اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے

میر تقی میر کی ایک غزل

کہاں یاد قیس اب جو دنیا کرے ہے
کبھو قدرداں عشق پیدا کرے ہے

یہ طفلان بازار جی کے ہیں گاہک
وہی جانتا ہے جو سودا کرے ہے

چھپائیں ہوں آنکھیں ہی ان نے تو کہیے
وہ ہر بات کا ہم سے پردہ کرے ہے

جو رونا ہے راتوں کو اپنا یہی تو
کنارہ کوئی دن میں دریا کرے ہے

ٹھسک اس کے چلنے کی دیکھو تو جانو
قیامت ہی ہر گام برپا کرے ہے

مریں شوق پروازگلشن میں کیوں نہ
اسیروں کی یاں کون پروا کرے ہے

بنی صورتیں کیسی کیسی بگاڑیں
سمجھتے نہیں ہم فلک کیا کرے ہے

خط افشاں کیا خون دل سے تو بولا
بہت اب تو رنگین انشا کرے ہے

ہلاک آپ کو میر مت کر دوانے
کوئی ذی شعور آہ ایسا کرے ہے

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button