خودکشی ایک پیچیدہ اور کثیرالجہتی مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں افراد، خاندانوں اور معاشروں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کا ایک شعوری عمل ہے، جو عام طور پر نفسیاتی، سماجی اور ماحولیاتی عوامل کے امتزاج کا نتیجہ ہوتا ہے۔ خودکشی کو سمجھنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر اپنانا ضروری ہے جو ان تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھے اور ذہنی صحت سے آگاہی، روک تھام کی حکمت عملیوں اور مددگار نظاموں پر زور دے۔
خودکشی کی ایک بنیادی وجہ ذہنی بیماریاں ہیں۔ ڈپریشن، اینزائٹی، بائی پولر ڈس آرڈر اور شیزوفرینیا جیسے امراض خودکشی کے خیالات اور رویوں کے خطرے کو نمایاں طور پر بڑھا سکتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 90% افراد جو خودکشی کرتے ہیں، کسی نہ کسی ذہنی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔
پرتگال میں کی گئی مختلف تحقیقات کے مطابق، خودکشی کی شرح زیادہ تر ان افراد میں دیکھی گئی ہے جو شدید نفسیاتی دباؤ میں ہوتے ہیں، خاص طور پر وہ لوگ جو کسی سانحے یا مالی بحران کا شکار ہوتے ہیں۔ لزبن کی Universidade de Lisboa کی ایک تحقیق کے مطابق، پرتگال میں خودکشی کے زیادہ تر کیسز 40 سال سے زیادہ عمر کے مردوں میں پائے گئے ہیں، جبکہ خواتین میں خودکشی کے خیالات زیادہ عام ہیں، مگر وہ اکثر مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
پولینڈ میں بھی خودکشی کا مسئلہ ایک اہم عوامی صحت کا چیلنج ہے۔ وارسا یونیورسٹی کے ایک مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ پولینڈ میں خودکشی کے زیادہ تر واقعات ماضی کی کمیونسٹ تاریخ، سماجی عدم استحکام، اور مالی مشکلات سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں پولینڈ نے ذہنی صحت سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کے لیے متعدد پروگرام متعارف کرائے ہیں، جن میں اسکولوں میں ذہنی صحت کی تعلیم اور خودکشی کی روک تھام کے لیے قومی ہیلپ لائنز شامل ہیں۔
سماجی عوامل بھی خودکشی کے خطرے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تنہائی، سماجی سپورٹ کی کمی، اور زندگی میں پیش آنے والے شدید مسائل جیسے کسی عزیز کی موت، تعلقات میں ناکامی، یا مالی مشکلات، مایوسی اور ناامیدی کے احساسات کو بڑھا سکتے ہیں۔
پرتگالی ادب میں بھی ان جذبات کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔ عظیم پرتگالی شاعر فرناندو پےسوآ (Fernando Pessoa) نے اپنی شاعری میں اندرونی کرب، تنہائی اور وجودی بحران کے موضوعات کو نہایت گہرائی سے بیان کیا ہے۔ ان کی نظموں میں ایک بے نام اداسی اور خودی کی تلاش کا عنصر نمایاں ہے۔ اسی طرح، کامیلو کاستیلو برانکو (Camilo Castelo Branco)، جو پرتگالی ادب کے اہم ناول نگاروں میں شمار ہوتے ہیں، نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں شدید ڈپریشن کے باعث خودکشی کر لی تھی۔ ان کی تحریریں ہمیں دکھاتی ہیں کہ ذہنی صحت کا مسئلہ نہ صرف عام انسانوں بلکہ عظیم فنکاروں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔
پولش ادب میں بھی خودکشی کا ذکر نمایاں طور پر ملتا ہے۔ مشہور پولش مصنف ویتولد گومبرووچ (Witold Gombrowicz) نے اپنی کہانیوں میں انسانی نفسیات کے اندھیرے گوشوں پر روشنی ڈالی ہے۔ پولینڈ کے قومی شاعر آدم مِسکیوچ (Adam Mickiewicz) کی تحریروں میں بھی انسان کے اندرونی کرب اور مایوسی کا ذکر ملتا ہے، جو خودکشی جیسے اقدامات کی طرف لے جا سکتا ہے۔
خودکشی کی روک تھام کے لیے تعلیم، مداخلت اور معاونت پر مبنی کثیر الجہتی حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ پرتگال میں، SNS (Serviço Nacional de Saúde) کے ذریعے ذہنی صحت کی سہولیات کو بہتر بنانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ، Casa de Saúde do Telhal جیسے ادارے ذہنی امراض میں مبتلا افراد کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔
بحران کے دوران فوری مدد فراہم کرنے والی خدمات، جیسے ہیلپ لائنز اور چیٹ سروسز، خطرے میں گھرے افراد کے لیے بہت اہم ہیں۔ پرتگال میں Linha Voz Amiga ایک ہیلپ لائن ہے جو خودکشی کے خیالات رکھنے والے افراد کے لیے فوری مدد فراہم کرتی ہے۔ پولینڈ میں بھی Centrum Wsparcia dla Osób w Kryzysie Psychicznym جیسی تنظیمیں ذہنی صحت کے مسائل میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، "پوسٹ وینشن” یعنی ان افراد کی مدد جو کسی قریبی شخص کی خودکشی سے متاثر ہوئے ہوں، ایک اہم حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ان کے لیے سپورٹ گروپس اور مشاورت کی فراہمی نہایت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے تجربات پر قابو پا سکیں اور اپنی زندگی کو دوبارہ سنوار سکیں۔
خودکشی ایک اہم عوامی صحت کا مسئلہ ہے جس کے لیے افراد، معاشرے اور صحت کے نظاموں کی مشترکہ کوششیں درکار ہیں۔ ذہنی صحت کی دیکھ بھال کو ترجیح دے کر، معاون ماحول تخلیق کر کے، اور خودکشی پر کھل کر گفتگو کو فروغ دے کر، ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں جہاں ہر فرد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے اور وہ خود کو سمجھا ہوا محسوس کرے۔ روک تھام کی حکمت عملیوں کو کثیر الجہتی اور جامع ہونا چاہیے تاکہ مختلف طبقات کی منفرد ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
پرتگال اور پولینڈ جیسے ممالک کی تحقیق، ثقافت اور ادب ہمیں دکھاتے ہیں کہ خودکشی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہر قوم کو اپنی سطح پر سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو مل کر ایک ایسا ماحول تخلیق کرنا ہوگا جہاں ذہنی صحت کو اولین ترجیح دی جائے اور ہر شخص کو امید اور مدد فراہم کی جا سکے۔
آخرش، "زندگی مشکلات سے بھری ہو سکتی ہے، مگر امید اور مدد ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ خودکشی کسی بھی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ ذہنی صحت پر توجہ دینا اصل راستہ ہے۔ آئیں، مل کر ایسا معاشرہ بنائیں جہاں ہر فرد کو سمجھا اور سہارا دیا جائے۔”
ڈاکٹر شاکرہ نندنی