ہم مست ہو بھی دیکھا آخر مزہ نہیں ہے
ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے
شوق وصال ہی میں جی کھپ گیا ہمارا
باآنکہ ایک دم وہ ہم سے جدا نہیں ہے
ہر صبح اٹھ کے تجھ سے مانگوں ہوں میں تجھی کو
تیرے سوائے میرا کچھ مدعا نہیں ہے
زیر فلک رکا ہے اب جی بہت ہمارا
اس بے فضا قفس میں مطلق ہوا نہیں ہے
آنکھیں ہماری دیکھیں لوگوں نے اشک افشاں
اب چاہ کا کسو کی پردہ رہا نہیں ہے
منھ جن نے میرا دیکھا ایک آہ دل سے کھینچی
اس درد عاشقی کی آیا دوا نہیں ہے
تھیں پیش از آشنائی کیا آشنا نگاہیں
اب آشنا ہوئے پر آنکھ آشنا نہیں ہے
کریے جو ابتدا تو تا حشر حال کہیے
عاشق کی گفتگو کو کچھ انتہا نہیں ہے
پردہ ہی ہم نے دیکھا چہرے پہ گاہ و بے گہ
اتنا بھی منھ چھپانا کچھ خوش نما نہیں ہے
میں روئوں تم ہنسو ہو کیا جانو میر صاحب
دل آپ کا کسو سے شاید لگا نہیں ہے
میر تقی میر