در بدر ہو کے جو در سوچ لیا
ہم نے اب ترکِ سفر سوچ لیا
سوچ لے تو بھی کہاں رکنا ہے
یا سفر تابہ سحر سوچ لیا ؟
اب نہ وحشت کے ہیں آثار کہیں
کس طرح ہوگی بسر سوچ لیا
گر میسر ہیں تو سستا نہ سمجھ
پھر نہ آئیں گے اگر سوچ لیا
تجھ سے امّید کوئی کیا رکھے
جس نے انجام کا ڈر سوچ لیا
خدا نے کھولی اذیت کی دکاں
پھر چلانے کو بشر سوچ لیا
ناصر زملؔ