اکیسویں صدی کا عشق
مجھے اور تمہیں کوئی ڈر نہیں
نہ کوئی وعدہ وفا کرنا ہے
نہ کوئی امید چراغ جلانا ہے
ایک شادی تھی فرسودہ رسم زمانے کی
وہ مرحلہ بھی طے کر چکے ہم
اپنی اپنی جگہ ہم کتنے مطمئن ہیں
اب ملنے بچھڑنے کا عذاب ہے کب
اب جستجو وصال کیسا
اب لذت لمس کی کسے تمنا
نہ زمانے کی فکر
نہ لوگوں کا خوف
ہم ان تمام جذبوں سے کتنے آگے نکل گئے ہیں نا
ہاتھوں کی پوروں میں سمٹ آئے ہیں
تم لمحہ لمحہ میرا انگ انگ چھوتے ہو
میں بھی اپنے سرہانے تمہارے لفظ پیتی ہوں
انگلی کے ایک اشارے پر دنیا کتنی سمٹ آئی ہے
ہم کو کتنا قریب لے آئی ہے
اور مجھے اور تمہیں کسی کا ڈر نہیں ہے
کیوں کہ میں نے بھی اپنے موبائل کا پاس ورڈ کسی کو نہیں بتایا
مریم تسلیم کیانی