مفتی عبد الرزاق خاں صاحب ؒ: ایک ستارہ اور ٹوٹ گیا
مفتی عبد الرزاق خاں صاحب ؒ کے سانحہ ارتحال پرخصوصی تحریر
ہزروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
دیدہ وری وہ صلاحیت ہے جو اللہ تعالیٰ کم ہی لوگوں کو عطا کرتا ہے۔ یہ صلاحیت عموماً اُن انسانوں میں پائی جاتی ہے جن کو اللہ تعالیٰ پیشوائیت کے لیے منتخب فرماتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت ہے کہ وہ عوام تو بہت پیدا کرتا ہے، مگر رہنما معدودِ چند ہی پیدا کرتا ہے۔ ایک رہنما ہزاروں لاکھوں انسانوں کی رہنمائی کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دنیا میں انقلاب دو ہی ذرائع سے برپا ہوتا ہے یا تو مذہبی پیشوائیت کے ذریعہ یا سیاسی رہنمائی سے۔ کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ دونوں میدانوں میں یدِ طولیٰ عطا فرماتاہے۔
حضرت مولانا مفتی عبد الرزاق خاں صاحب علیہ الرحمہ ایک ایسے ہی پیشوا اور رہنما تھے جو دونوں میدانوں میں سر گرمِ عمل رہے۔ ایک طرف تو اُنہوں نے قوم کے بچوں کے لیے جو کہ کسی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں مدارس قائم کرکے دینِ اسلام کی بنیادی خدمت انجام دی اور بے شمار حفاظ ِ کرام، قرأ کرام اور علماء کرام فارغ کئے اور دسری جانب اُمت کی سیاسی رہنمائی بھی بے خوف وخطر کی۔ بیباکانہ طور پر اُمت کے مسائل کو حکومت اور حکومتی عہدیداروں کے سامنے پیش کیا اور اُس کے مثبت نتائج حاصل ہوئے۔
حکومتیں بدلتی رہیں مگر مفتی عبد الرزاق صاحب کا نہ تو بیباکانہ انداز تخاطب بدلا اور نہ ہی بے خوف ہو کر اُمت کے مسائل اُٹھانے کا عمل بدلا۔ یہ نتیجہ تھااُن کی اُس بے جگری، دور رس نگاہ اور بیدار مغزی کا۔ یہ خدا داد صلاحیت اُنہیں خدا وند تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی۔
وہ جس طرح کسی رُکن اسمبلی کے سامنے بے خوفی کے ساتھ اپنا مدعیٰ رکھتے تھے۔ اُسی بیباکی کے ساتھ وہ اپنی بات ر سیاستی وزراء اعلیٰ جناب دگ وجے سنگھ صاحب، جناب شیو راج سنگھ صاحب، ارجن سنگھ صاحب وزیر اعظم ہند آنجہانی اٹل بہاری واجپئی اور صدر مملکت ہندوستان آنجہانی ڈاکڑ شنکر دیال شرما کے سامنے بھی رکھتے تھے۔ بات کہنا اور بات ہے اور اپنی بات کو منوا لینا ایک الگ وصف ہے۔ یہ غیر معمولی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے اُنہیں عطا فرمائی تھی اور اِسی لیے اُنہوں نے نہ صرف شہری، اور ریاستی سطح پر اپنی بات منوائی بلکہ ملکی سطح پر بھی اپنی بات کا لوہا منوایا۔
حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کی شہرت اور مقبولیت بھوپال تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ مدھیہ پردیش کی سرحد پار کر کے دار السلطنتِ ہند دہلی تک رسائی حاصل کر چکی تھی۔ اِس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ موصوف کونہ صرف سر زمینِ ہند بلکہ بیرونی ممالک میں بھی خاطر خواہ شہرت وعزت حاصل تھی۔ اِس کے لیے اللہ تعالیٰ نے جو انتظام فرمایا تھا وہ دل کی حیثیت رکھتا ہے۔ دل میں پورے جسم سے خون آتا ہے اور وہیں سے پھر پورے جسم میں پھیل جاتا ہے۔ یہی حیثیت ترجمہ والی مسجد کو بھی حاصل ہوئی۔ ملک کے مختلف ریاستوں سے بچے جن میں زیادہ تر تعداد نادار وں کی ہوتی ہے ترجمہ والی مسجد میں آتے ہیں اوردینی تعلیم سے آراستہ ہوکر پورے ہندوستان میں پھیل جاتے ہیں۔ خصوصاً بھوپال میں اور مدھیہ پردیش میں مسجدوں کو آباد رکھنے والے اماموں اور مؤذنوں میں کثیر تعداد اُن ہی کی ہے جو مسجد ترجمہ والی سے فارغ ہوئے۔
مسجد ترجمہ والی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اِس بات کا اندازہ اِسی امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ اِس کا نام ترجمہ والی مسجد اِس لیے پڑاکہ یہ شہر بھوپال کی وہ واحد مسجد تھی جہاں ترجمہ وتفسیر کے ساتھ قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ اِس مسجد میں متعدد اعلیٰ ترین کردارکی باکمال ہستیوں نے خدمات انجام دی ہیں۔ مگر جب سے اِس مسجد کا انتظام حضرت علیہ الرحمہ کے ہاتھ میں آیاتو اِس کی کایا پلٹ ہو گئی کیوں کہ جہاں وہ ایک قابل معلم، اعلیٰ رہنما تھے وہیں اعلیٰ درجہ کے منتظم بھی تھے۔ اِسی انتظامی صلاحیت کی وجہ سے تقریباً ۵۵۰ اطفالِ اُمت اِس مسجد میں نہ صرف تعلیم حاصل کرتے تھے اور کرتے ہیں۔ اور اُن کے طعام و قیام کا سارا بار بھی ترجمہ والی مسجد میں قائم جامعہ اسلامیہ عربیہ برداشت کرتا تھا اور کرتا ہے۔ جس کی سر پرستی حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ فرماتے تھے۔ علاوہ ازیں اِس مدرسہ کا دسترخوان اور قیام اُن لوگوں کے لیے بھی وا تھا جو شہر بھوپال میں اُمور اسلامی کے سلسلہ میں آتھے تھے اور آتے ہیں خصوصاً مدارس کے سفراء جو رمضان المبارک میں اِ س ملک کے کونے کونے سے شہر بھوپا ل میں آتے ہیں۔ اُن کی خدمت صرف رضائے الٰہی کے لیے کی جاتی تھی اور کی جاتی ہے۔ اِ س زمانے میں ایک انسان کی کفالت بارِ گراں ہے اور پھر اتنی کثیر تعداد میں اطفال و افراد کی پذیرائی اور بے شمار مدارس کی امداد جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ مگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اتنے اطفال و افراد کی حاجت روائی کے لیے حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کو ذریعہ بنا یا تھا۔
جن مفتی صاحب ؒکے پائوں میدانِ مذہب اور سیاست میں پختہ جمے ہوئے تھے وہ پائوں پھسلنے کے ایک سانحہ کا شکا ہو گئے، جو یقینا مشیت الٰہی تھی، وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور ہوگئے۔ کوئی اور ہوتا تو یہاں اپنی سر گرمیوں کو الوداع کہہ دیتا مگر حضرت مولانامفتی عبد الرزاق خاں صاحب ؒ جیسے جاں باز کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔ لہذا اُنہوں نے وھیل چیئر نشینی اختیار کی اور اپنے سر گرمیِ عمل کی حرارت کو کم نہیں ہونے دیا۔ اُن کی وھیل چیئر میدانِ سیاست اور قوم کی خدمت میں سر پٹ دوڑنے والوں سے آگے رہی۔
یہ درخشاں ستارہ ۲۶ مئی ۲۰۲۱ء کی شب میں ٹوٹ گیا۔ اِس ستارے کو احساسِ غم کی گود میں لینے کے لیے جو جمِ غفیر اُمڈاتو انتظامیہ کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ کیوں کہ کورونا وباء کی وجہ سے عوام کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی بنام لاک ڈائون تھی۔ لہذا انتظامیہ نے شہر بھوپال کے تمام سارے راستے مسدود کردئے۔ ہزاروں انسانوں کے دل میں کاندھا دینے کی حسرت’’ یاس‘‘ بن کر رہ گئی۔ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے کم عمر ہونے کے باوجود آزادی کی جدو جہد میں حصہ لیا تھا۔ اِس لیے حکومت نے اِس جہد کا اعتراف کرتے ہوئے نہ صرف اُنہیں قومی پرچم ترنگا میں لپیٹا بلکہ سلامی بھی پیش کی۔ حکومتی انتظام نے پائوں تو روک دئے مگر قلم نہیں رُک سکے۔ آج تک اخبارات او ر سوشل میڈیا کے ذریعہ اُنہیں گلہائے عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
حضر ت مفتی صاحب علیہ الرحمہ کے صاحبزادگان اُن کمالات تک کیسے پہنچ سکتے ہیں جو حضرت ؒ کی شخصیت میں بدرجہ اتم موجود تھے مگر اُن کی تعلیم و تربیت ہوئی اُس سے ہم یہ اُمید کرتے ہیں کہ صاحبزدگان اور شاگرد اِس انسانی اور قومی خدمت کا سلسلہ نہ صرف جاری رکھیں گے بلکہ اِسے بلندیوں تک پہنچانے کے لیے بھی کوشاں رہیں گے۔ آخر میں اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ
کسی کا کندہ نگینے پہ نام ہوتا ہے
کسی کی عمر کا لبریز جام ہوتا ہے
عجب سرا ہے یہ دنیا کہ جس میں شام و سحر
کسی کا کوُچ کسی کا مقام ہوتا ہے
فرید سعیدی
(ادارہ بابِ ادب 68ٹول وال مسجد روڈ موتیا پارک بھوپال،ایم پی)