پہلا پتھر
پہلا پتھر مقدمہ نگاری کی پہلی شرط یہ ہے کہ آدمی پڑھا لکھا ہو۔ اسی لیے بڑے بڑے مصنف بھاری رقمیں دے کر اپنی کتابوں پر پروفیسروں اور پولیس سے مقدمے لکھواتے اور چلواتے ہیں۔ اورحسب منشا بد نامی کے ساتھ بری ہوتے ہیں۔ فاضل مقدمہ نگار کا ایک پیغمبرانہ فرض یہ بھی ہے کہ وہ دلائل و نظائرسے ثابت کر دے کہ اس کتاب مستطاب کے طلوع ہونے سے قبل، ادب کا نقشہ مسدس حالی کے عرب جیسا تھا:
"ادب” جس کا چرچا ہے یہ کچھ وہ کیا تھا
جہاں سے الگ اک جزیرہ نما تھا
اس میں شک نہیں کہ کوئی کتاب بغیر مقدمہ کے شہرت عام اور بقائے دوام حاصل نہیں کر سکتی۔ بلکہ بعض معرکۃ الآرا کتابیں تو سراسر مقدمے ہی کی چاٹ میں لکھی گئی ہیں۔ برنارڈ شا کے ڈرامے (جو در حقیقت اس کے مقدموں کے ضمیمے ہیں) اسی ذیل میں آتے ہیں۔ اور دور کیوں جائیں۔ خود ہمارے ہاں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جو محض آخر میں دعا مانگنے کے لالچ میں نہ صرف یہ کہ پوری نماز پڑھ لیتے ہیں بلکہ عبادت میں خشوع و خضوع اور گلے میں رندھی رندھی کیفیت پیدا کرنے کے لیے اپنی مالی مشکلات کو حاضر و ناظر جانتے ہیں۔ لیکن چند کتابیں ایسی بھی ہیں جو مقدمہ کو جنم دے کر خود دم توڑ دیتی ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر جانسن کی ڈکشنری، جس کا مقدمہ باقی رہ گیا ہے۔ اور کچھ ایسے مصنف بھی گزرے ہیں جو مقدمہ لکھ کر قلم توڑ دیتے ہیں۔ اور اصل کتاب کی ہوا تک نہیں دیتے جیسے شعر و شاعری پر مولانا حالی کا بھرپور مقدمہ جس کے بعد کسی کو شعر و شاعری کی تاب و تمنا ہی نہ رہی۔ بقول مرزا عبد الودود بیگ، اس کتاب میں مقدمہ نکال دیا جائے تو صرف سرورق باقی رہ جاتا ہے۔
تاہم اپنا مقدمہ بقلم خود لکھنا کار ثواب ہے کہ اس طرح دوسرے جھوٹ بولنے سے بچ جاتے ہیں۔ دوسرافائدہ یہ کہ آدمی کتاب پڑھ کر قلم اٹھاتا ہے۔ ورنہ ہمارے نقاد عام طور پرکسی تحریر کو اس وقت تک غور سے نہیں پڑھتے جب تک انھیں اس پرسرقہ کا شبہ نہ ہو۔
پھر اس بہانے اپنے متعلق چند ایسے نجی سوالات کا دنداں شکن جواب دیا جا سکتا ہے جو ہمارے ہاں صرف چالان اور چہلم کے موقع پر پوچھے جاتے ہیں مثلاً: کیا تاریخ پیدائش وہی ہے جو میٹرک کے سرٹیفکیٹ میں درج ہے؟ حلیہ کیا ہے؟ مرحوم نے اپنے "بینک بیلنس ” کے لیے کتنی بیویاں چھوڑی ہیں؟ بزرگ افغانستان کے راستے سے شجرہ نسب میں کب داخل ہوئے؟ نیز موصوف اپنے خاندان سے شرماتے ہیں یا خاندان ان سے شرماتا ہے؟ راوی نے کہیں آزاد کی طرح جوش عقیدت میں ممدوح کے جد امجد کے کانپتے ہوئے ہاتھ سے استرا چھین کر تلوار تو نہیں تھما دی؟
چنانچہ اس موقع سے جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا مختصر سا خاکہ پیش کرتا ہوں: ”
نام: سرورق پر ملاحظہ فرمائیے۔
خاندان: سو پشت سے پیشہ آباء سپہ گری کے علاوہ سب کچھ رہا ہے۔
تاریخ پیدائش: عمر کی اس منزل پر آ پہنچا ہوں کہ اگر کوئی سن ولادت پوچھ بیٹھے تو اسے فون نمبر بتا کر باتوں میں لگا لیتا ہوں۔
اور یہ منزل بھی عجیب ہے۔ بقول صاحب "کشکول” ایک وقت تھا کہ ہمارا تعارف بہو بیٹی قسم کی خواتین سے اس طرح کرایا جاتا تھا کہ فلاں کے بیٹے ہیں۔ فلاں کے بھانجے ہیں۔ اور اب یہ زمانہ آ گیا ہے کہ فلاں کے باپ ہیں اور فلاں کے ماموں! اور ابھی کیا گیا ہے۔ عمر رسیدہ پیش رو زبان حال سے کہہ رہے ہیں کہ اس کے آگے مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں۔
پیشہ: گو کہ یونیورسٹی کے امتحانوں میں اول آیا، لیکن اسکول میں حساب سے کوئی طبعی مناسبت نہ تھی۔ اورحساب میں فیل ہونے کو ایک عرصے تک اپنے مسلمان ہونے کی کی آسمانی دلیل سمجھتارہا۔
اب وہی ذریعہ معاش ہے! حساب کتاب میں اصولاً دو اور دو چار کا قائل ہوں، مگر تاجروں کی دل سے عزت کرتا ہوں کہ وہ بڑی خوش اسلوبی سے دو اور دو کو پانچ کر لیتے ہیں۔
پہچان: قد: پانچ فٹ ساڑھے چھ انچ (جوتے پہن کر)
وزن: اوور کوٹ پہن کر بھی دبلا دکھائی دیتا ہوں۔ عرصے سے مثالی صحت رکھتا ہوں۔ اس لحاظ سے کہ جب لوگوں کو کراچی کی آب و ہوا کو برا ثابت کرنا مقصود ہو تو اتمام حجت کے لیے میری مثال دیتے ہیں۔
جسامت: یوں سانس روک لوں تو ۳۸ انچ کا بنیان بھی پہن سکتا ہوں۔ بڑے بڑے لڑکے کے جوتے کا نمبر ۷ ہے جو میرے بھی فٹ آتا ہے۔
حلیہ: اپنے آپ پر پڑا ہوں۔
پیشانی اور سر کی حد فاصل اڑ چکی ہے۔ لہذا منہ دھوتے وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کہاں سے شروع کروں۔ ناک میں بذاتہ قطعی نقص نہیں ہے۔ مگر بعض دوستوں کا خیال ہے کہ بہت چھوٹے چہرے پر لگی ہوئی ہے۔
پسند: غالب، ہاکس بے، بھنڈی۔
پھولوں میں، رنگ کے لحاظ سے، سفید گلاب اور خوشبوؤں میں نئے کرنسی نوٹ کی خوشبو بہت مرغوب ہے۔ میرا خیال ہے کہ سبر سبز تازہ تازہ اور کرارے کرنسی نوٹوں کا عطر نکال کر ملازمت پیشہ حضرات اور ان کی بیویوں کو مہینے کی آخری تاریخوں میں سنگھایا جائے تو گرہستی زندگی جنت کا نمونہ بن جائے۔
پالتو جانوروں میں کتوں سے پیار ہے۔ پہلا کتا چوکیداری کے لیے پالا تھا۔ اسے کوئی چرا کر لے گیا۔ اب محض بربنائے وضع داری پالتا ہوں کہ انسان کتے کا بہترین رفیق ہے۔ بعض تنگ نظر اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کتوں سے بلا وجہ چڑتے ہیں۔ حالانکہ اس کی ایک نہایت معقول وجہ موجود ہے۔ مسلمان ہمیشہ سے ایک عملی قوم رہے ہیں۔ اور وہ کسی ایسے جانور کو محبت سے نہیں پالتے جسے ذبح کر کے کھا نہ سکیں۔
گانے سے بھی عشق ہے۔ اسی وجہ سے ریڈیو نہیں سنتا۔
چڑ: جذباتی مرد، غیر جذباتی عورتیں، مٹھاس، شطرنج۔
مشاغل: فوٹو گرافی، لکھنا پڑھنا۔
تصانیف: چند تصویر بتاں، چند مضامین و خطوط۔
کیوں لکھتا ہوں: ڈزریلی نے اس کے جواب میں کہا تھا کہ جب میراجی عمدہ تحریر پڑھنے کو چاہتا ہے تو ایک کتاب لکھ ڈالتا ہوں۔ رہا یہ سوال کہ یہ کھٹ مٹھے مضامین طنزیہ ہیں یا مزاحیہ یا اس سے بھی ایک قدم آگے۔ یعنی صرف مضامین، تو یہاں اتنا عرض کرنے پر اکتفا کروں گا کہ وار ذرا اوچھا پڑے، یابس ایک روایتی آنچ کی کسر رہ جائے تو لوگ اسے بالعموم طنزسے تعبیر کرتے ہیں، ورنہ مزاح۔
ہاتھ آئے تو بت، ہاتھ نہ آئے تو خدا ہے
اور یہاں یہ صورت ہو تو خام فن کار کے لیے طنز ایک مقدس جھنجلاہٹ کا اظہار بن کر رہ جاتا ہے اور چنانچہ ہر وہ لکھنے والا جو سماجی اور معاشی ناہمواریوں کو دیکھتے ہی دماغی باوٹے میں مبتلا اور کہلانے کا سزا وار سمجھتا ہے۔ لیکن سادہ و پرکار طنز ہے بڑی جان جوکھوں کا کام۔ بڑے بڑوں کے جی چھوٹ جاتے ہیں۔ اچھے طنز نگار تنے ہوئے رسے پر اترا اترا کر کرتب نہیں دکھاتے بلکہ
رقص یہ لوگ کیا کرتے ہیں تلواروں پر
اور اگر ژاں پال سارترکی مانند”دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بیباک” ہو تو جنم جنم کی یہ جھنجلاہٹ آخر کار ہر بڑی چیز کو چھوٹی کر کے دکھانے کا ہنر بن جاتی ہے۔ لیکن یہی زہر غم جب رگ و پے میں سرایت کر کے لہو کو کچھ اور تیز و تند و توانا کر دے تو نس نس سے مزاح کے شرارے پھوٹنے لگتے ہیں۔ عمل مزاح اپنے لہو کی آگ میں تپ کر نکھرنے کا نام ہے۔ لکڑی جل کر کوئلہ بن جاتی ہے۔ اور کوئلہ راکھ۔ لیکن اگر کوئلے کے اندر کی آگ باہر کی آگ سے تیز ہو تو پھر وہ راکھ نہیں بنتا، ہیرا بن جاتا ہے۔
مجھے احساس ہے کہ ننھے سے چراغ سے کوئی الاو بھڑک سکا اور نہ کوئی چتا دہکی۔
میں تو اتنا جانتا ہوں کہ اپنی چاک دامنی پر جب اور جہاں ہنسنے کو جی چاہا ہنس دیا۔ اور اب اگر آپ کو بھی اس ہنسی میں شامل کر لیا تو اس کو اپنی خوش قسمتی تصور کروں گا۔ میرا یہ دعویٰ نہیں کہ ہنسنے سے سفید بال کالے ہو جاتے ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ پھر اتنے برے نہیں معلوم ہوتے۔ بالفعل، اس سے بھی غرض نہیں کہ اس خندہ مکرّر سے میرے سوا کسی اور کی اصلاح بھی ہوتی ہے یا نہیں۔ ہنسنے کی آزادی فی نفسہ تقریر کی آزادی سے کہیں زیادہ مقدم و مقدس ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ جو قوم اپنے آپ پر جی کھول کر ہنس سکتی ہے وہ کبھی غلام نہیں ہو سکتی۔
یقین کیجئے، اس سے اپنے علاوہ کسی اور کی اصلاح و فہمائش مقصود ہو تو رو سیاہ۔ کارلائل نے دوسروں کی اصلاح سے غلو رکھنے والوں کو بہت اچھی نصیحت کی تھی کہ "بڑا کام یہ ہے کہ آدمی اپنی ہی اصلاح کر لے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ دنیاسے کم از کم ایک بدمعاش تو کم ہوا۔” میری رائے میں (جو ضروری نہیں کہ ناقص ہی ہو) جس شخص کو پہلا پتھر پھینکتے وقت اپنا سر یاد نہیں رہتا، اسے دوسروں پر پتھر پھینکنے کا حق نہیں۔
مخدومی مکرمی جناب شاہد احمد دہلوی کا تہہ دل سے سپاس گزار ہوں کہ انھوں نے یہ مضامین، جو اس سے پہلے مختلف رسائل میں شائع ہو چکے تھے، پڑھوا کر بکمال توجہ سنے۔ اور نہ صرف اپنی گمبھیر چپ سے کمزور حصوں کی نشاندہی کی، بلکہ جو لطیفے بطور خاص پسند آئے ان پر گھر جا کر بہ نظر حوصلہ افزائی ہنسے بھی۔ اگراس کے باوجود وہ زبان و بیان کی لغزشوں سے پاک نہیں ہوئے (اشارہ مضامین کی طرف ہے) تو اس میں ان کا قصور نہیں۔ یوں بھی میں قبلہ شاہد احمد صاحب کی با وقارسنجیدگی کا اس درجہ احترام کرتا ہوں کہ جب وہ اپنا لطیفہ سنا چکتے ہیں تو احتراماً نہیں ہنستا۔ لیکن ایک دن یہ دیکھ کر میرا ایک مضمون پڑھ کے "الٹی ہنسی” (جس میں، بقول ان کے، آواز حلق سے باہر نکلنے کی بجائے الٹی اندر جاتی ہے) ہنس رہے ہیں، میں خوشی سے پھولا نہ سمایا۔
پوچھا: "دلچسپ ہے؟”
فرمایا: "جی! تذکیر و تانیث پرہنس رہا ہوں!”
پھر کہنے لگے: "حضرت! آپ پنگ پانگ کو مونث اور فٹ بال کو مذکر لکھتے ہیں!”
میں نے کھسیانے ہو کر جھٹ اپنی پنسل سے فٹ بال کو مونث اور پنگ پانگ کو مذکر بنا دیا تو منہ پھیر پھیر کر "سیدھی” ہنسی ہنسنے لگے۔
دوستوں کا حساب گو دل میں ہوتا ہے، لیکن رسماً بھی اپنی اہلیہ ادریس فاطمہ کا شکریہ ضروری ہے کہ
"خطا” شناس من است و منم زباں و دانش
ان مضامین میں جو غلطیاں آپ کو نظر آئیں، اور وہ جواب بھی نظر آ رہی ہیں، ان کا سہرا بالترتیب ان کے اور میرے سر ہے۔ اس سے پہلے وہ میرے مطبوعہ مضامین میں کتابت کی غلطیاں کچھ اس انداز سے نکالتی تھیں گویا لیتھو میں نے ہی ایجاد کیا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ اس کتاب کو آفسیٹ پر چھپوانے میں مکتبہ جدید کی ترغیب و تحریص سے زیادہ ان کے طعن و تعریض کو دخل ہے۔ رخصت ہونے قبل مرزا عبد الودود بیگ کا تعارف کراتا جاؤں۔ یہ میرا ہمزاد ہے۔ دعا ہے خدا اس کی عمر و اقبال میں ترقی دے۔
کراچی
۵ فروری ۱۹۶۱ء مشتاق احمدیوسفی
پس لفظ: ان مضامین اور خاکوں کو پڑھ کر اگر کوئی صاحب نہ مسکرائیں تو ان کے حق میں یہ فال نیک ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ خود مزاح نگار ہیں۔
٭٭٭