کب تک تیری بات سنے گا کب تک جی بہلائے گا
ڈاکٹر اسد نقوی کی ایک اردو غزل
کب تک تیری بات سنے گا کب تک جی بہلائے گا
شاخ پہ بیٹھا ایک پکهیرو آخر کو اڑ جائے گا
چهٹی کی درخواست پہ میں نے بس اتنا تحریر کیا
ساری رات کا جاگا عاشق کام پہ کیسے آئے گا
نخوت لہجے میں در آئی چہرا سرخ عنابی ہے
ہم نے اس سے پیار کیا ہے صاف نظر آ جائے گا
مانا کہ ناراض ہے لیکن جب میں ملنے جاؤں گا
دور سے آتا دیکھ کے مجھ کو دهیمے سے مسکائے گا
دل کے آنگن میں خوشیوں کے چاہے جتنے پهول کھلیں
بوٹا مہر محبت والا ہی جیون مہکائے گا
ڈاکٹر اسد نقوی