آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزاویس خالد

ہم کب ایک قوم بنیں گے

اویس خالد کا ایک اردو کالم

 

ہم کب ایک قوم بنیں گے

قدرت انسان کو سدھرنے کے بار بار موقعے فراہم کرتی ہے۔بار بار اس کے دل پر دستک دیتی ہے۔کبھی یہ دستک انفرادی طور پر ہمارے دل پر ہوتی ہے تو کبھی مجموعی طور پرپوری قوم کے لیے بطور اصلاح ہوتی ہے۔زندگی ایک آزمایش ہے۔اس بات سے تو کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔وقت گذر جاتا ہے کردار ہمیشہ کے لیے یاد رہ جاتے ہیں۔آج بھی ہم ایک آفت میں مبتلا ہیں۔ہر قسم کی ذلت،علت اور قلت میں مبتلایہ انسان کے دل پہ ایک دستک ہے۔شایدپروردگاراس کی گمراہیوں کے آگے ایک بند باندھنا چاہتا ہے۔شاید قدرت اس آفت کے زریعے ہماری سمت کا تعین درست کرنا چاہ رہی ہے۔
ہزار باتوں کی ایک بات ہے کہ وہ پاک ذات حضرت انسان سے اپنی طرف رجوع مانگ رہی ہے۔یہ آفت بھی ایک آزمایش ہے۔گنہگاروں کی توبہ کی آزمایش۔نیکوکاروں کی عاجزی کی آزمایش،غریبوں کے صبر کی اور امیروں کے ظرف کی آزمایش۔ہمیں بحیثیت مسلمان اس آزمایش سے سرخرو ہو کر نکلنے کا سوچنا چاہیے۔
ہمارے ہاں دوسروں کی حیثیت و خدمات کو تسلیم نہ کرنے کی دیرینہ رسم ہے۔ایک طرف ہم باقی سب کے کمالات سے انحراف کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف خود اپنے آپ کو منوانے کی جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم کی خامیاں ہی دنیا والوں کے سامنے آتی ہیں اور خوبیاں ہم دبائے بیٹھے ہیں۔اور ہم ہی ہیں جو اپنی قوم کی خامیاں اچھال اچھال کرمحض اس لیے فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے مخالف کو تو زیر کیا ہے ناں۔یہ خیال ہی نہیں آتا کہ اس طرح ہم پوری قوم کی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔ مل کر اگر کسی بھی مشکل کا سامنا کیا جائے تو اس سے نپٹنا آسان ہوتاہے۔کورونا کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن چل رہا ہے،اس کی وجہ سے غریب کا چولہا بجھنے کو ہے۔لیکن دوسری طرف پروردگار کی عطا سے بہت سارے صاحب حیثیت حضرات میدان عمل میں بھی ہیں۔ سب سے بڑا اعتراض جو زبان زد و عام ہے وہ یہ کہ راشن تقسیم کرتے وقت ضرورت مند کی تصویر نہ بنائی جائے کہ اس کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔سوفیصد درست بات ہے۔ اور اس اعتراض کے بعد اس فعل بد میں خاطر خواہ کمی بھی دیکھنے میں آئی ہے۔سورۃ الرعد آیت نمبر 22 میں اور پھر سورۃ ابراہیم آیت نمبر 31 میں ارشاد پاک ہے جس میں حکم کا مفہوم ہے کہ آپ اعلانیہ اور خفیہ دونوں طرح سے نیکیاں عمل میں لائیں ۔ہاں خفیہ کا اجر بلاشبہ ذیادہ ہے۔یہ تو اپنے پروردگار سے تجارت کی مثل ہے۔
جو جیسی تجارت چاہتا ہے کر لے۔جو جہاں جتنا اجر لینا چاہتا ہے لے لے۔ اگر آپ دوسروں کو نیک کام کی ترغیب دینے کے لیے اعلانیہ مال تقسیم کر رہے ہیں تو بھی کوشش کریں کہ کم از کم مستحقین کے چہروں کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے بچا لیں کہ ان کا بھرم رہ جائے۔پیشہ ور افراد کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن عزت دار سفید پوش لوگ اندر سے مر جاتے ہیں۔ اسی ججھک سے وہ اندر ہی اندر بیٹھے مر رہے ہوتے ہیں اور آخر کار انھیں اپنے بیوی بچوں کے لیے اپنی قیمتی عزت نفس ہمیشہ کے لیے قربان کر کے سامنے آنا پڑ جاتا ہے۔وہ عزت نفس جو پھر کبھی واپس نہیں آتی۔ویسے ایک بات ہے کہ اگر ووٹوں کے لیے رات کے اندھیروں میں ملاقاتیں ہو سکتی ہیں تو یہ مدد بھی رات کی تاریکی میں کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف اگر کوئی صاحب حیثیت اپنا مال تقسیم کر رہا ہے تو بعض مخالفین اس کی کمائی سے لے کر اس کے تقسیم کے طریقہ کار تک، سب پر ایسے ایسے اعتراضات کرتے ہیں کہ وہ بد دل ہو جاتا ہے۔اور مشاہدے میں یہ بات آتی ہے کہ اعتراض کرنے والے بھی وہ ہوتے ہیں جو خود کسی کی مدد کر نہیں سکتے۔اور کسی کی کسی کے زریعے مدد ہوتی ہوئی بھی نہیں دیکھ سکتے۔اعتراض اگر اصلاحی ہوتو اس کا طریقہ کار بھی مختلف ہوتا ہے۔
پھرہمدردی اور پیار سے سمجھانے کے انداز میں بات ہوتی ہے۔کسی غلط بات کی اصلاح کرنا تو ویسے ہی ہمارا مذہبی اور اخلاقی فرض ہے،ہم اس سے کیسے پیچھے ہٹ سکتے ہیں لیکن بات وہاں بگڑتی ہے جب ہم اصلاح کے لیے نہیں بلکہ دوسرے کو گرانے کے لیے اس پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ہم پر یہ مشکل وقت ہے۔تمام سیاسی پارٹیوں کو اور ان سے متعلقہ تمام ورکروں کو اپنی سیاسی وابستگی اور پسند کو بالائے طاق رکھ کرخدمت خلق کرنی چاہیے اور ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔کوئی کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے تعلق رکھتا ہو یا وہ ویسے صاحب حیثیت ہو،مال دار تاجر ہو،غریبوں کو ان کی مالی مدد کی سخت ضرورت ہے۔
خدارا یہ مدد اس غریب تک پہنچائیں اور پہنچانے میں آپ بھی جیسے جیسے ہو سکتا ہے، مدد گار بنیں۔کاش ہمیں مواخات مدینہ کا سبق یاد ہوتا۔کاش ہماری کتابوں سے صحابہ اکرام ؓ کی خوبصورت زندگیوں میں شامل ایثار و قربانی کے وہ عظیم واقعات نہ نکالے جاتے،جو اخلاقی اور روحانی تربیت کے لحاظ سے دل کی کایا پلٹ دیتے تھے۔کاش ہم تعلیمات نبویؐ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے کے قابل بنیں۔اب بھی وقت ہے ایک قوم بننے کا۔ایک دوسرے کا سہارا بننے کا،ہمیں پروردگار کو راضی کر کے اپنی جنت پکی کرنے کا بڑا نادر موقع ہاتھ آیا ہے،خدارا اسے مت گنوائیے۔ پروردگار ہم سب کو اس وبا سے محفوظ رکھے۔آمین

اویس خالد

سائٹ منتظم

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button