دل میں مچلتی ہے انجان خواہش
آباد بدن کی ہے ویران خواہش
چوکھٹ پہ دل کی جدائی کے وقت
کیسے کھڑی تھی وہ حیران خواہش
جاتے ہی تیرے روانہ ہوئی یہ
شاید کہ دل میں تھی مہمان خواہش
میں ہوں وہی تیری ناہید خواہش
مجھ کو کبھی تُو بھی پہچان خواہش
قسمت کا لکھا بدل جائے پھر سے
اس کا کہاں اب ہے امکان خواہش
رشتے کہاں ہیں وہ اک عمر بھر کے
ہوئی ایک پل میں ہی سنسان خواہش
ترکِ تعلق ہے ناہید مشکل
ہوتی نہیں ہے یہ آسان خواہش
ناہید ورک