کسان کی بیٹی(کی شادی)
جوان شیشم کے جھنڈ پہ
نوجوان سورج نے رنگ پھینکا
تو باپ نے جلدی جلدی
اپنے سفید کرتے، سفید تہمد کو تن کیا
پھر سفید دستار سر پہ رکھی
عنابی کھسے میں پاؤں گھٹنے لگے تو اس نے
چھلی ہوئی ایڑیوں کے پیچھے کپاس رکھ لی
پھر ایڑیوں کو اٹھا کے اس نے
ہر ایک جانب بیاہ کا انتظام دیکھا
براتیوں کے لئے
احاطے میں شامیانے لگے ہوئے تھے
مویشی کچھ دور
نیم کے پیڑ سے بندھے تھے
اور ان کی گردن میں میلے پیتل کی گھنٹیاں
ڈوریوں میں لٹکے ضحیم پھندنوں میں چھپ گئی تھیں
تمام اپلے جو کچی دیوار پر لگے تھے
تکون کاغذ کی جھنڈیوں نے چھپا دیے تھے
گھنے درختوں کی چھاؤں میں
چارپائیاں ہر طرف بچھی تھیں
ہر اک سرہانے پہ اصلی مالک کا نام
خوشخط لکھا ہوا تھا
تمام حقوں کی چلمیں انگار سے بھری تھیں
اور ان کی تہ میں
ڈلی ڈلی گڑ پگھل رہا تھا
برات آئی
دلہن کے بھائی نے
جس کی دونوں ہتھیلیاں ، رات شامیانے کے گرد
چونے سے حاشیہ کھینچتے ہوئے چیر کھا گئی تھیں
بڑی ہی اپنائیت سے
سہرے سمیت دولہا گلے لگایا
پھر ایک رنگین پایوں والی
کسے ہوئے مونج سے بنی چارپائی کھینچی
اور اس پہ بہنوئی کو بٹھایا
تمام رسموں کے بعد
دلہن کے باپ نے اپنے پچھلے سالوں کی
ساری فصلوں کو پیٹیوں میں
بڑی رعونت کے ساتھ بھر کے
سجی ہوئی ایک بیل گاڑی میں رکھ دیا
اور جو بچ گیا
اس سے اپنی بیٹی کے ہاتھ ، کانوں، کلائیوں
اور جوان ماتھے کو ڈھک دیا
جب برات چلنے لگی
تو جذبے چٹخ گئے
ماں نے اپنی بیٹی کو سسکیوں میں لپیٹ کے
اپنے بوڑھے تن سے جدا کیا
تو لرزکے چرخے کے ساتھ ٹکرائی
جس کے تکلے کی نوک پہ
وہ خموش راتوں میں
اپنی بیٹی کے واسطے سوت کاتتی تھی
ذرا سنبھل کے
جب اس نے چکی کی مٹھی پکڑی
تو اس کے پائوں کے نیچے دھرتی کا پاٹ گھوما
دلہن کا باپ
اپنی وضع داری کی اوٹ میں
دور اک اندھیرے برآمدے میں چلا گیا
اور ایک کچے ستون پہ ہاتھ رکھ کے
پتھر کا ہوگیا
’’آج میرے گھر سے کپاس جاتی ہے
جس کے ٹنڈے پھٹے ہوئے ہیں
اور ان میں چاندی لٹک رہی ہے
مری مکئی کہار لے جارہے ہیں
جس کے گداز سٹوں کے بال
جھونکوں میں جھولتے تھے
وہ دھان میرا!
کہ جس کی پنڈلی سے پانی نیچے نہیں اترتا تھا
آج ڈولی کے خشک گودام میں دھرا ہے‘‘
وہ سوچ میں تھا
اور اس کا بوڑھا سر یر تھر تھر لرزرہا تھا
سفید کرتے کی جیب میں
چند موٹے سکوں کی ریزگاری جھنک رہی تھی
جو باپ کو یوں نڈھال دیکھا
تو ا س کے کڑیل جوان بیٹے نے
اپنی بانہوں میں لے لیا
باپ نے بڑی بے بسی سے اک سرد آہ کھینچی
اور اپنے بیٹے کی سرخ آنکھوں سے بہہ گیا
وحید احمد