عمر بھر درد کا جو بارِ گراں ڈالتے ہیں
بعد مرنے کے بہت آہ و فغاں ڈالتے ہیں
کون اُٹھا کبھی قسمت پہ بھروسہ کر کے
مردہ تن میں یہ ارادے ہیں جو جاں ڈالتے ہیں
ضعف بازو ہی کا ہوتا ہے جو لڑتے لڑتے
جنگ جُو تیغ و تبر، تیر و کماں ڈالتے ہیں
تیری جنت میں جو رتھ فاؤ نہیں ہے مولا
پاک روحوں کو فرشتے یہ کہاں ڈالتے ہیں
کون نکلا ہے سرابوں سے تیقن لے کر
دشت سوچوں میں مسافر کی گماں ڈالتے ہیں
ایسی بستی کے ہے لوگوں میں ٹھکانہ میرا
چاہِ خس پوش میں محسن کو جہاں ڈالتے ہیں
ہائے اُٹھ جاتے ہیں کیوں لوگ محبت والے
خط کی سطروں میں جو شوقِ دل و جاں ڈالتے ہیں
اکرم کنجاہی