آل رسول ﷺ کے گھرانے کے دو یتیم بچے
ایک خوبصورت تحریر از یوسف برکاتی
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب
بعض اوقات ہم لوگوں سے اپنی زندگی میں انجانے میں ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں جس کا اس وقت ہمیں بالکل بھی اندازا نہیں ہوتا لیکن جب اس غلطی کا علم ہو جائے تو وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اب رب تعالی کی مرضی اور منشاء ہے کہ وہ ہمیں اس غلطی کے ازالے کا موقع فراہم کرتا ہے یا نہیں تاریخ اسلام میں بھی ہمیں بیشمار ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں جہاں ایسے معاملات نظر آتے ہیں ایسا ہی ایک دلچسپ اور جذباتی واقعہ میں یہاں تحریر کرنے جارہا ہوں جسے پڑھتے وقت اس کے تجسس اور دلچسپی کے پیش نظر آپ اپنی نظریں اور دھیان کہیں اور سمت لے جانے کی ہمت بھی نہیں کریں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ واقعہ اس وقت کا ہے کہ جب واقعئہ کربلا کو گزرے کچھ ہی دن گزرے تھے کربلا کا قافلہ جب واپس مدینہ منورہ کی طرف لوٹ رہا تھا کے قافلے سے دو بچے بچھڑ گئے جو انتہائی پرسان حال پھٹنے ہوئے کپڑے بھوک اور پیاس سے برا حال اور بکھرے ہوئے بال لئے کسی شہر کی طرف نکل آئے وہاں چلتے چلتے انہیں ایک بہت ہی عالیشان مکان نظر آیا وہ ایک مسلمان کا گھر تھا جو ایک رئیس آدمی تھا لہذہ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک آدمی باہر آیا دونوں بھائی بہت پریشان اور غمزدہ دکھائی دے رہے تھے بڑی مشکل سے بڑے بھائی نے ہمت کرکے اس آدمی سے کہا کہ کربلا کا جو باقی لٹا پٹا قافلہ مدینہ کی طرف جارہا تھا ہم اسی قافلے سے بچھڑے ہوئے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلیہ وسلم کی نسل سے ہیں نہ ہمارے پاس رہنے کو کوئی ٹھکانہ ہے نہ سر چھپانے کے لئے کوئی جگہ تین دن سے کوئی چیز پیٹ میں نہیں گئی خاندان کی غیرت کی وجہ سے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا مناسب نہیں تھا لیکن اب برداشت سے باہر بات ہوگئی ہے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں انہوں نے اس آدمی سے کہا کہ ہم سید زادے ہیں اگر تم ہمارا خیال کرکے ہم پر مہربانی کردو تو اس وقت ہمارے پاس دعائوں کے علاوہ کچھ دینے کو نہیں ہے لیکن ہاں ہم وعدہ کرتے ہیں کہ بروز قیامت ہم اپنے نانا جان سے تمہاری ہمدردیوں کا پورا پورا صلہ اور اس کا پورا پورا اجر دلوائیں گے لیکن اس شخص نے بچے کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ میں یہ بات کیسے مان لوں کہ تم آل رسول میں سے ہو اگر تمہارے پاس کوئی سند ہے تو دکھائو ورنہ کوئی اور گھر دیکھو آل رسول کے خاندان کے نام سے مانگنے کا طریقہ پرانا ہوچکا ہے جائو جائو کوئی اور گھر دیکھو یہاں تمہارا کام نہیں ہونے والا انہوں کہا کہ اس غریب الوطنی میں ہم کیا سند پیش کریں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس شخص کی بات سن کر دونوں بھائیوں کا چہرہ اتر گیا اور آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئی مایوسی کی اس حالت میں دونوں ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کی آنکھ سے آنسو کو اپنی آستین سے صاف کرتے ہوئے کہا کہ پیارے مت رو تکلیف میں آکر مسکرانا اور فاقے کرکے شکر ادا کرنا ہمارے گھرانے کا پرانا طریقہ رہا ہے یہ کہہ کر دونوں بھائی اس گھر کے بالکل سامنے والی دیوار کے سائے میں کچھ دیر آرام کی غرض سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے یہ ایک مجوسی کے گھر کی دیوار تھی مجوسی یعنی آگ کی پوجا کرنے والے لوگ وہ ایک امیر انسان تھا چھوٹے بھائی نے کہا کہ بھائی جس دیوار کا سہارہ لئے ہم بیٹھے ہیں اگر اس نے بھی ہمیں یہاں سے اٹھادیا تو اب مجھ میں آگے چلنے کی ہمت نہیں ہے پائوں میں زمین کی تپش کی وجہ سے چھالے پڑ چکے ہیں ہم آگے کہاں جائیں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں بڑے بھائی نے دلاسہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اس دیوار کا کیا نقصان کررہے ہیں اور ضروری تو نہیں کہ وہ شخص بھی سخت دل ہو ہوسکتا ہے اسے ہمارے حال پر رحم اجائے اور وہ ہمیں یہاں سے نہ اٹھائے اور اگر اٹھا بھی دے تو کوئی بات نہیں میں تمہیں اپنی پیٹھ پر اٹھالوں گا تم فکر نہ کرو ابھی دونوں میں بات چیت جاری تھی کہ ان کی آواز اس گھر کے مالک کے کانوں تک پہنچ گئی وہ سو رہا تھا اور اس کی نیند خراب ہوگئی وہ غصہ میں باہر آیا لیکن جب اس کی نظر ان دونوں خوبصورت بچوں پر پڑی تو اس کا سارا غصہ یکدم ٹھنڈا ہوگیا اور بڑی نرمی سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور یہاں کیسے آئے ہو یہ ہی سوال اس مسلمان شخص نے بھی کیا تھا جس کا جواب یاد کرکے چھوٹے بھائی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے بڑے بھائی نے کہا کہ ہم اپنے گھر سے دور قافلے سے بچھڑے ہوئے تین دن سے بھوکے پیاسے آل رسول کے گھر سے ہیں اور سید زادے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے کے والوں اس نے کہا کہ تکلیف برداشت نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے سامنے والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن اس نے ہمیں وہاں سے جانے کے لئے کہا ہم یہاں آگئے بس شام ہوتے ہی ہم یہاں سے بھی چلے جائیں گے تو اس مجوسی نے کہا کہ وہ تو مسلمان ہے اور اسی کا کلمہ پڑھتا ہے جس کا تم پڑھتے ہو کیا اس نے کلمہ کا لحاظ بھی نہیں کیا تو بڑے بھائی نے کہا کہ اس نے ہم سے کہا کہ اگر ہم آل رسول میں سے ہیں تو اس کی کوئی سند پیش کریں ہم نے بارہا کہا کہ اس وقت ہم غریب الوطنی میں ہیں کیا ثبوت پیش کرسکتے ہیں تم ہمارا ثبوت قیامت کے دن کے لئے رکھ کو وہاں نانا جان خود موجود ہوں گے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مجوسی نے جب قیامت کا ذکر سنا تو کہا کہ اے بچوں تمہارے چہرے پر جو آل رسول ہونے کی نشانی کے طور پر نور چمک رہا ہے وہ ہی کافی تھا اگر یہ بھی اسے نظر نہ آیا تو یہ اس کی قسمت اور اگر نظر نہ بھی آیا تو اس کے لئے مسلمان ہونے کے ناطے تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام ہی کافی تھا اس مجوسی نے دونوں بچوں کی حالت زار پر رحم کھاکر ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا اس مجوسی کے لئے یہ فیصلہ آسان نہ تھا کیونکہ اس دور میں اگر کوئی کسی دوسرے مذہب کے کسی شخص کی مدد کرتا تو اس کو اپنی قوم سے نکال دیا جاتا تھا لیکن وہ مجوسی کسی بات کی پرواہ کئے بغیر ان دونوں شہزادوں کو اپنے گھر میں لے گیا اور کہا کہ جب تک تمہارا کوئی مناسب ٹھکانہ نہ بن جائے تب تک تمہیں یہاں سے جانے کی کوئی ضرورت نہیں اور بیوی سے کہا کہ یہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہزادے ہیں ان کی عزت و احترام کا تمہیں معلوم ہے نا ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مجوسی نے کہا کہ یہ اس گھرانے کے بچے ہیں جہاں دوسروں کا خیال رکھنا غریبوں کی مدد کرنا خاندانی وطیرہ رہا ہے اور یہ اسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں سے ہمیں ایک عرصہ کے بعد اولاد کی خوشخبری ملی اس کی بیوی نہایت ہی نرم دل خاتون تھی اس نے دونوں بچوں کو اپنے پاس بلایا ان کے سر پر پیار اور شفقت سے ہاتھ پھیرا دونوں کے غسل کا انتظام کیا نئے کپڑے پہنائے بالوں میں تیل ڈالا اور آنکھوں میں سرما ڈال کر تیار کردیا اور پھر دونوں شہزادوں کو لیکر اپنے شوہر نامدار کے پاس لے آئی دونوں بھائیوں نے جب ان میاں بیوی کے دل میں ان کے لئے محبت اور رحمدلی کا جذبہ دیکھا تو ان کی زباں سے ان میاں بیوی کے لئے دعائیں رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں وہ مسلمان شخص جس نے ان شہزادوں کو جانےکا کہا تھا اس نے اپنے آپ کو ہلاقت میں ڈال دیا تھا وہ آج جلدی سو گیا تھا لیکن کچھ دیر میں ہی اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ گھبرا کر اٹھ گیا اور شور مچانا شروع کردیا پورے گھر میں ایک ہنگامہ برپا ہوگیا اور وہ زور زور سے چلانے لگا کہ میں برباد ہوگیا میں لٹ گیا میری مٹی خراب ہوگئی میرا کلیجہ منہ کو آرہا ہے قیامت کی گھڑی آگئی ہے اور چیختے چیختے اس پر بیہوشی کا دورہ پڑگیا اور وہ بیہوش ہوگیا جب اسے ہوش آیا تو اس کی بیوی نے کہا کہ بتائو کیا ماجرا ہے میرا دل ڈوبا جارہا ہے خدا کے لئے مجھے بتائو تو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ میں نے ابھی ایک بہت بھیانک خواب دیکھا ہے کہ میں ایک بہت خوبصورت باغ میں موجود ہوں اور پھر لوگوں کا ایک ہجوم میرے قریب سے گزرا میں نے لپک کر تجسس سے پوچھا کہ تم لوگ کہاں جارہے ہو ؟
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ان میں سے ایک شخص نے مجھے بتایا کہ جنت الفردوس کا دروازہ کھول دیا گیا ہے اور امت محمدی کو اس میں داخلے کی عام اجازت دے دی گئی ہے اس لئے ہم جارہے ہیں یہ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں بھی اس ہجوم میں شامل ہوگیا میں نے دیکھا کہ واقعی جنت کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور لوگ ایک ایک کرکے داخل ہورہے تھے لیکن جوں ہی میرا نمبر آیا مجھے داخلے سے روک دیا گیا میں نے پوچھا مجھے کیوں روکا جارہا ہے آخر میں بھی تو سرکار علیہ وآلیہ وسلم کی امت میں سے ہوں تو مجھے بڑے تحقیر بھرے انداز سے کہا کہ اگر تم امت محمدی ہو تو اس بات کی کوئی سند پیش کرو تو تمہیں جنت میں داخلے کی اجازت مل جائے گی بغیر ثبوت کے تمہیں جنت میں داخلے کی اجازت نہیں ہے
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ تم سے رحم و کرم کی بات نہیں ہوگی بلکہ بات قائدے قانون کی ہوگی انجام سے مت گھبرائو اور اس سلسلے کی ابتدا تم نے ہی کی ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اس کے بعد اسے ان دونوں بچوں کی یاد آئی اس نے اپنی بیوی کو ان دو بچوں کے بارے میں بتایا اور کہا کہ میں نے ان سے آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی سند مانگی تھی تو اس کی بیوی نے پوری بات سن کر اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مایوس نہ ہو وہ رب بڑا غفور الرحیم ہے معاف کرنے والا ہے اس کے دربار میں توبہ کیجئے گرگڑائے تڑپئیے وہ ضرور معاف کردے گا آپ کی خطائوں کو ضرور معاف کردے گا مایوس ہونا مسلمانوں کا کام نہیں بلکہ کافروں کا شیوا ہے اس نے بیوی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ تم نہیں جانتی کہ جب تک اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہیں تو رب کیسے راضی ہوگا کس طرح وہ میری خطائیں معاف کرے گا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کی بیوی یہ بات سن کر آہستہ لہجہ میں کہنے لگی تو ٹھیک ہے پھر پہلے سرکار علیہ وآلیہ وسلم کو راضی کرلو وہ دونوں شہزادے ابھی زیادہ دور نہیں گئے ہوں گے انہیں تلاش کرو اور جب وہ مل جائیں تو منت سماجت کرکے کسی بھی طرح انہیں گھر لے آئیں اگر انہوں نے تمہیں معاف کردیا تو اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی معاف کردیں گے یہ سن کر اس کا چہرہ کھل گیا اور وہ اسی وقت اپنی بیوی کے ہمراہ ان کو ڈھونڈنے نکلا ابھی وہ گھر سے باہر نکلا ہی تھا کہ اس نے سامنے مجوسی کے گھر پر لوگوں کا ہجوم دیکھا تو حیران ہوگیا وہ مجوسی خوشی کے عالم میں گھر کی دولت لٹارہا تھا معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ وہ دونوں شہزادے کل سے اس کے گھر میں رکے ہوئے ہیں ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کو یہ سن کر یقین ہوگیا کہ اب ان بچوں کی بجائے اسے اپنی ساری دولت بھی دینی پڑجائے تو دے گا لیکن ان بچوں کو لیکر آئے گا بس وہ میاں بیوی اسی وقت اس مجوسی کے گھر پہنچے وہاں پہنچ کر دیکھا کہ دونوں شہزادے کسی دولہے کی طرح تیار ہوکر بیٹھے ہیں اور مجوسی ان کے سر سے اشرفیاں تقسیم کررہا تھا اس شخص نے اس مجوسی سے کہا کہ مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے تو مجوسی اس کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگا کہ فرمائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ؟ تو اس نے کہا کہ یہ دس ہزار اشرفیاں ہیں یہ رکھ لیجئے اور یہ دونوں شہزادے میرے حوالے کردیجیے اور مجھے یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ یہ سب سے پہلے میرے غریب خانہ پر تشریف لائے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس مجوسی نے مسکراکر کہا کہ آپ نے جنت کی جو خوبصورت عمارت دیکھی اور جس میں جانے سے آپ کو روک دیا گیا توکیا دس ہزار اشرفیوں کے عوض میں اسے بیچ دوں اور جو رحمت الٰہی کا دروازہ میرے اوپر پہلی بار کھلا ہے اسے بند کردوں آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ جن دو بچوں کو اپنے گھر سے ٹھکرا کر اپنے اوپر جنت کا دروازہ آپ نے بند کردیا ان کی خدمت کرکے انہیں کے صدقہ وطفیل ہماری تو پوری کائنات ہی تبدیل ہوگئی میرے گھرانے نے دین اسلام قبول کرلیا ہے اور اب ان کی خدمت ہی ہمارا کام ہے پیارے پڑھنے والوں اس مجوسی کے ان دو بچوں کو اپنے گھر میں لیجانے کے فیصلے نے اسے ایمان کی دولت سے سرفراز فرمایا
یوسف برکاتی