پر امن افغانستان !
دنیا کو طالبان کی افغانستان کے اقتدار میں واپسی پر اتنا پریشان دیکھا جا رہاہے جیسے کوئی انکے ملک کا اقتدار چھین رہا ہو، جبکہ طالبان نے تو اپنا اقتدار واپس لیا ہے اور اگر ہم پچھلے ۰۲بیس سالوں کا تجزیہ کریں تو پتہ چلے گاکہ شروع کے کچھ سال طالبان نے کم مزاحمت کی اسکے بعد تو صورتحال ایسی دیکھائی دیتی رہی کہ طالبان جب چاہتے کابل پر قبضہ کرسکتے تھے ۔ کیا یہ اس بات کی گواہی نہیں ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادیوں نے سوائے اپنے ممالک کی دولت اوراپنے فوجیوں کی قیمتی جانیں ضائع کروائی ہیں ۔ خصوصی طور پر امریکی اور عمومی طور پر دیگر اتحادی ممالک کی عوام کو اپنے ارباب اختیار سے ان بیس سالوں کا حساب لینا چاہئے ۔
بہت سارے ممالک کے داخلی معاملات افغانستان سے بھی بد تر ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی دوسرا ملک یا بیرونی طاقت کو مداخلت کی اجازت دی جاتی ہے ۔ طالبان کی پریشانی پاکستان یا ہندوستان تک محدود نہیں بلکہ یہ براعظموں پر پھیلی ہوئی محسوس کی جارہی ہے ۔ جیسے دنیا پر آفاقی نظام حکومت قائم ہونے جارہا ہے جس کے داعی یہ طالبان ہیں ۔ ہمارے پڑوس میں تو صف ِ ماتم بچھی ہوئی ہے(15 اگست 2021) انکی آزادی کا تھا ، اب سے بربادی کی یاد بنامنائینگے ، کہیں کہیں اس کے برعکس لوگ سجدہ شکر بجالانے میں مشغول ہیں ۔ پاکستان ابھی ماحول کا جائزہ بہت غور سے لے رہا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ہمیشہ افغانستان کی فلاح و بہبود کیلئے آگے آگے رہاہے ۔
طالبان نے آمریکہ اور اسکے اتحادیوں کو لگ بھگ بیس سال کا عرصہ دیا کہ وہ افغانستان کو اپنے بس میں کرلیں اور جیسانظام نافذ کرنا چاہتے ہیں کرکے دیکھ لیں لیکن واضح دیکھائی دے رہا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی سوائے عمارتوں کی تعمیر اور تھوڑے بہت ترقیاتی منصوبوں کے سوا افغانستان میں کسی بھی قسم کا بدلاءو نہیں لاسکے، آسان لفظوں میں یہ کہا جانا چاہئے کہ افغان سوچ کو قطعی نہیں بدل پائے ہیں اور سوچ کو بدلنے کے شوق نے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو کتنا نقصان پہنچایا ہے کہ انکی معیشت کو سنبھلنے میں کئی برس لگینگے، یہاں اس گمان کوبھی ظاہر کیا جاسکتا ہے کہ امریکہ نے اپنی تاریخی شکست اور بدترین بے عزتی پر پردہ ڈالنے کیلئے دنیا کی ساری توجہ کورونا کی وباء پھیلاکر اس طرف مبذول کروانے کی ممکن حد تک کوشش کی ہے ۔ بظاہر یا البتہ یہ بات انتہائی قابل ذکر ہے جو تقریباً حرف عام بنی ہوئی ہے کہ افغانستان میں حفاظتی عملے یعنی افواج کو ترتیب دینے کیلئے بیس ارب ڈالر خرچ کئے گئے ہیں ، یہ بھی ایک موضوع ہے ۔
افغانستان ایسے مستقل مزاج لوگوں کی اماجگاہ ہے کہ جو اپنی صفوں میں موجود غداروں کی بدولت اپنی سرزمین جز وقتی طور پرکچھ آرام کی غرض سے کسی کو قبضہ کرنے کا شوق پورا کرنے کیلئے دے دیتے ہیں یا پھر اپنے بازءوں کی طاقت کو آزمانے کیلئے دشمن کو نرغے میں لے لیتے ہیں ، صورت کوئی بھی ہوشکست، نقصان اور ذلت قابضین کے حصے میں ہی آتی رہی ہے ۔ طالبان اپنی تاریخ کے اعتبار سے اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کو نافذ کرنے کا عزم رکھتے ہیں ، جس کی مخالفت میں بیس سال قبل تقریباً دنیا کھڑی ہوگئی تھی اور طاقت کا ایسا زعم تھاکہ راتوں رات افغانستان کو اپنے قبضے میں کرلینگے ۔ پاکستان بھی اسوقت کے حالات اور ساری دنیا سے مخالفت کرنے کا حوصلہ بھی نہیں تھا اور زمینی حقائق کی روشنی میں سکت بھی نہیں رکھتا تھا، لیکن اسکا مطلب یہ قطعی نہیں تھا ، جس کا بھاری خمیازہ پاکستان نے بھی بھگتا ہے ۔ مکمل جائزہ لیں تو پاکستان کا نقصان بھی افغانستان کے نقصان سے قریب تر ہوگا ۔ اسکے باوجود پاکستان کے دفاعی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کسی نا کسی طرح سے افغانستان کی مدد جاری رکھی ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ افغانیوں کو اپنے ملک پر قبضہ کرنے والوں کے شوق کو پورا کرنے دینا اس لئے ممکن ہوتا رہا ہے کہ افغانیوں کا جنگی جنون جو کہ مومن کیلئے اسلحہ کا زیور کی ترجمانی کرتا ہے کہیں ماند نا پڑ جائے کہیں انہیں بھی نرم گرم بچھونوں کی عادت نا پڑجائے ۔ اس لئے وہ ہر وقت میدان عمل میں رہتے ہیں ۔ ےہاں یہ بھی ذہن نشین کرلیجئے کہ پہلے برطانیہ جو اپنے وقت کا سپر پاور تھا، پھر سویت یونین(روس) جو اسوقت کا سپر پاور تھا اور اب ترقی یافتہ دور یعنی تکنیک کی ترقی کا دور اس دور کو چلانے والے سپر پاور امریکہ اور اسکے ساتھ دیگر ترقی یافتہ بھرپور تربیت یافتہ جدید ترین اسلحہ سے لیس افرادی قوت رکھنے والوں کو تاریخ کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔
آج افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوچکی ہے اور طالبان نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور بحالی کیلئے رابطے شروع کردئے ہیں ، ملک میں تعلیم کے ترویج کے عمل کو جاری رکھنے کے احکامات بھی جاری کر دئیے گئے ہیں ۔ قوی امید ہے اور اللہ رب العزت پر ایمان ہے کہ طالبان کی حکومت نا صرف افغانستان بلکہ پورے خطے میں پاکستان کو نمایاں کردار منوانے میں اپنا قلیدی کردار ادا رکرتے دیکھائی دینگے اور پاکستان میں صدارتی نظام کی بنیادیں بھی ایک بار مضبوط ہوتی دیکھی جائینگی، بشرطیکہ پاکستان میں موجود ملک دشمن ان تعلقات کو کسی نہیں مشکل میں نا دھکیل دیں ۔
شیخ خالد زاہد