آج تو اور کے سینے سے لگا لگتا ہے
قطرہ قطرہ بھی تو دریا سے جدا لگتا ہے
میرا رونا تجھے مجنوں کی صدا لگتا ہے
گر یہ لگتا ہے تو چپکے سے بتا لگتا ہے
خط کو پھولوں میں لپیٹا ہے کوئی دیکھ نہ لے
خط کی خوش بو سے لکھاری کا پتا لگتا ہے
بعد برسوں کے میں سویا ہوں اسے سوچے بغیر
آج پوری ہوئی ہے اسکی دعا لگتا ہے
ایک گونگی ہے سہیلی جو اسے ہے بھاتی
میں جو کرتا ہوں اشارے تو برا لگتا ہے
جس قدر خُونچَکاں کمرے کا اندھیرا ہے زمل
یہ دیا آنکھ کے پانی سے بجھا لگتا ہے
ناصر زملؔ