جب سہولت نہیں ہے جینے کی
کیوں ریاست کہوں مدینے کی
صبر صابر کو راس آئے اگر
راکھ پھیلے نہ بغض , کینے کی
آدھے راشن پہ ختم ہوتی ہے
سب کمائی لہو پسینے کی
خود کی تشہیر تک رہا محدود
یہ بھی عادت تھی اس کمینے کی
حاکمِ وقت سن مرا گریہ
دیکھ حالت بھی سرخ سینے کی
اپنے بچوں کو ہم سنائیں گے
داستاں ڈوبتے سفینے کی
صرف دل کی بھڑاس ہی نہ سمجھ
کچھ سمجھ بات بھی قرینے کی
صبح کے آئنے پہ کھل نہ سکی
کیا بلندی ہے شب کے زینے کی
راستہ کھولتی ہے نظموں کا
جب مہکتی ہے مٹی دینے کی
بس طریقِ حصول کھلتا نہیں
کب کمی ہے کسی خزینے کی
گھر میں کھانا اگر میسر ہو
کیا ضرورت ہے زہر پینے کی
ارشاد نیازی