دل کی محفل میں بٹھا کر کبھی نزدیک سے دیکھ
دیکھنا ہے تو مری جان مجھے ٹھیک سے دیکھ
مجھ سے کچھ دور نہیں کوزہ گری خوابوں کی
میری بے خواب سی آنکھیں ذرا نزدیک سے دیکھ
اس سے پہلے کہ ہمیں وقت جدا کر ڈالے
میں ترے سامنے بیٹھا ہوں مجھے ٹھیک سے دیکھ
یہ مری ذات کے پہلو بھی ہیں آئینے بھی
میرے احساس کے زخموں کو نہ تضحیک سے دیکھ
اس میں لرزاں ہیں کہیں تیری انا کا گوہر
اپنے کشکول کی وقعت نہ فقط بھیک سے دیکھ
جس نے طوفان اٹھایا ہے رگوں میں تیری
میں بھی مجبور ہوں دل کی اسی تحریک سے دیکھ
زندگی کم ہے تجسس کی پذیرائی کو
دل جسے دیکھنا چاہے اسے نزدیک سے دیکھ
جب بھی فرصت ہو تجھے شہرِ چراغاں سے سعید
دور نگراں ہیں دریچے کئی تاریک سے دیکھ
سعید خان