ہے سرخرو یہ آفتاب تو ہے یار شام تک
یہ دن ڈھلے گا شام تک کر انتظار شام تک
یہ قافلے کا قافلہ ہی لوٹ کر ہے آگیا
کہیں بھی عشق کا چلا نہ کاروبار شام تک
قلم سے آنسوؤں کی طرح لفظ کچھ ٹپکتے ہیں
سو پھر ٹپکتی ہیں اداسیاں ہزار شام تک
مزید فون پر تو حالِ دل بتانے سے رہا
کبھی تُو وقت میرے ساتھ کچھ گزار شام تک
سوا ہوس کے مسئلے ہیں اور بھی حیات میں
الجھتی زلفوں کو خدارا بس سنوار شام تک
یہ فاصلوں کا واہمہ گلے سے لگ کے ختم کر
یا خود تو آ یا دے مجھے یہ اختیار شام تک
ناصر زملؔ