رکھتی ہے ہتھیلی پہ وہ اک دیپ جلاکر
تکتی ہے مر ا راستہ آنکھوں کو بچھاکر
پل میں ہوئے مسمار وہ دیوار کی صورت
رکھّے تھے کئی خواب جو آنکھوں میں سجاکر
حسرت ہے سجاؤ ں تمہیں ہاتھوں سے میں اپنے
دیکھوں گا کسی روز دلہن تم کو بناکر
وہ لوٹ کہ آتے ہوئے رستہ نہیں بھولے
رکھتا ہوں سرِ طاق چراغوں کو جلاکر
اُس شخص سے میں نے تو وفا کی بھی نہیں تھی
رکھتا ہے مجھے آج بھی پلکوں پہ بٹھاکر
اس دردِ محبت کو جد ا خود سے کروں کیوں
پالا ہے اسے خونِ جگر اپنا پلاکر
اُس شخص کی آنکھوں میں محبت نہیں دیکھی
پایا ہے جسے اپنا سبھی کچھ ہی لٹاکر
بن کر بھی دلہن غیر کی تکتی رہی مجھ کو
پلکوں کو گرا کر ، کبھی پلکوں کو اُٹھا کر
آنسوں کی طرح سوز ؔ نے رکھّا ہے مجھے ساتھ
نظروں میں بساکر ، کبھی نظروں سے گراکر
محمد علی سوزؔ