آپ کا سلامسلام اردو سپیشلسوانح حیات

اشفاق احمد

تحریر : نعمان حیدر حامی

اشفاق احمد

پاکستانی ڈرامہ نویس و افسانہ نگار

حالات زندگی

جناب اشفاق احمد خان ہندوستان کے شہر ہوشیار پور کے ایک چھوٹے سے گاؤں خان پور میں ڈاکٹر محمد خان کے گھر 22 اگست، 1925ء کو بروز پیر پیدا ہوئے اشفاق احمد ایک کھاتے پیتے پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد ایک قابل محنتی اور جابر پٹھان تھے۔ جن کی مرضی کے خلاف گھر میں پتا بھی نہیں ہل سکتا تھا۔ گھر کا ماحول روایتی تھا۔ بندشیں ہی بندشیں تھیں۔

تعلیم

اشفاق احمد کی پیدائش کے بعد اُن کے والد ڈاکٹر محمد خان کا تبادلہ خان پور (انڈیا) سے فیروز پور ہو گیا۔ اشفاق احمد نے اپنی تعلیمی زندگی کا آغاز اسی گائوں فیروز پورسے کیا۔ اور فیروز پور کے ایک قصبہ مکستر سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ بقول اے حمید۔
” اشفاق احمد کا حویلی نما آبائی مکان محلہ ہجراہ واری پتی میں واقع تھا ۔ اس ایک منزلہ مکان کے سامنے ایک باڑہ تھا جس میں گھوڑے بھینس اور دوسرے جانور بندھے رہتے ۔ اسی قصبے مکستر کے اسکول میں اشفاق احمد نے 1943ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔
اشفاق احمد نے ایف ۔ اے کا امتحان بھی اسی قصبہ فیروز پور کے ایک کالج ”رام سکھ داس “ سے پاس کیا ۔ اس کے علاوہ بی ۔اے کا امتحان امتیازی نمبروں کے ساتھ فیروز پور کے ”آر، ایس ،ڈی “RSD کالج سے پاس کیا۔ قیام پاکستان کے بعد اشفاق احمداپنے خاندان کے ہمراہ فیروز پور (بھارت) سے ہجرت کرکے پاکستان آ گئے۔ پاکستان آنے کے بعد اشفاق احمد نے گورنمنٹ کالج لاہور کے ”شعبہ ارد و “ میں داخلہ لیا۔ جہاںکل چھ طلباءو طالبات زیر تعلیم تھے۔ کالج میں انگریزی کے اساتذہ اردو پڑھایا کرتے تھے۔ کتابیں بھی انگریزی میں تھیں،جبکہ اپنے وقت کے معروف اساتذہ پروفیسر سراج الدین، خواجہ منظور حسین ،آفتاب احمد اور فارسی کے استاد مقبول بیگ بدخشانی گورنمنٹ کالج سے وابستہ تھے ۔اور یہ سب اشفاق احمد کے استاد رہے۔ اُس زمانے میں بانو قدسیہ (اہلیہ اشفاق احمد ) نے بھی ایم اے اردو میں داخلہ لیا۔جب بانو نے پہلے سال پہلی پوزیشن حاصل کی تو اشفاق احمد کے لیے مقابلے کا ایک خوشگوار ماحول پیدا ہوا۔ انھوں نے بھی پڑھائی پر توجہ مرکوز کر لی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالِ آخر میں اشفاق احمد اوّل نمبر پر رہے۔ جبکہ بانو قدسیہ نے دوسری پوزیشن حاصل کی ” یہ وہ دور تھا جب اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی میں اردو کی کلاسیں ابھی شروع نہیں ہوئی تھیں۔ ”

*اعلیٖ تعلیم *

گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے کیا، اٹلی کی روم یونیورسٹی اور گرے نوبلے یونیورسٹی فرانس سے اطالوی اور فرانسیسی زبان میں ڈپلومے کیے اور نیویارک یونیورسٹی سے براڈکاسٹنگ کی خصوصی تربیت حاصل کی۔

ملازمت

اشفاق احمد نے ديال سنگھ کالج، لاہور میں دو سال تک اردو کے لیکچرر کے طور پر کام کیا اور بعد میں روم یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہو گئے۔ وطن واپس آکر انہوں نے ادبی مجلہ داستان گو جاری کیا جو اردو کے آفسٹ طباعت میں چھپنے والے ابتدائی رسالوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے دو سال ہفت روزہ لیل و نہار کی ادارت بھی کی۔وہ 1967ء میں مرکزی اردو بورڈ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے جو بعد میں اردو سائنس بورڈ میں تبدیل ہو گیا۔ وہ 1989ء تک اس ادارے سے وابستہ رہے۔ وہ صدر جنرل ضیاءالحق کے دور میں وفاقی وزارت تعلیم کے مشیر بھی مقرر کیے گئے۔

*ازدواجی زندگی *

گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم اے کے دوران میں بانو قدسیہ ان کی ہم جماعت تھیں۔ بانو قدسیہ کا تعلق فیروز وپور مشرقی پنجاب ( بھارت ) سے تھا۔ قیام پاکستان کے ہجرت کرکے لاہور میں آکر قیام کیا۔ دونوں میں ذہنی ہم آہنگی اتنی ہو گئی کہ شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اُن کے والد ایک غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے حق میں نہ تھے۔ بقول ممتاز مفتی:

” اس نے جوانی میں روایت توڑ محبت کی اسے اچھی طرح علم تھا کہ گھر والے کسی غیر پٹھان لڑکی کو بہو بنانے کے لیے تیار نہ ہوں گے ۔ اسے یہ بھی علم تھا کہ گھر میں اپنی محبت کا اعلان کرنے کی اس میں کبھی جرات پیدا نہ ہوگی اس کے باوجود ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ وہ محبت میں کامیاب ہو گیا۔ اگر چہ شادی کے بعد اُسے مجبوراً گھر چھوڑنا پڑا۔“

*ادبی خدمات *

اشفاق احمد ان نامور ادیبوں میں شامل ہیں جو قیام پاکستان کے فورا بعد ادبی افق پر نمایاں ہوئے ۔

ادبی تصانیف

1953ء میں ان کا افسانہ گڈریا ان کی شہرت کا باعث بنا۔ انہوں نے اردو میں پنجابی الفاظ کا تخلیقی طور پر استعمال کیا اور ایک خوبصورت شگفتہ نثر ایجاد کی جو ان ہی کا وصف سمجھی جاتی ہے۔ اردو ادب میں کہانی لکھنے کے فن پر اشفاق احمد کو جتنا عبور تھا وہ کم لوگوں کے حصہ میں آیا۔

افسانہ نگاری

ایک محبت سو افسانے اور اجلے پھول ان کے ابتدائی افسانوں کے مجموعے ہیں۔ بعد میں سفردر سفر (سفرنامہ)، کھیل کہانی (ناول)، ایک محبت سو ڈرامے (ڈراما سیریز) اور توتا کہانی (ڈراما سیریز) ان کی نمایاں تصانیف ہیں۔ 1965ءسے انہوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ایک ہفتہ وار فیچر پروگرام تلقین شاہ کے نام سے کرنا شروع کیا جو اپنی مخصوص طرز مزاح اور دومعنی گفتگو کے باعث مقبول عام ہوا اور تیس سال سے زیادہ چلتا رہا۔

▪آسودگی
▪ایک ہی بولی
▪ایک محبت سو ڈرامے
▪ایک محبت سو افسانے
▪اور ڈرامے
▪بند گلی
▪بندئہ زمانہ (تلقین شاہ)
▪ڈھنڈورا
▪دھینگا مشتی
▪گڈریا * اُجلے پھول
▪گلدان
▪حیرت کدہ
▪حسرت تعمیر
▪جنگ بجنگ
▪کھیل تماشا
▪گھٹیا وٹیا
▪من چلے کا سودا
▪مہمان سرائے
▪ننگے پاؤں
▪پڑاؤ
▪سفر در سفر
▪سفرمینا
▪شہر آرزو
▪شاہلا کوٹ
▪شوارا شواری
▪صبحانے فسانے
▪طلسم ہوش افزا
▪توتا کہانی
▪اُچے بُرج لہور دے
▪وداع جنگ
▪زاویہ
▪زاویہ ( 2 )
▪زاویہ ( 3 )

ریڈیو

ساٹھ کی دہائی میں اشفاق احمد نے دھوپ اور سائے نام سے ایک نئی طرح کی فیچر فلم بنائی جس کے گیت مشہور شاعر منیر نیازی نے لکھے اور طفیل نیازی نے اس کی موسیقی ترتیب دی تھی اور اداکار قوی خان اس میں پہلی مرتبہ ہیرو کے طور پر آئے تھے۔ اس فلم کا مشہور گانا تھا اس پاس نہ کئی گاؤں نہ دریا اور بدریا چھائی ہے۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکامیاب ہو گئی۔

*ڈراما نگاری *

ستر کی دہائی کے شروع میں اشفاق احمد نے معاشرتی اور رومانی موضوعات پر ایک محبت سو افسانے کے نام سے ایک ڈراما سیریز لکھی اور اسی کی دہائی میں ان کی سیریز توتا کہانی اور تیرے من چلے کا سودا نشر ہوئی۔ توتا کہانی اور من چلے کا سودا میں وہ تصوف کی طرف مائل ہو گئے اور ان پر خاصی تنقید کی گئی۔ اشفاق احمد اپنے ڈراموں میں پلاٹ سے زیادہ مکالمے پر زور دیتے تھے اور ان کے کردار طویل گفتگو کرتے تھے۔
کچھ عرصہ سے وہ پاکستان ٹیلی وژن پر زاویہ کے نام سے ایک پروگرام کرتے رہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں قصے اور کہانیاں سناتے تھے۔

مطبوعات

افسانوی مجموعے و غیر مطبوعہ افسانے

ایک محبت سو افسانے (مطبوعہ 1951ء ۔ 13 افسانے)

▪توبہ
▪فہیم
▪رات بیت رہی ہے
▪تلاش
▪سنگ دل
▪مسکن
▪شبِ خون
▪توتا کہانی
▪عجیب بادشاہ
▪بندرابن کی کنج گلی میں
▪بابا
▪پناہیں
▪امی

اُجلے پھول (مطبوعہ 1957ء۔ 8 افسانے، 1رپورتاژ)

▪اُجلے پھول
▪گُل ٹریا
▪تنکہ
▪حقیقت ست نیوش
▪توشے بلے
▪صفدر ٹھیلا
▪گدڑیا
▪برکھا
▪ایل ویرا (روم سے رپورتاژ)

*سفرِ مینا (مطبوعہ 1983ء۔ 11 افسانے)
*
▪اٹوٹ مان
▪قاتل
▪قصہ نل دمنیتی
▪چور
▪مانوس اجنبی
▪بیا جاناں
▪محسن محلّہ
▪پانچ میل دور
▪کالج سے گھر تک
▪گاتو
▪فُل برائٹ

صبحانے فسانے

▪اماں سردار بیگم
▪خود بدولت
▪آڑھت منڈی
▪بٹیر باز
▪ماسٹر روشی
▪خانگیٔ سیاست
▪مسرور مرثیہ
▪شازیہ کی رخصتی
▪بے غیرت مدت خان
▪بندر لوگ
▪ڈھور ڈنگر کی واپسی
▪رازداں
▪پلِ صراط اور پاسپورٹ
▪وکھو وکھو
▪قصہ شاہ مراد اور ایک
▪احمق چڑیا کا
▪مہمان عزیز
▪بیک گراؤنڈ
▪زرناب گل
▪دم بخود
▪بدلی سے بدلی تک
▪چاند کا سفر
▪سہیل کی سالگرہ

پھلکاری

▪داؤ
▪اپنی ذات
▪رشوت
▪سلامتے کی ماں

غیر مطبوعہ افسانے (مختلف مجلات اور ادبی رسائل میں شائع ہوئے)

▪گھر نائیاں اور گھروندے
▪سونی
▪قصاص

طنز و مزاح

▪قلمکار
▪گرما گرم

ناولٹ

▪مہمانِ بہار (مطبوعہ 1955ء)
▪کھیل تماشا

دیگر

▪ہفت زبانی لغات
▪ایک ہی بولی
▪بابا صاحبا
▪طلسم ہوش افزاء
▪زاویہ
▪مہمان سرائے
▪شہر آرزو
▪عرض مصنف
▪پڑاؤ (تلقین شاہ)
▪آشیانے (تلقین شاہ)
▪بندۂ زمانہ (تلقین شاہ)

سفر نامہ

▪سفر در سفر

تراجم

▪ودائے جنگ (ارنسٹ ہیمنگوے کے ناول A Farewell to Arms کا ترجمہ)
▪چنگیزخان کے سنہری شاہین (ریٹا رتاشی کے ناول The Golden Hawks of Genghis Khan کا ترجمہ)
▪دوسروں سے نباہ (ہیلن سیڈمن شیکٹر کے ناول Getting Along With Others کا ترجمہ)

شاعری

▪کھٹیا وٹیا (پنجابی شاعری)

ٹی وی ڈرامے

▪ایک محبت سو ڈرامے (1988ء)
▪قلعہ کہانی (1990ء)
▪ٹاہلی تھلے
▪اچے برج لاہور دے
▪ننگے پاؤں (1991ء)
▪اور ڈرامے (1993ء)
▪حیرت کدہ (1995ء)
▪توتا کہانی (1998ء)
▪بند گلی
▪شاہلہ کوٹ
▪مہمان سرائے
▪من چلے کا سودا
▪تلقین شاہ
▪گلدان
▪جنگ بہ جنگ
▪حسرتِ تعمیر
▪دھینگا مشتی
▪ڈھنڈورا
▪شورا شوری
▪زاویہ (90 اقساط)

فیچر فلم

▪دھوپ اور سائے (بطور مصنف و ہدایتکار)

آخری ایام

7 ستمبر، 2004ء کو جگر کی رسولی کی وجہ سے اشفاق احمد کا اچانک انتقال ہوا۔

تحریر : نعمان حیدر حامی

نعمان حیدر حامی

تحریر شاعر و کالم نگار نعمان حیدر حامی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

Back to top button