نظر پڑے تو غزل کے مزاج دانوں کی
ہمارے شعر امانت ہیں آسمانوں کی
ہوا چلے نہ چلے لوگ انتظار میں ہیں
کھلی ہوئی ہیں ابھی کھڑکیاں مکانوں کی
ترے خلوص کو اب کیا کروں کنارے پر
سمندروں میں ضرورت تھی بادبانوں کی
ہزار زخم پرانے ہزار زخم نئے
مرے بدن پہ نظر تھی کئی زمانوں کی
پھر اس کے بعد قصیدہ بہار کا لکھنا
اٹھا کے راکھ تو پھینک آؤ آشیانوں کی
زمین پاؤں کی زنجیر بن نہیں سکتی
تھکن مٹے تو وہی رت ہے پھر اڑانوں کی
ہمارے گھر کے اجالے کہاں گئے قیصرؔ
سسک رہی ہیں لویں اب بھی شمع دانوں کی
قیصرالجعفری