔‘‘ اس نے اپنی بانہوں کو پھیلاتے ہوئے کہا۔
جے شری نے بہت سے ہوائی قلعے بنائے۔ کل یگ ختم ہوا۔ ستیہ یگ شروع ہو چکا تھا۔ اب اس ستیہ یگ کا کبھی انت نہ ہوگا۔ اس کی کلپنا جاگ اٹھی۔ کنہیّا کی بانسری جاگ اٹھی۔ ایک نیا گان۔۔۔ یاترا والے سبھا میں چومکھا دیا گھما رہے تھے۔ لوگ بڑھ بڑھ کر تھال میں پیسے ڈال رہے تھے۔ کنہیّا کہہ رہے تھے۔۔۔ اب دیش میں اکال نہیں پڑے گا، رادھا! اور رادھا کہہ رہی تھی۔۔۔ دیکھو کنہیّا، اب کبھی زمیندار کسانوں پر حکم نہ چلائیں، چور بازار بھی سب ختم ہو جائیں۔۔۔ کنہیا کہہ رہے تھے۔۔۔ جو ہل چلائے وہی زمین کا مالک۔ زمیندار وہی جو ہل چلائے۔۔۔
راکھال کی حالت خراب ہوتی گئی۔ جے شری گھبرا گئی۔ اس نے راکھال کا سر اپنی ران پر رکھ لیا۔ تو کیا یہ دیا بجھ جائے گا؟ جیسے وہ اسے اپنے آنچل میں چھپاکر ہوا سے بچانے کا جتن کر رہی ہو۔ ارے، ارے! یہاں تو دیے کا تیل ہی ختم ہو رہا ہے۔ ہائے رام میں لٹ جاؤں گی۔
لڑکی بولی ’’گھبراؤ مت دیدی! راکھال اچھا ہوجائے گا۔‘‘
جے شری ہونی سے بے خبر نہ تھی۔ وہ موت کو دیکھ سکتی تھی۔ راکھال کے گلے میں بانھیں ڈالتے ہوئے اس نے آکاش کی اور نگاہ اٹھائی۔ جیسے وہ کسی چھپی ہوئی شکتی سے پرارتھنا کر رہی ہو۔ اس نے راکھال کی نبض پر ہاتھ رکھا اور چیخ ماری۔ راکھال کی نبض ڈوب رہی تھی۔
اس کا لہو سب پانی بن چکا تھا۔ اب تو یہ پانی بھی خشک ہو رہا تھا۔ سب کے دیکھتے دیکھتے اس نے پران چھوڑ دیے۔
لڑکی ستکا ر سمیتی والوں کو بلا لائی۔ وہ تین آدمی تھے۔ جے شری نہیں جانتی تھی کہ ستکار سمیتی والے یہ کام سیوا بھاؤ سے کرتے ہیں۔ اس لیے اس نے اپنی کلائیوں سے چاندی کے کنگن انھیں دینے چاہے۔ پر انھوں نے سویکار نہیں کیا، کیوں کہ اس کام میں لین دین تو ہوتاہی نہیں۔
وہ دوڑ کر لکڑی لے آئے۔ ذرا ہٹ کر چتا بنائی گئی۔ جے شری نے اپنی چیتھڑاچیتھڑا چادر میں راکھال کو کفنادیا۔ ستکار سمیتی والوں نے اسے اٹھاکر چتا پر رکھا۔ جے شری نے اپنے ہاتھوں سے چتا میں آگ لگائی۔
لال لال لپٹوں کی پرشٹھ بھومی میں رات کے سائے گہرے ہوتے جارہے تھے۔ جے شری بولی ’’ابھی کل یگ کا انت ہونے میں دیر ہے۔ ابھی ستیہ یگ شروع نہیں ہو سکتا۔‘‘
سمیتی والے جا چکے تھے۔ جے شری چتا کے پاس لیٹ گئی۔ لڑکی اوراس کی ما ں اسے دلاسا دیتی رہیں۔۔۔ جے شری، او جے شری! جیسے اس کا پتی اس سے کہہ رہا ہو۔۔۔ ارے، میری نشانی تو تیرے پاس رہے گی۔ ارے تو گربھوتی ہے، جے شری! اورپھر جیسے اسے مانسک دھکا سا لگا، یہ بھوک۔۔۔ بھیانک بھوک! اور میں گربھوتی ہوں۔ میری بھوک کوئی آج کی بھوک تو نہیں۔ یہ تو یگ یگ کی بھوک ہے۔ اور پھر اسے خیال آیا کہ یہ بھوک کا کل یگ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ہائے رام، ستیہ یگ کیسے شروع ہو سکتا ہے؟
وہ رات رت جگے ہی میں کٹ گئی۔ سورج کے پہلے کرنوں کے آکاش میں آتے ہی جے شری نے چتا سے راکھ کی چٹکی اٹھا کر ماتھے پر لگا لی۔
اس کی کلپنا میں پھر ان گنت گدھ منڈلانے لگے۔ یہ گدھ بہت بھوکے تھے۔ جیسے وہ پوچھنا چاہتی ہو کہ کیا اب یہ گدھ زندہ انسانوں پر جھپٹنا چاہتے ہیں۔
ایک دن، دو دن، تین دن۔
جے شری وہیں پڑی رہی۔ لڑکی اور ماں کے لاکھ درخواست کر نے پر بھی وہ لنگر کی طرف جانے کے لیے راضی نہ ہوئی۔ وہ اسی طرح مر جانا چاہتی تھی۔
’’تم تو گربھوتی ہو، دیدی! اور گربھوتی کو سدا خوش رہنا چاہیے۔‘‘ لڑکی نے جے شری کے سینے پر اپنا سر تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
جے شری نے ناک سکڑتے ہوئے لڑکی کو پرے ہٹا دیا۔ اسے تو ادھر گربھوتی لفظ سے بھی نفرت ہوگئی تھی۔
ماں بولی ’’تیرے تو بیٹا جنمے گا، بیٹی جے شری!‘‘
جے شری اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس نے سوچا کہ اس کا بیٹا ستیہ یگ میں جنم لے گا، اپنا بھاگیہ لائے گا، وہ ستیہ یگ میں پلے گا۔
لڑکی بولی ’’تم دیکھتی نہیں دیدی کہ دھرتی نئی کروٹ لے رہی ہے، اب نیا یگ شروع ہوگا۔‘‘
’’نیا یگ۔۔۔ ستیہ یگ؟‘‘
’’ہاں، دیدی لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے سمے کی مڑتی ہوئی دھارا کو دیکھ لیا ہے۔‘‘
’’وہ سچ کہتے ہوں گے۔‘‘
’’وہ کہتے ہیں اب نیا پربھات شروع ہوگا، دھرتی کی کایا پلٹ جائے گی۔‘‘
’’سچ!‘‘
’’وہ کہتے ہیں اب نیا دھان اگے گا، جنتا کے لیے دھان، سب کے لیے دھان۔‘‘
’’پھر تو ستیہ یگ آرہا ہے، ستیہ یگ!‘‘
پاس سے ماں نے چڑ کر کہا ’’ابھی ستیہ یگ کہاں ہے؟ ابھی کل یگ ہے۔ مجھ سے پوچھو یہ کل یگ کبھی ختم نہ ہوگا۔‘‘
ماں نے ایک دلال کی بات چھیڑ دی۔ جے شری کی آنکھوں میں تاراپد کا روپ گھوم گیا۔ ماں کہہ رہی تھی، ’’اور وہ مجھ سے میری بیٹی مانگتا تھا۔ کہتا تھا۔۔۔ تیری بیٹی تو راج کنیا ہے، اس کے بھاگیہ میں تو رانی ہونا لکھا ہے، بول اس کا کیا لے گی؟ نگورے نے رتّی بھر شرم نہ کی۔‘‘
’’تم نے کیا جواب دیا، ماں؟‘‘ جے شری نے حیرانی سے پوچھا۔
’’میں نے تو سو بات کی ایک بات کہہ دی۔ نہ بابا، میری لڑکی تو بھاگیہ وتی ہے۔ وہ اپنا بھاگیہ خود چنے گی۔‘‘
جے شری نے سوچا تاراپد ادھرآنکلا ہو، شاید وہ تاراپد ہی ہو۔ لڑکی سر جھکائے بیٹھی رہی اور دھول پر گول گول گھیرے گھیرے بناتی رہی۔
’’حرامی، سور، راکشش۔‘‘ جے شری نے تاراپد کو من ہی من میں گالیاں دیتے ہوئے کہا، ’’پاپوں کی نیّا بھر کر ڈوبتی ہے۔‘‘
’’ہاں بیٹی، پاپوں کی نیّا بھر کر ڈوبتی ہے۔‘‘
’’اس دلال نے اپنا نام کیا بتایا تھا، ماں؟ تاراپد تو نہیں تھا اس کا نام؟‘‘
’’میں نے پوچھا نہیں بیٹی، اور اس نے بتایا نہیں اپنا نام۔‘‘
’’دیکھنے میں کیسا تھا وہ؟ بہت موٹا تازہ، گھنگھرالے بال، بڑی بڑی آنکھیں اور آواز ایسی جیسے جھانجھ بجتی ہو۔۔۔ کہو نا ماں؟‘‘
’’تم نے کیسے جان لیا بیٹی؟ وہ ٹھیک ایسا ہی تھا۔‘‘
’’وہ وہی تاراپد ہوگا، وہی ہمارے گانو کا تاراپد۔‘‘
’’تمھارے گانو کا تاراپد؟‘‘
’’ہاں ماں، پہلے تاراپد بھلا آدمی تھا۔ اس نے پہلی بار گانو میں آنے والے دلالوں کو پولس کو حوالے کر دیا۔ پھر وہ خود دلال بن گیا۔ یہ کیسا کل یگ ہے؟ دیوتا بھی راکشش بننے لگے۔‘‘
’’پہلے کپڑا اجلا ہوتا ہے، بیٹی! میلا ہونے پر اسے دھویابھی جا سکتا ہے۔‘‘
ادھر لڑکی دھول پر بہت بڑی چکر بنا چکی تھی۔ جے شری نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا، ’’تم یہی کہنا چاہتی ہونہ بہن کہ وقت بھی ایک چکر ہے۔‘‘
’’ہاں دیدی، اس کی ابتدا ہے نہ انتہا۔‘‘
’’ستیہ یگ، تریتا،دواپر، کل یگ۔۔۔ کل یگ اور کل یگ کے بعد پھر ستیہ یگ آتا ہے۔ پہلے وستر اجلا ہوتا ہے۔ پھر میلا ہوجاتا ہے۔ اور پھر جب یہ دھل جاتا ہے تو سمجھو ستیہ یگ آگیا۔‘‘
’’ستیہ یگ ضرور آئے گا دیدی! اپنی دھرتی ہوگی، اپنے ہل، اپنے ہنسیے۔ اور دھان اگانے والے کسان، کنگلوں کی طرح نگر کے سامنے کھڑے نہیں رہاکریں گے۔‘‘
جے شری زمین پر لیٹ گئی۔ ا س کے چہرہ کا رنگ بدل رہا تھا۔ وہ گربھ وتی تھی۔ کیسی کیسی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں؟ ابھی تو دو مہینے باقی ہیں، اس نے سوچا۔ پر پچھلے تین دن سے پیٹ میں بچے کی حرکت بند ہو چکی تھی۔
ماں بولی، ’’چندا بیٹا تو وقت پر جنمے گا ہم تو تیرے پاس ہی ہیں۔ تجھے چنتا کاہے کی، جے شری؟‘‘
جے شری او جے شری! ہم تو سو سو پیڑھیوں کے کسان ہیں۔۔۔ ہاں پتی دیو، پر ہمارازمیندار ہم پر ہمیشہ ظلم کرتا آیا ہے۔۔۔ جے شری! ہماری احالت کبھی نہیں بدلی۔۔۔ ہاں پتی دیو! ہمارے گانو میں سدا سے اکال پڑ رہا ہے۔۔۔
جے شری، او جے شری! یہ اکال پہلے سب اکالوں کی چرم سیما ہے۔۔۔ پر پتی دیو! اب تو یگ پلٹ رہا ہے۔ کل یگ کے گربھ میں ستیہ یگ جنم لے رہا ہے۔ ان ٹیسوں کا اٹھنا ضروری ہے۔۔۔
’’ہائے، میں مر گئی، میری میّا!‘‘ جے شری بار بار چلّا اٹھتی تھی۔ اس کا کشٹ کوئی سادھارن کشٹ نہ تھا۔ لڑکی کہیں سے تھوڑاتیل مانگ لائی تھی۔ اور ماں برابر ایک دائی کی طرح جے شری کے پیٹ پر مالش کرتی رہی۔
وقت سے پہلے بچے نے جنم لیا تھا۔ تھا تو بیٹا پر مردہ۔ ماں نے جے شری کو سنبھالتے ہوئے کہا، ’’بچے کو ڈھنگ سے لے، بیٹی! ہائے رام، بھاگیہ کو کون بدل سکتا ہے۔‘‘
جے شری بے ہوش پڑی تھی۔
ذراہوش آنے پر وہ ہلی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی۔ جیسے وہ بچے کا چہرہ دیکھنے کے لیے ویاکل ہو رہی ہو۔ پر ایک دھچکے کے ساتھ وہ گر پڑی۔ اس کا کشت سدا کے لیے مٹ گیا۔ نیا دھان اُگے یا نہ اُگے۔ اب اسے کیا؟
لڑکی نے مستقبل قریب کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے کہا، ’’جے شری نے کہا تھا نا ماں کہ کل یگ کا انت ہونے والا ہے اور پاپوں کی نیّا ڈوبنے والی ہے کیا اپنے دھچکے سے جے شری نے نیّا کو ڈُوبانے کے لیے آخری زور تو نہیں لگا دیا؟‘‘
دیوندر ستیارتھی