آپ کا سلاماردو غزلیاتشعر و شاعریماہ نور رانا

آدمی اپنے ہی اندر

ماہ نور رانا کی ایک اردو غزل

آدمی اپنے ہی اندر جست بھر پاتا ہے کیا ؟
اور اگر بھر لے، تو پھر وہ لوٹ کر آتا ہے کیا ؟
پیاس کے ماروں سے کوئی اوک بھرواتا ہے کیا ؟
خیر۔۔۔ ان باتوں سے تجھ کم فہم کا ناتا ہے کیا !
واقعہ دہرا رہی ہوتی ہے جب یہ داستاں
اس سمے راقم بھی اپنا آپ دہراتا ہے کیا ؟
یہ جو میرے خون کی گلکاریاں ہیں خاک پر
ان کا سہرا بھی مرے قاتل کے سر جاتا ہے کیا ؟
فکر کا یہ جانور پالا ہوا ہے شوق سے
کیا بتائیں اب تمہیں پیتا ہے کیا، کھاتا ہے کیا
میں تو تجھ کو روز چمکاتا ہوں میرے آئینے
تُو بتا، تُو میرے خال و خد کو چمکاتا ہے کیا ؟
وقت کا پہیہ ذرا الٹا گھما لے اور بس
یہ ذہانت کی صدی ہے دوست، پچھتاتا ہے کیا !
نو عروسانِ غزل چھانیں ترے قدموں کی خاک
کیوں؟ سرائے دہر سے تُو لفظ بھجواتا ہے کیا ؟

ماہ نور رانا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button