اُردو منقبت کی روایت
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبت نگاری کی خصوصیات
اس کائناتِ رنگ و بو میں ایسی شخصیات قابلِ توصیف اور لائق تقلید ہوتی ہیں جو حق و صداقت کا عملی نمونہ بن جائیں۔ حق تو یہ ہے کہ ایسی عصمت مآب شخصیات ہی افراد کی کردار سازی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتی ہیں۔ اسی طرح عوام الناس ان پاکیزہ نفوس کی تقلید کر کے اپنی فطری آلائشوں کو پاک کرتے ہیں اور دنیا اور آخرت کے لیے مثالی زندگی کا اہتمام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آپ عالمی ادب کا مطالعہ کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ اس میں حق و صداقت کی علمبردار شخصیتوں کے لیے ہمیشہ تحسینی کلمات ہی ملتے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہر قوم اپنے مذہبی معتقدات کو اہمیت دیتی ہے اور اعتقادات کی مضبوطی صرف نظریات ہی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے کچھ نفوس بھی درکار ہوتے ہیں۔ کسی بھی فرد کی ذات یا شخصیت کی تعمیر و تہذیب میں یہی نفوس طاہرہ ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔
اُردو شاعری کی روایت میں مذہبی شخصیات کے کارناموں کا ذکر بطریقِ احسن ملتا ہے۔ نعت کی ایک مضبوط اور توانا روایت ہماری شاعری کے لیے سرمایۂ افتخار ہے۔ اسی طرح عمائدین ملت، فاتحین اور شہدائے ملت کے لیے منظومات کا ایک سلسلہ بھی ہماری شعری روایت کا حصہ ہے۔ سلاطین، ولیوں اور بادشاہوں کے قصائد بھی ہماری شاعری کا اہم جزو ہیں۔ اسی طرح سیدالشہدا امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں کی کربلا کے میدان میں بے مثال قربانیوں کو ’’سلام‘‘ کی شکل میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ محمدؐ و آلِ محمدؑ کے خانوادے کے اکابرین اور ان سے منسلک احباب کی مدح سرائی کے لیے ’’مناقب‘‘ کی صنف کا سہارا لیا جاتا ہے۔ مختصر یہ ہے کہ مختلف اصناف کے ذریعہ مقدس و برگزیدہ شخصیات کو اُردو شاعری میں محض اس لیے جگہ دی جاتی رہی ہے کہ اس صورت میں ’’قوم‘‘ کی ’’تعمیر نو‘‘ ہو سکے۔
سیّد وحیدالحسن ہاشمی نے مقدس شخصیات کے محاسن اُجاگر کرنے کے لیے نعت، سلام، قصائد، نظم اور منقبت کا سہارا لیا ہے۔ دوسری اصناف کی نسبت منقبت میں ان کے طبعی جوہر کھل کر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دوسری اصناف کی نسبت انہیں یہ صنف کیوں پسند ہے؟ اس کا بنیادی سبب تو یہ ہے کہ اس صنف میں موضوع کا پھیلاؤ زیادہ ہوتا ہے۔ اس میں محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے خانوادے کے کسی بھی فرد یا پہلو پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ وحید ہاشمی ایک پر تجمل اسلوب کے حامل شاعر ہیں اور ان کا مزاج قصیدے کے لیے موزوں ترین ہے۔ قصیدے کا یہی انداز جب منقبت کے روپ میں اُجاگر ہوتا ہے تو زیادہ با وقعت اور پر لطف ہو جاتا ہے۔ تیسرا سبب یہ ہے کہ وہ اپنی منقبتوں کو زادِ آخرت سمجھتے ہیں اور ان کا واضح موقف یہ ہے کہ ان کے یہی اشعار روز جزا ان کی شفاعت کا سبب بنیں گے۔ سب سے پہلے سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبت نگاری کے حوالے سے خود ان کی رائے دیکھ لیجیے۔ وہ اپنی کتاب ’’معصومینؑ ‘‘ میں رقم طراز ہیں :
’’——–
میں نے ان منقبتوں میں زبان سے زیادہ خیال کو اہمیت دی ہے۔ اسی طرح صنائع بدائع سے بھی حتی الامکان گریز کیا ہے۔ منقبت کے لئے جذبۂ صادق اور گہری عقیدت درکار ہے۔ میری عقیدت اور میرے جذبات جہاں تک مجھے لے گئے، میں نے ان کی عکاسی کر دی ہے۔ عقیدت کو فن کی کسوٹی پر پرکھنا اور محبت کو فن کی ترازو پر تولنا میرے نزدیک بڑا مشکل کام ہے، لیکن میں نے پوری کوشش کی ہے کہ فنّی لوازمات کہیں مجروح نہ ہوں ، مگر میں بھی ایک بشر ہوں اور ہر بشر معصوم نہیں ہوتا۔
جس امر کا میں نے زیادہ خیال رکھا ہے وہ زبان کی سادگی ہے۔ جہاں تک ہو سکا عربی اور فارسی ترکیبوں سے گریز کیا ہے۔ ہلکے پھلکے انداز میں سادہ زبان استعمال کی گئی ہے تاکہ محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے اوصاف اور ان کا پیغام عوام تک پہنچ سکے۔ اس میں کچھ میری عادت اور کچھ عوام الناس کے معیارِ سماعت کا دخل ہے۔ میری کوشش رہی ہے کہ تو ارد سے جہاں تک ہو سکے بچا جائے۔ طرحی منقبت کے علاوہ ساری زمینیں میری ہیں۔ میرا کلام سُن کر اگر کسی صاحب نے میری زمین پر طبع آزمائی کی ہے تو یہ ان کی سعادت مندی ہے۔
میں نے یہ تمام منقبتیں نہ مالی منفعت اور نہ شہرت کے لئے کہی ہیں ان کا مقصدِ وحید یہ تھا کہ کچھ ثواب مل جائے اور کچھ قارئین کو حاصل ہو۔ مدحتِ محمدؐ و آلِ محمدؑ ایک ایسا خزانہ ہے، جو ہمیشہ بھرا رہتا ہے جو شخص خلوصِ دل سے کوشش کرے اُسے اس خزانے سے بہت کچھ عطا ہو جاتا ہے۔
——–‘‘
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں کی اہم ترین خصوصیت ان کی اہلِ بیت کے خانوادے سے ’’والہانہ عقیدت‘‘ ہے۔ وہ محض حضور اکرم ؐ اور ان کی آلؑ سے ہی محبت نہیں کرتے بلکہ اس فرد سے بھی عقیدت رکھتے ہیں جو ان سے منسلک ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ
کس طرح اہلِ بیتؑ کا گھر چھوڑ دیں وحیدؔ
پل کر بڑے ہوئے ہیں یہیں کے نمک سے ہم
عقیدت کے اظہار کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ ایک سطح پر انسان محض رسماً اپنی عقیدت کا اعلان کرتا ہے۔ دوسری سطح وہ ہے جہاں انسان دل سے کسی فرد کی توقیر تو کرے لیکن اس کا عمل اس کی فکر کا ہمنوا نہ ہو۔ عقیدت کی بہترین صورت اس وقت سامنے آتی ہے جب انسان کے رگ و پے میں ممدوح کی محبت لہو بن کر گردش کرنے لگے۔ وحیدالحسن ہاشمی کے خیال میں محمد ؐ و آلِ محمدؑ کے عاشق کو نہ صرف دل میں ان کی محبت کی شمع روشن کرنا چاہیے بلکہ اس کے عمل سے بھی ان حضرات کی مہک آنا چاہیے یعنی وحید ہاشمی کے نزدیک باکمال عاشق وہ ہوتا ہے جو فطری اور عملی ہر سطح پر اپنے محبوب کا آئینہ ہو۔ ان کا واضح موقف یہ ہے کہ
تم میری عقیدت کو نجف میں کہیں ڈھونڈو
وہ میرا محلہ ہے وہیں میری گلی ہے
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے منقبتی اشعار بحرِ عقیدت میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں عقیدت کی تپش بھی ہوتی ہے اور مودّت کی مہک بھی۔ آپ ان کے درج ذیل اشعار دیکھیے کہ اُن میں محمد ؐ و آلِ محمدؑ سے والہانہ عقیدت کے کیسے کیسے نادر گہر ملتے ہیں :
ہو نہ جاگزیں جب تک اُلفتِ علیؑ دل میں
طے یہاں سے محشر کا راستہ نہیں ہوتا
……
علیؑ کی دید کا غل ہو تو اِک جہان، رُکے
سنے جو نام تو جاتی ہوئی یہ جان، رُکے
……
چلے تو ہو سوئے فردوس چھوڑ کر دنیا
علیؑ کے عشق کا دریا بھی درمیان میں ہے
……
بندگانِ حق کو دینِ حق پیمبرؐ سے ملا
دین کو مشکل کشا اللہ کے گھر سے ملا
……
ہو گا نہ کم علیؑ کی شجاعت کا تذکرہ
تاریخ چپ رہے گی تو خیبر بتائے گا
……
تفسیر کسی غیر سے کیوں پوچھنے جاؤں
قرآن تو مجھ کو درِ حیدرؑ سے ملا ہے
……
میں ان پہ جان دے کے لحد تک تو آ گیا
اب اس کے بعد میرا نہیں ان کا کام ہے
……
مریمؑ کا فاطمہؑ سے بھلا کیا مقابلہ
مریم تو عابدہ ہیں عبادت ہیں فاطمہؑ
……
نبیؐ کی سیرت و کردار ہیں حسینؑ و حسنؑ
سوال ایک تھا دنیا کا، دو جواب آئے
……
وفا در در بھٹکتی پھر رہی تھی صحن عالم میں
ہوئی تکمیل جب عباسؑ کی دہلیز پر آئی
……
تمام عُمر علیؑ کو یہی رہی حسرت
کہ ذوالفقار کے آگے کوئی جوان رُکے
……
کہیں یہی تو نہیں خلقتِ علیؑ کا سبب
اِک آئینہ بھی ہو اوصافِ انبیاء کے لیے
……
کس کس کو لاؤں مدحِ شہؑ ذی وقار میں
لفظوں کی ایک فوج کھڑی ہے قطار میں
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں تاریخی حقائق کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں تاہم ان کا کمال یہ ہے کہ وہ ان واقعات کو شعری پیرائے میں بیان کر دیتے ہیں۔ تاریخی واقعات کو منظوم کرنا کوئی دشوار عمل نہیں ہوتا لیکن کسی تاریخی سچائی اور واقعاتی صداقت کو شعری اسلوب میں اُجاگر کرنا ایک دشوار عمل ہوتا ہے اگر وحید ہاشمی چاہتے تو ان تاریخی موضوعات پر نظمیں بھی تخلیق کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ہر واقعہ کو ایک شاعر کی آنکھ سے دیکھا اور اس میں شعری جاذبیت پیدا کر کے منقبت کا شعر بنا دیا ہے۔
ان کی منقبتوں میں واقعۂ شب ہجرت، واقعۂ غدیر خم، شعب ابی طالب میں محصوری، واقعۂ عقدِ نبیؐ، حضرتِ خدیجہؑ کی والہانہ امداد، واقعۂ شبِ ہجرت، جوفِ کعبہ میں ولادت حضرت علیؑ کا واقعہ، واقعۂ جنگِ خیبر و خندق، نزول ذوالفقار کا قصہ، قصۂ صلح حدیبیہ، قصۂ باغِ فدک، واقعۂ حدیثِ کسائ، کعبہ میں دوشِ نبیؐ پر حضرت علیؑ کی بُت شکنی کا واقعہ، درِ زہراؑ پر ستارے کے اُترنے کا واقعہ، واقعۂ مباہلہ، صلحِ امام حسنؑ کا واقعہ، فطرس کو بال و پر ملنے کا واقعہ، واقعۂ رجعتِ خورشید اور اسی قبیل کے دیگر واقعات کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں لیکن آپ درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے کہ ان میں کسی مقام پر بھی شعریت کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ وہ وصف خاص ہے جو خاص وحید ہاشمی کے لیے وقف ہے۔
آ نہیں سکتے پیمبرؐ تک پیمبرؐ کے عدو
ان کی نظروں میں تھا اِک لشکر ابوطالبؑ کا نام
……
ہم اس لیے تعظیم خدیجہؑ کے ہیں قائل
ایمان سے وابستہ ہے عرفانِ خدیجہؑ
……
یہ بھی اِک فخر ہے علیؑ کے لیے
تیغ نازل ہوئی انہی کے لیے
……
عزت یہ کہ آئے ہیں اسی در پہ فرشتے
رفعت یہ کہ اُترا ہے ستارہ اسی گھر میں
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں صرف اظہارِ عقیدت اور بیانِ مودّت ہی نہیں بلکہ ان میں عصری حقائق کی پیش کش بھی ملتی ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اگر کسی بھی قسم کی شاعری میں عصری حسّیت اور معاشرتی رویوں کی نگہداری نہیں ہو گی تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتی۔ وحید ہاشمی نے اپنی منقبتوں میں جہاں محمد ؐ و آلِ محمدؑ کی مدح سرائی کی ہے اور ان کے کمالات و معجزات بیان کیے ہیں وہاں انہوں نے ان کے طرزِ عمل اور اسوۂ حسنہ پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ آپ ان کی منقبت کے درج ذیل تین اشعار ملاحظہ فرمائیے اور دیکھیے کہ وہ کس طرح آلِ نبیؐ کو زمانے کا نجات دہندہ قرار دیتے ہیں :
ذرا پکار کے آفت میں کوئی دیکھے تو
ہر اِک بلا سے بچاتا ہے نامِ آلِ نبیؑ
تمہارے بس میں نہیں ہے حصولِ امن و اماں
یہاں نہ لاؤ گے جب تک نظامِ آلِ نبیؑ
ڈروں وحیدؔ میں کیوں گردشِ زمانہ سے
مری نگاہ میں ہے صبح و شامِ آلِ نبیؑ
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے نزدیک معاشرتی خرابیوں کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ آلِ محمدؐ کا صالح نظام نافذ کیا جائے۔ جو لوگ اس نظام الٰہی یا مرکز نورانی سے دور ہو جاتے ہیں عمر بھر کی روسیاہی اور ظلمتِ
شب ان کا نصیب بن جاتی ہے اور زمانے سے ان کا نام و نشان ہی نہیں سلسلۂ نسب بھی مٹ جاتا ہے۔ وحید ہاشمی اسوۂ اہلبیتؑ کو کامیابی و کامرانی کا قرینہ سمجھتے ہیں۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اگر عصرِ حاضر میں ہم سب مل کر اپنے ذہنوں میں بسے ہوئے جھوٹے خداؤں کے بتوں کو مسمار کر دیں تو آج بھی دنیا و آخرت میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔ آپ ان کی مختلف منقبتوں کے درج ذیل اشعار دیکھیے کہ انہوں نے ہمارے معاشرے کے کن عیوب کی نشاندہی کی ہے اور ان کی اصلاح کا کیا طریقہ وضع کیا ہے۔
ہزاروں ظلم کے طوفاں ڈبو نہیں سکتے
ہماری کشتی کا موجود ناخدا ہے ابھی
……
اختلافاتِ فروعی کی کوئی بات نہیں
غم تو اس بات کا ہے بک گئے سستے کتنے
……
یہ تو تاریخ سے پوچھو وہی بتلائے گی
چھوڑ کر ان کا عمل دہر میں بھٹکے کتنے
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کے کلام میں ’’جوش و جذبہ‘‘ کثرت سے ملتا ہے۔ ان کے ہاں جوش سطحی الفاظ یا دھواں دھار خیالات کے باعث پیدا نہیں ہوتا بلکہ یہ وہ جوش ہے جو خلوص کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے۔ شاعر دو طرح سے اپنے اشعار میں جوش پیدا کر سکتا ہے۔ پہلی صورت یہ ہے کہ وہ جوشیلے، متحرک اور زور آور الفاظ استعمال کر کے اپنے قاری کے اندر جوش و خروش پیدا کر دے۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ وہ حق و صداقت کی گرم جوشی کا سہارا لے کر اپنے خیالات کو زیادہ زورآور بنائے تاکہ اس کا قاری اس کے جذبے کی حدّت سے اپنے اندر جوش و خروش محسوس کرے۔ وحید ہاشمی کی منقبتوں میں جذبات و صداقت کی حدِّت رواں دواں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ وحید ہاشمی اپنے قاری کے اندر ایسا جوش و جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جو اعلیٰ اخلاقی قدروں کے فروغ کے لیے کام آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ شاعر کے دل کی صداقت اگر قاری کے دل و دماغ کو معطر کر دے تو اس سے بڑھ کر اور کوئی خوبی نہیں ہو سکتی۔
آپ وحید ہاشمی کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ فرمائیے کہ انہوں نے کس طرح اپنے منقبتی اشعار میں جوش و جذبہ پیدا کیا ہے :
ہاتھ میں میرے علیؑ کے عشق کی پتوار ہے
اب سمندر میں بھی میں ڈوبوں تو بیڑا پار ہے
……
جو فاطمہ زہراؑ کی اطاعت نہ کرے گا
مر جائے گا جنت کی زیارت نہ کرے گا
سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی منقبتوں میں سادگی اور سلاست کے باوجود صنائع بدائع کا برمحل استعمال ان کی ہنر مندی پر دال ہے۔ ان کی شاعری دراصل دل کی آواز ہے اور اس میں سے نکلی صدائیں ہشت پہلو نگینہ ہوتی ہیں جس میں تشبیہات و استعارات کی چمک دمک بھی ہتی ہے اور تراکیب و مرکبات کی جدّت بھی۔ سیّد وحیدالحسن ہاشمی کی ہنر مندی یہ ہے کہ انہوں نے صنائع بدائع کو اپنی منقبتوں کا حُسن و زیور بنایا ہے۔ مقصد و منتہیٰ نہیں۔ آپ ان کے درج ذیل اشعار کا مطالعہ فرمائیے اور ان کی صناعانہ ہنر مندیوں کی داد دیجیے۔
حرم کی گود میں اس طرح بو ترابؑ آئے
نبیؐ کے قلب پہ جیسے کوئی کتاب آئے
(تشبیہ)
قرطاس و قلم ان کے اشارے کے ہیں پابند
دنیا میں یہی باعثِ تخلیق ادب ہیں
(صنعت مراعاۃ النظیر)
اس معروضے کے آغاز میں راقم الحروف نے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ عصمت مآب اور پاکیزہ اوصاف شخصیات ہی اقوام و افراد کی کردار سازی کی اہل ہو سکتی ہیں۔ سیّد وحیدالحسن ہاشمی نے اپنی منقبتوں کے ذریعہ یہ بات ثابت کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے کہ محمدؐ و آلِ محمدؑ و ہ عظیم المرتبت نفوس ہیں جو کائنات کی ہر چیز کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ وحیدالحسن ہاشمی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے استدلال، تفکر اور شاعرانہ ہنر مندیوں سے اپنی منقبتوں کو دورِ جدید سے منسلک کر دیا ہے۔ اب ان کی منقبتوں کے مطالعہ کے بعد بلا خوف و تردد کہا جا سکتا ہے کہ عصرِ حاضر میں وحید ہاشمی نے اس صنف کو ایک نئی زندگی عطا کی ہے اور جب تک صنف منقبت زندہ ہے سیّد وحیدالحسن ہاشمی کا نام زندہ و پائندہ رہے گا۔ تاہم وحید الحسن ہاشمی ہر صاحبِ دل سے یہی کہہ رہے ہیں کہ ؎
اس قدر زمانے میں مرتضیٰؑ کے احساں ہیں
لاکھ منقبت کہئے حق ادا نہیں ہوتا
ڈاکٹر سیّد شبیہ الحسن