- Advertisement -

آہ! محمد سلیم اختر

مجیداحمد جائی کا اردو کالم

آہ! محمد سلیم اختربھی داغ مفارقت دے گئے

زندگی کیا ہے؟ اس سوال کے جواب کی جستجو میں صدیاں گزر گئیں لیکن سوال کا جواب نہ مل سکا ۔ ہر کسی نے اپنی بساط کے مطابق اس کے جواب تلاش کیے ۔ کسی نے کچھ کہا ،کسی نے کچھ ۔ میرے نزدیک زندگی کچھ بھی نہیں صرف ایک ہوا کا جھونکا ۔ ایک خواب ،ایک راستہ ،جو منزل کی طرف پہنچاتا ہے ۔ زندگی کی حقیقت یہی ہے کے پل کا بھروسہ نہیں ۔ کب سانس کی ڈوری ٹوٹ جائے ،جو آیا ہے اُسے واپس آخر جانا ہے ۔ ہزاروں سال جی لے آخر موت ہے ۔

انسان اپنی زندگی کے مختصرسفرپر ہزاروں چہروں سے روشناس ہوتا ہے ،حالات و واقعات سے نبرد آزما ہوتا ہے ۔ یادوں اور خوابوں میں رہتا ہے ۔ آخردِلوں پہ راج کرنے والوں کے نقوش بھی وقت کی گردش میں مٹ جاتے ہیں ۔ انسانی وجود میں یہی ایک گوشہ ایسا ہے جو نرم وملائم ہے لیکن طاقت میں سپر پاور ہے ۔ یہی گوشہ مرکز کا کردار نبھاتا ہے ۔ جس کا نام دل ہے ۔ جو حساس دل رکھتا ہے وہ پیدائشی قلم کار ہوتا ہے ۔

قلم کار جیسا حساس دِل رکھنے والا دوسرا کوئی نظر نہیں آتا اس کا اندازہ مجھے باخوبی ہے ۔ میرا رشتہ بھی قلم قبیلے سے ہے ۔ اپنے اردگرد چھوٹے سے چھوٹے سے واقعے سے متاثر ہو کر صفحہ قرطاس پر بکھیرتا ہوں ۔ ہماری آنکھ ہر لمحہ مشاہدے میں رہتی ہے ۔ میرے عہد کے کئی قلم کار ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنے فکر وفن کے ذریعے،افکار و خیال کے ذریعے ،قلم وقرطاس کے ذریعے اپنا کردار نبھا رہے ہیں ۔ انہی میں ایک قلم کار ’’محمد سلیم اختر ‘‘راولپنڈی والے ،جو پچھلے دِنوں اس دُنیا سے رخصت ہوگئے ۔ جس دن سے ان کی وفات کی خبر سنی ہے دل مضطرب ہے ۔ تڑپ ہے ،بے چینی ہے ۔ آنکھوں کی سکرین پر پہلی اور آخری ملاقات کے مناظر کسی فلم کی طرح چل رہے ہیں ۔ ان سے ایک بار ہی ملاقات ہوئی اور ہزاروں بار موبائل پر بات ہوتی رہی ۔ لیکن اب یہ سلسلہ بند ہو گیا ۔ آہ !محمد سلیم اختر چلا گیا ۔

محمد سلیم اخترتیس نومبر 1940ء کو پنجاب کے ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوہ کے گاءوں جیون آباد میں پیدا ہوئے ۔ زندگی کی گاڑی نے انہیں راولپنڈی ٹھہرایا اور یہی کے ہو کر رہ گئے ۔ آپ نے بھر پور زندگی بسر کی ۔ عروج و زوال کا زمانہ دیکھا ۔ پاکستان کو معرض وجود میں آتا دیکھا ۔ اس پاک وطن کے ساتھ اپنوں نے جو سلوک کیا وہ بھی دیکھا ۔ اس کا جگر کا ٹکڑا کٹا تو تب محمد سلیم اختر کا کلیجہ بھی کٹ پھٹ گیا ۔ درد دل رکھنے والا یہ شخص اپنے درد کو صفحہ قرطاس پر بکھیرتا تو ایک شاہکار سامنے آتا ۔ اُ س نے پاکستان کے ساتھ ساتھ سفر کیا اور اس کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کیا ۔ علم و ادب کا یہ ستارہ ہر طرف روشنی پھیلاتا رہا ۔ صبح و شام ،دن رات لکھتا رہا ۔ اس کا اوڑھنا بچھونا ادب ہی تھا ۔

محمد سلیم اختر ایک لکھاری اُبھر کر سامنے آیا اورپاکستان کا شاید ہی کوئی رسالہ ،ڈائی جسٹ ایسا ہو جس میں نہ لکھا ہو ۔ میں انہیں لکھنے کی مشین ہی کہتا تھا ۔ آپ کی ہر ماہ کسی نہ کسی رسالے میں کہانی چھپی ہوتی تھی ۔ ہر طرف اُن کا طوطی بولتا تھا ۔ ایڈیٹرحضرات ان کی کہانی کا انتظار کرتے بلکہ فرمائشیں کرکرکے لکھواتے ۔ محمد سلیم اختر کا بے باک قلم کبھی بوڑھا نہیں ہوا تھا ۔ روانی کے ساتھ اپنے مشاہدے کو قلم کی زبان سے بیان کرتا ۔ آپ کا مطالعہ وسیع تھا ۔ ہر موضوع ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ۔ اُن کا قلم کسی دلیر بہادر نوجوان کی طرح رواں دواں رہتا اور کہانیاں ہی کہانیاں بُنتا چلا جاتا ۔

محمد سلیم اختر صاحب کتاب اور کتاب دوست تھے ۔ میری لائبریری کے لیے کئی بار کتب کے ضخیم تحفے ارسال کیے ۔ ’’دیا بجھنے نہ پائے‘‘2014ء میں شائع ہوئی تو پہلی فرصت میں ارسال کی ۔ ’’ دیا بُجھنے نہ پائے ‘‘ان کا پہلا اور آخری سچائیوں کے انتخاب کا مجموعہ ہے ۔ لکھنے کی مشین اور صرف ایک کتاب ،اس کے پیچھے ہزاروں سوال پنہاں ہیں ۔ اپنے ستر، اسی سالہ دور میں دوسری کتاب منظر عام پرکیوں نہ آسکی ۔ ہے ناں سوال ۔

محمد سلیم اختر نے اپنے زندگی کے قیمتی سال کاغذ اور قلم کے نام کیے اور مختلف رسالوں کے پیٹ بھرتے رہے ۔ رسالوں والوں کواتنی فرصت نہ ملی کے ان کی کہانیوں کے مجموعہ شاءع کرے دیں ۔ جس کی کہانیوں نے ان کے رسالوں کو بلندیوں تک پہنچایا انہوں نے علم و ادب کے اس ستارے کو زندگی کے آخری سال میں خاموشی کے جنگل میں دھکیل دیا ۔

محمد سلیم اختر پچھلے سال ہی عمرے کی سعادت کرکے لوٹے تھے ۔ لیکن محمد سلیم اختر چند سال سے رسالوں کی دُنیا سے کنارہ کش ہو گئے تھے ۔ رسالے والوں نے انہیں مایوس کر دیا تھا ۔ محمد سلیم اختر نے کئی شاگرد پیدا کیے ۔ ان کے قارئین کا حلقہ احباب وسیع تھا ۔ ایک مہمان نواز،ملنسار شخصیت کا مالک یوں خاموشی سے اس دُنیا سے اُٹھ گیا ۔ آہ !محمد سلیم اختراس دُنیا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا ۔ آخر ایک نہ ایک دن ہم نے بھی چلے جانا ہے ۔ دولت کے انبار کسی کام کے نہیں ،حرص اور لالچ سے نکل کر پبلشرز اور رسالوں والوں کو سوچنا چاہیے کے وہ اپنے لکھنے والوں کے ساتھ نا انصافیاں کیوں کر رہے ہیں ۔ جن کے دم خم سے ان کے دفتروں کی رونقیں ہیں ،وہ ان کے چراغ سے تیل کی آخری بوند تک بھی نچوڑ نے کی کوشش میں کیوں لگے ہیں ۔ میری گزارش ہے کے محمد سلیم اختر کے لکھے مشاہدات ،فکر وفن اور افکار وخیالات کو محفوظ کیا جائے جس سے آنے والی نسلیں استفادہ حاصل کرسکیں ۔ علم وادب کا ایک سے ایک ستارہ اٹھتا چلا جاتا ہے اور ان کے مسودے ردی کی نذر ہو رہے ہیں ۔ کہیں ایسا نہ ہو ایک علم و ادب بھی اس دھرتی سے اٹھ جائے ۔ اس سے پہلے ہ میں اس پر سنجیدہ ہو کر سوچنا اور عمل کرنا چاہیے ۔

اللہ تعالیٰ محمد سلیم اختر کو جنت الفردوس میں اعلی مقا م عطا کرے اور کروٹ کروٹ راحت نصیب ہو آمین

مجیداحمد جائی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو