غزل کے سینے میں روز اک زمیں اگاتے ہیں
ہمیں نا جانے اشارے کہاں سے آتے ہیں
درود بھیجتے ہیں جون پر فدائے سخن
قلم کو گھول کے پھر قافیے پلاتے ہیں
تمھاری نظروں کے قصے تو اب پرانے ہوئے
ہمارے میکدے میں شیخ جھوم جاتے ہیں
خلافِ شیوۂِ رنداں تو انکے خون میں ہے
حرم میں بیٹھ کے توہینِ مے سناتے ہیں
یہ عہد وہ ہے کہ دل ، دلبری سے پاک ہیں اب
کہ دل کہ باتیں محب بول کر بتاتے ہیں
عجب ہی لطف ہے ہجراں کی آگ میں یارو
نمک بھی زخموں پہ لگ جائے چین پاتے ہیں
عطا ہے انکی کہ دو دو ٹکے کے لوگ بھی اب
ہماری بے بسی پر تالیاں بجاتے ہیں
یہ مفلسی میں ہے واحد سہارا عشق زملؔ
خیالِ یار میں خود کو پکا کے کھاتے ہیں
ناصر زملؔ