فیصل آباد کرونا کا گڑھ بن چکا ہے
اب یہ کہنا مشکل ہے کہ چین نے انڈیا کو ٹوپی پہنائی یا انڈیا نے چین کو، بات یہ ہے کہ سیاست کچھ اور چیز ہے اور دھندا کچھ اور چڑیا کا نام ہے۔ انڈیا میں بائیکاٹ چائنہ کی مہم چلی اور چائنہ نے وہی ٹوپی بنانی شروع کردی اب یہ تاجروں اور سیاسی بازی گروں کی ملی بھگت ہی ہے کہ وہ ٹوپی انڈین سروں پہ سجی ہوئی ہے۔ اب یہ ایکسپورٹ امپورٹ کے دھندے ہیں یا سیاست ہے اس کا فیصلہ کون کرے؟ کہنے کو تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ فی زمانہ سیاست ہی بہت بڑا دھندا ہے چلیے ہم سیاست نہیں کہتے نظریہ، سوچ، خیال کہہ لیتے ہیں تو سوچ اور نظریہ تو ہمارے معصوم سے وزیر اعظم کا بھی بہت اچھا ہے یہ اور بات ہے کہ اس کی ناک کے نیچے بہت کچھ ہو جاتا ہے اور اسے خبر ہی نہیں ہوتی اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون کس کو ٹوپی پہنا گیا یا پھر ہو سکتا ہے کہ نظریہ ہی سیاست کی نذر ہو گیا ہویا پھر دھندا ہی سب سے بڑا دھرم ہو۔
ہمارے وزیر اعظم کا نظریہ سیاست اور واحد مقصد یہی تھا کہ وہ کرپشن کی جڑ اکھاڑ پھینکیں گے وہ دن رات یہی راگ الاپتے تھے کرپشن، کرپشن جو فی الحال صرف سیاست دانوں کی ٹانگ کھینچنے کے علاوہ کہیں سے ختم ہوتی دکھائی نہیں دیتی اور کچھ تو چھوڑیے ہم نے تو کرونا کے نام پہ بھی خوب تجارت کی ہے اور عنقریب لگتا ہے کہ ہر فیلیڈ کی طرح کرونا کے تاجر بھی مارکیٹ میں بڑی بے شرمی سے دستیاب ہوں گے۔ اب دیکھیے نہ ہم نے ایکسپورٹ امپورٹ کے نام پہ کس مہارت سے کرونا اپنے ملک میں امپورٹ کیا اور یہاں کتنی کمائی ہوئی۔
اب جو ہر طرف لاک ڈاؤن ہو تو کہیں سے تو کمائی کا دروازہ کھولنا ہی پڑے گا نا۔ سو یہ بڑے بڑے مگر مچھ قسم کے ایکسپورٹر وی آئی پی لاؤنجوں سے بھاری بھرکم رشوت و تحائف دے کر بغیر کسی قسم کی چیکنگ، سکیننگ اور ٹیسٹ کے بمع کرونا پاکستان میں ”امپورٹ“ ہو گئے اور اب یہ حال ہے کہ فیصل آباد کی پیراڈائز کالونی جو ایکسپورٹرز کا گڑھ ہے تاحال کرونا کا گڑھ بھی بن چکا ہے۔ یہ تو کورونا بڑا غریب نواز اور انصاف مزاج واقع ہوا ہے اور کسی رشوت اور سیاست میں نہیں آتا اور بلاتخصیص ہر کسی کو چمٹ جاتا ہے لیکن حکومت کے کان پہ تاحال جوں تک نہیں رینگی ( لگتا ہے اینٹی لایس شیمپو کا استعمال کیا جاتا ہے ) کہ خبر لے کہ یہ وائرس کیونکر اتنی تیزی سے پھیلا ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ڈبلیو ایچ او کے پیجز پہ ہمارا ذکر امپورٹ وائرس کے طور پہ ہوتا تھا اب ہم لوکل سپریڈ کے درجے پہ ترقی کر کے گیے ہیں۔
ہماری حکومت کو یہ ترقی مبارک ہو، اس تمام ترقی کے باوجود شبلی فراز فرماتے ہیں کہ تاحال امید برنہیں آئی۔ ہائے ہماری حکومت کیسی صاف گو واقع ہوئی ہے۔ ایک اور کرپشن نہیں معذرت حکومت کی سیاست کا مظاہرہ ملاحظہ فرمائیے، ہماری سابقہ ملازمہ رو رہی تھی کہ حکومت کی طرف سے مجھے امدادی رقم کے لیے نا اہل قرار دے دیا گیا ہے۔ وہ ناقابل اشاعت گالیاں نکال کر اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے کہہ رہی تھی ”میری کیڑھی مل چلدی اے، میسج تے مرے پچی روپے کٹ لیے نکھتیاں نے تے نالے مینوں نا اہل دس دتا“ (میری کون سی مل چلتی ہے؟ میسیج پر میرے پچیس روپے کاٹ لیے نکموں نے اور ساتھ مجھے نااہل کر دیا) کچھ آیا سمجھ شریف میں؟
نہیں۔ ۔ ۔ یہ نادر خیال ہماری اس منگتی حکومت کو ہی آ سکتا تھا۔ میسج جس میں مستحقین اپنا ڈیٹا بھیجتے ہیں بیس پچیس روپے ادا کرنے پڑتے ہیں اور اس امداد کے نام پہ بہت سے کروڑ اکٹھے کر کے تھوڑے سے کروڑ عوام کے اونٹ کے منہ میں زیرے کی صورت ڈال کر واہ واہ بھی سمیٹ لی اور دھندا بھی کر لیا۔ واہ یہ ہوتی ہے عقل یہ ہوتا ہے سیاست دان کا ویژن۔
اسی طرح لاک ڈاؤن میں پولیس نے جس کرپشن اور لوٹ مار کا طوفان بدتمیزی قائم کیا اس کی کیا مثال پیش کی جائے، پولیس کی اصلاحات اور ریاست مدینہ وہ سب کیا ہوا وہ ہوا ہوئے۔ دکان سے لے کر مل تک کھولنے کے ریٹس مقرر تھے۔ پولیس کی ملی بھگت سے شٹر گرا کر دکانیں کھول دی گئیں اور جس نے انکار کیا وہاں مصنوعی یا جان بوجھ کر رش قائم کر کے چھاپے پڑوائے جاتے رہے۔ ہمارے گھر کے پاس ایک متبرک بیکری ہے جو لاک ڈاؤن کو لات مار کر چوبیس گھنٹوں کھلی رہی ظاہر ہے وہاں کھڑکی توڑ رش پڑتا ہے اسی حساب سے پولیس کا بھتہ ہے۔
سیمیں کرن