تار تار پیرہن میں بھر گئی ہے بوئے دوست
مثلِ تصویرِ نہالی میں ہوں، ہم پہلوئے دوست
ہجر کی شب ہوچکی روزِ قیامت سے دراز
دوش سے نیچے نہیں اُترے ابھی گیسوئے دوست
فرشِ گُل بستر تھا اپنا، خاک پر سوتے ہیں اب
خشت زیرِ سر نہیں، یا تکیہ تھا زانوئے دوست
یاد کرکے اپنی بربادی کو، رو دیتے ہیں ہم
جب اُڑاتی ہے ہوائے تُند خاکِ کوئے دوست
اس بلائے جاں سے آتشؔ! دیکھیے کیوں کر نبھے
دل سِوا شیشے سے نازُک،دل سے نازُک خوئے دوست
حیدر علی آتش