بے جان زندہ لوگ
سفر کی رحل پر رکھی ہوٸی آنکھیں
اندھیروں کو اگلتی سرسراتے طاقچوں کی لَو
چمکتی میز پر اوندھے پڑے ساغر
گزشتہ رات کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شبنم میں بھیگے خواب
اور تاریک کمرے میں یہ اک شعلہ سی عورت !
سب ہَوا کے ہاتھ سے گِرتے مناظر ہیں
گماں کے منطقے پر
دستکیں دیتے ہوٸے ہاتھوں کو بے توقیر کردینا
مقفل وحشتوں کو اور بھی زنجیر کر دینا
تمہارے فلسفے کی اس بساطِ رایگاں پر
خوشنما گِرہیں چمکتی ہیں
گرفتِ شہر میں لایعنیت تحقیر پڑھتی ہے
اسی پگھلے ہوٸے بازارِ بےتعظیم میں بِکتی ہوٸی
یہ منطقیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نیستی کی قید میں ٹھہرے ہوٸے پانی کی طغیانی
صحیفوں کی طرح کھولے ہوٸے
لہروں کے ہاتھوں پر رواں
ہونے نہ ہونے کے دیے جلتے ہوٸے
گم کردہ محرابوں ، بجھی رہداریوں میں
چاندنی کےبَین میں ڈوبی ہوٸی راتیں
ہَوا کے ہاتھ سے گِرتے مناظر ہیں !
یہ کیسا کرب ہے !
جس میں بدن سارا پگھل کر بہہ رہا ہے
چاند تارے کے گیاہستاں میں
انجیروں کے اور زیتون کے سارے حوالے
خشک ہوکر جھڑ چکے ہیں
سب بدن بنجر ہیں اور بے سبز پاٶں
دُور تک مٹی کے اس اوندھے خلا میں گڑ چکے ہیں
ہم بظاہر جی رہے ہیں
اصل میں ہم مر چکے ہیں
یونس متین