سبز گُنبد کی جھلک دیدۂ تر سے آگے
دیکھ سکتی ہے نظر حدِ نظر سے آگے
جس جگہ شرط ہے بینائی کے بل چلنے کی
وہ سفر اور ہے قدموں کے سفر سے آگے
وہ نہ چاہیں تو کہاں نعت لکھی جاتی ہے
مدحِ سرکار کی منزل ہے ہنر سے آگے
صاحبِ عشق اسے عشق کی دولت دے دے
اک فقیر اور بھی ہے کاسۂ سر سے آگے
تابش اس در پہ سب اسرارِ ازل کھلتے ہیں
میری حیات کی رسائی ہے خبر سے آگے
عباس تابش