گو سچ ہے میری زندگی میں سخت جِد رہی
جتنی گزار دی وہ بڑی منفرد رہی
بدلا جو اس کا رنگ تو شرمندگی ہوئی
کس پر وفا لُٹائی، میں کس کی مُمِد رہی
کس کو جنون تھا کہ تجسس رہے نہ اب؟
ہر دن ہو وصلِ یار، کہو کس کی ضد رہی؟
پگھلی نہ سنگ ریزۂ مہر و خلوص سے
احساس کی وہ جھیل سدا منجمد رہی
میں سحرِ انبساط کی آمد کے واسطے
شب بھر دعا کو ہاتھ لیے مُستَعِد رہی
اِک میں سمیٹتی رہی بکھرا ہوا وجود
اور قومِ دشمناں کہ سدا متّحد رہی
شہزین وفا فراز