ڈارون کا یہ نظریہ”دنیا کی تخلیق حادثاتی ہے،اور انسان کا ارتقاء بندر سے ہے“گذشتہ 150 سال تک اس دنیا میں قائم رہا، ڈارون نے 1859 ء میں یہ نظریہ پیش کیا تھا، جسے غیر معمولی شہرت اور پذیرائی حاصل ہوئی تھی، اس نظریہ کو شہرت اس کے مرکزی مفہوم کے تئیں ملی، سائنسی طور پر اس نظریہ کی کوئی بنیا د نہ تھی، مادیاتی لحا ظ سے یہ نظریہ مقبول عام ہوا، مادہ پرست نظریہ کے خالق کارل مارکس نے چالس ڈارون کے اس نظریہ کو خراج تحسین پیش کیا، موجودہ سائنس ڈارون کے وقت ابتدا ئی مراحل میں تھی، سائنس نے اپنی تحقیق جاری رکھی، تاکہ انسانی ارتقاء کا بخوبی پتہ چل سکے، جدید سائنس نے زمین سے برآمد مختلف فوسل (Fossil) قدیم انسانی ہڈیوں، پتھروں اور دیگر معدنیات کے تجزیہ کے بعد 2007 ء میں ڈارون کے مذکورہ نظریہ کو مسترد کردیا،
ڈارون کا نظریہ ء ارتقاء سے خواہ کلیسائی دنیا کو ضرب کاری لگی ہو اور اس کی طرف سے اس نظریہ کی شدید مخالفت کی گئی ہو، تاہم عمومی طور پر یوروپی عوام میں اس نظریہ سے غیر معمو لی خوشی پیدا ہوئی، اس وقت یورپ کا سائنسی سفر علاقہ اور وقت کے حصار تک محدود تھا، مادی فلسفہ یورپ کا جادو بن گیا تھا، ساری دنیا پر یورپ کا سحر طاری تھا، ایشیاء اور آفریقہ میں اس کی کالونیاں قائم ہوچکی تھیں، اسٹیم پاور (Power Steam)کی ایجاد سے صنعتی انقلاب اور آمد ورفت کے تیز ترین وسائل سے یورپ کا نسلی غرور بام عروج پر پہنچ گیا تھا،ایسے ترقیا تی ماحول میں ڈارون کا نظریہء ارتقاء ان کے نسلی غرور کے لئے فالِ نیک ثابت ہوا، اور نظریاتی کشمکش میں فطری نظریہ کو یورپی محققین نے خوش دلی سے قبول کیا، ایک طرف ہر برٹ اسپنسر اورٹی ایچ ہکسلے جیسے نسل پرست دانشوروں نے اس نظریہ کو حیوانی دنیاسے آگے منتقل کرکے سماجی علوم کے حلقے میں انسانی تہذیب کے روپ میں متعارف کیا، کارل مارکس اور اینجلس نے اسے جسمانی محنت ومشقت، مادہ پرستی اور طبقاتی کشمکش کے فروع کیلئے استعمال کیا۔
جس سال ڈارون (Charles Darwin) کی اور جن آف اسپیسز (The Origin of Species) نامی کتاب شائع ہوئی، اسی سال کارل مارکس (Karl Marx) کی کریٹک آف پا لٹیکل اکانو می (The Critique of political Economy) نامی کتاب بھی منظرِ عام پر آئی، ڈارون کی مذکورہ کتاب کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد مارکس نے 19 دسمبر 1860ء کو اینجلس (Engels – 1820- 1895) کو خط لکھا کہ یہ کتاب میرے ذاتی نظریات کے لئے فطری تاریخ کی نشاندہی کرتی اور مستقبل کیلئے اہم پیش گوئی کا درجہ رکھتی ہے،
کارل مارکس نے 16 جنوری 1861ء کو اپنے ایک دوست ایف لاس سیل کو لکھا کہ ڈارون کی کتاب اہم ترین کتاب ہے جوکہ قدرتی اور تاریخی لحاظ سے سائنسی بنیاد پر طبقاتی کشمکش کے نظریہ کی تفہیم کے لئے مجھے ایک کار آمدکتاب محسوس ہوئی، 1871ء میں جب دی ڈی سینٹ آف مین (Descent of man) نامی کتاب شائع ہوئی تو اس کی بنیاد پر اینجلس نے ایک مضمون لکھا، جس کا
2
عنوان تھا، بندر کے انسان بننے میں محنت کا نتیجہ۔
مارکس پر ڈارون کے نظریہء ارتقاء کا اتنا زیادہ اثر ہوا کہ اس نے اپنی بیحد مشہور کتاب داس کیپٹل (Das kapital) کے ایک باب کو ڈارون کے نام انتساب کرنا چاہا، تاہم ڈارون نے 13اکتوبر1880ء کو اپنے ایک خط کے ذریعے اس انتساب کو نامنظور کردیا، کیونکہ اسے مارکس کی مذکورہ کتاب کے موضوع کا کوئی علم نہ تھا، ایسا قطعاً نہیں کہ مارکس کو ڈارون کے عزائم پر مبنی سیاسی سر زمین کی واقفیت نہ تھی، مارکس نے 15 فروری 1869 ء میں اپنی ایک لڑکی لارا اور اس کے شوہر”لاکا نے“کے نام لکھے خطوط میں اظہار کیا تھا کہ واقعی اس وقت انگریز معاشرہ پر اشتراکیت کی سنگین دیوانگی طاری ہے، اور اسی نے ڈارون کو حیوانات ونباتات کے قدرتی تنوع پر تجربات کا موقع فراہم کیا ہے، مارکس نے مزید لکھا تھا کہ اس عظیم سائنٹفک نظریہ کا ڈارون ازم سے منسلک لوگوں نے بیجا استعمال کیا، ایک امریکی نژاد سائنس داں لیوس ہیزی مارگن نے 1877ء میں نظریہء ارتقاء پر اپنا مشہور انشائیہ انشینٹ سوسائٹی (معاشرہئ قدیم) شائع کیا، جس میں اس نے انسان کے ارتقائی سفر کو سفاک دور سے عدل پسند دور کی طرف منتقلی قرار دیا، اور اس کے چار مراحل ذکر کئے، مارکس اینجلس نے اس کتاب کی بیحد تعریف کی، اور اسی کو بنیاد بنا کر اس نے 1884ء میں اپنی مشہور کتاب,, خاندان، دولت اور ریاست کا وجودلکھ کر شائع کی،تا ہم ایک نا تمام اور غیر سائنسی نظریہ پر قائم محل کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے ؟ اس کا مشاہدہ سوویت یونین اور ماؤ کے چین میں مارکسزم کے صدیوں تک جاری نظریہ کی صورت میں ہوچکا ہے، مغرب کا سائنسی سفر بھی 19 ویں صدی کے مادی حدود کو عبور کرتا ہوا بہت آگے جا چکا ہے، شروڈینگر، ردرفورڈ، جیمس جنس، فریڈ ہویل، ڈیوڈبوم ،فٹجونف کا پرا وغیرہ متعدد سائنسدان ملک اور زمانہ سے بے نیاز ہوکر عالمی حاکمیت کی بات کرتے رہے، ہندوستان کے مشہور سائنسدان جگدیش چندر بسونے سائنس آف دی اسٹر کچر آف پلانٹس اور معدنی اشیاء میں حِسّ (Sense) کے وجود کو نسلی بنیاد پر اپنے تجربات کے ذریعے عملی طور پر دکھایا تھا،
عہد قدیم میں ایک ہندوستانی خاتون منیشانے ذی روح دنیا کی مختلف چیزوں کی نشاندہی کے لئے 33 اقسام کے نر اور مادہ کی بات پیش کی تھی،پیدائشی بنیاد پر اس نے ذی روح کو چار حصوں میں تقسیم کیا تھا، اول: انڈے سے پیدا ہونے والے ۲ : بچہ دانی سے پیدا ہونے والے ۳: زیر زمین پیدا ہونے والے ۴: اور زمین پر پیدا ہونے والے(پودے)
ذی روح کی یہ چاروں نسلیں اہم اور قوی ہیں جوکہ ہمیشہ اپنے حال پر بر قرار رہیں گی (یعنی ہمیشہ اپنے ابتدائی مادے کے عین مطابق رہیں گی) ان میں کبھی تبدیلی نہیں آئے گی، اس سے ڈارون کے اس نظریہ کا قلع قمع ہوجاتاہے کہ تمام ذی روح حتٰی کہ نباتات کا وجود کسی ایک ذی روح سے ہوا ہے، اور ایک ہی ماں باپ سے پیدا شدہ اولاد میں اوصاف، صلاحیت اور فہم و فراست کے غیر معمولی فرق
کا کوئی حل ڈارون کے نظریہ ء ارتقاء میں موجود نہیں ہے،
مختصر طور پر یوں کہا جاسکتا ہے کہ ڈارون کے نظریہء ارتقاء کا وجود انیسویں صدی کے یوروپی کبر وغرور اور ان ڈیڑھ سوسالوں میں سائنسی ترقی اور انسانی نسل پر تجربات کی روشنی میں انسان اور اسکی پیدائش کا نظریہ ناقص معلومات پر مبنی ہے،اور حیرت ہے کہ مارکس اور
3
اینجلس جیسے سماجی ماہرین ایک غیر سائنسی نظریہ کے فریب میں آگئے، مادہ پرستی کے نظریہ کے خالق کارل مارکس نے ڈارون کے نظریہء ارتقاء کو خراج تحسین پیش کیاتھا، حالانکہ چا رلس ڈارون کے پاس نظریہء ارتقاء کے لئے کوئی سائنسی ثبوت موجود نہ تھا، جس کی بنیاد پر وہ اپنے نظریہء ارتقاء کو تقویت فراہم کرتے،ارتقائے حیات انسانی کے طبیعی اور کیمیائی تجزیاتی مراحل کے بعد % 86 فیصد رائے عامہ نے ڈارون کے نظریہ کو ناقابل قبول قرار دیا، اور 150 سال تک اس دنیا میں قائم یہ نظریہ جدید سائنسی تحقیقات کی روشنی میں کالعدم ہوگیا، سائنس نے گذشتہ ڈیڑھ سوسال میں کچھ اس طرح ترقی کی ہے کہ ماضی کے سائنسدانوں کی غلطیاں آشکار ہوگئی ہیں، اور نظریہء ارتقاء کے بالمقابل یہ نظریہ سچ ثابت ہوا کہ انسان بہترین ساخت میں پیدا کیا گیا ہے، یعنی انسان تمام حیوانات سے بالکل منفرد پیدا ہوا ہے،
سائنس کے پاس ابھی تک کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جو یہ طے کرسکے کہ انسان بندر کی بدلی ہوئی ارتقائی شکل ہے، بیسویں صدی کے ساتویں عشرے میں ڈارون نے ایک نظریہ پیش کیا تھا کہ انسان کا ارتقائی سفر کس طرح ہوا، اس نے انسان کو بندر کی بدلی ہوئی ارتقاء پذیر شکل قرار دیاتھا، حالانکہ زمانہ قبل از تاریخ سے متعلق مقامات پر کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ اس زمانے میں بھی اسی طرح کے انسان تھے، جس طرح آج ہیں، پوری انسانی تاریخ میں انسان کے بندر سے ارتقاء پذیر ہونے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں ہوا،سائنسدانوں کو ابھی تک نہیں معلوم ہوا کہ شعور کیا ہے؟ اور کس طرح کام کرتاہے، شعور ایک ایسی خصوصیت ہے جوکہ جنیز کے ذریعے نسل در نسل انسانوں میں منتقل ہوتا ہے، سب سے حیران کن عضو انسانی دماغ ہے، یہ سب سے اہم عضو ہے، سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ عضو ہی وہ خصوصیت ہے جو انسان کو حیوان سے ممتاز کرتی ہے، تقریبا دو لاکھ سا ل اس کرہء ارض پر گذارنے کے بعد انسان نے کافی کچھ جان لیا ہے، سائنس کی اس قدر غیر معمولی ترقی کے باوجود ہنوز انسان کے جسم کے بارے میں تمام حقائق کا علم نہیں ہوسکا ہے، بعض ایسے سادہ سے سوالات ہیں جن کے ٹھوس جوابات ابھی تک معلوم نہیں ہوئے، ان سوالوں کے بارے میں صرف اندازے، قیاسات،اور مفروضے ہیں، سوالات کے جوابات آج بھی تشنہ ہیں،
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ1859 ء میں جب ڈارون نے نظریہء ارتقاء (The ory of evol ition) پیش کیا تھا، اس وقت برطانیہ میں ہندوستان کی عظیم تحریک انقلاب (عذر 1857ء) کو بربریت پر شرافت کی فتح قرار دیا جارہا تھا، اور مقبوضہ ہندوستان انتقام کی آگ میں جل رہا تھا، جس طرح ڈارون کے نظریہء ارتقاء کا احتساب کیا گیا، آج ضرورت ہے کہ اس بربریت کا بھی احتساب کیا جائے،
ظفر سعیدی ؔ حیدرآباد