حسابِ ترکِ تعلق تمام میں نے کیا
شروع اس نے کیا اختتام میں نے کیا
مجھے بھی ترکِ محبت پہ حیرتیں ہی رہیں
جو کام میرا نہیں تھا، وہ کام میں نے کیا
وہ چاہتا تھا کہ دیکھے مجھے بکھرتے ہوئے
سو اس کا جشن بصد اہتمام میں نے کیا
بہت دنوں مرے چہرے پہ کر چیاں سی رہیں
شکست ذات کو آئینہ فام میں نے کیا
بہت دنوں میں مرے گھر کی خامشی ٹوٹی
خود اپنے آپ سے اک دن کلام میں نے کیا
خدائے ضبط نے موسم پہ قدرتیں بخشیں
غبارِ تند کو آہستہ گام میں نے کیا
اس ایک ہجر نے ملوا دیا وصال سے بھی
کہ تو گیا تو محبت کو عام میں نے کیا
مزاجِ غم نے بہر طور مشغلے ڈھونڈے
کہ دل دکھا تو کوئی کام وام میں نے کیا
چلی جو سیلِ رواں پر وہ کاغذی کشتی
تو اس سفر کو محبت کے نام میں نے کیا
وہ آفتاب جو دل میں دہک رہا تھا سعود
اسے سپردِ شفق آج شام میں نے کیا
سعود عثمانی