آپ کا سلامابصار فاطمہاردو افسانےاردو تحاریر

گل بانو اور فائزہ کی دوستی

افسانے کی حقیقی لڑکی از ابصار فاطمہ سے اقتباس

لڑکے والے جانے کے لیئے تیار تھے جب باسط اپنی سب سے چھوٹی بہن مدیحہ کے ساتھ دوبارہ اسٹیج پہ آیا۔ فائزہ ابھی بھی بسمہ کے ساتھ ہی بیٹھی تھی۔ کافی مہمان جاچکے تھے۔ باسط کے چہرے سے لگا وہ کچھ ہچکچا رہا ہے۔ بہن نے ٹہوکا دیا۔
"دیں نا”
باسط نے ایک گفٹ آگے بڑھا دیا
"یہ آپ کے لیئے”
بسمہ نے کنفیوز ہو کر فائزہ کی طرف دیکھا۔ فائزہ نے کندھے اچکا دیئے۔
بسمہ نے ہچکچاتے ہوئے گفٹ پکڑ لیا۔ باسط ہلکے سے مسکرایا۔
"اپنا خیال رکھیئے گا”
بہت دیر پہلے دھیما ہوجانے والا دل ایک دم دوبارہ تیز دھڑکنے لگا۔ باسط اپنی بہن کے ساتھ جاچکا تھا۔
اس نے گفٹ فورا سامنے رکھی ٹیبل پہ رکھ دیا۔ جیسے خوف ہو کہ اگر گھر میں سے کسی نے دیکھ لیا تو ڈانٹ نا پڑ جائے کہ ایک لڑکے سے گفٹ لے لیا وہ بھی گھر والوں کو بتائے بغیر۔ بشرہ آپی باقی گفٹس اور چیزیں سمیٹنے آئیں تو وہ گفٹ بھی اٹھا کر نیچے کمرے میں لے گئیں۔ ان کی انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ اسے بھی کسی اور مہمان کا گفٹ سمجھ رہی ہیں انہوں نے بسمہ سے کچھ پوچھا نہیں۔ سارے گفٹس نیچے ڈرائنگ روم کی ٹیبل پہ رکھ دیئے گئے۔ ناچاہتے ہوئے بھی بسمہ کی نظریں باسط والےگفٹ کے ساتھ ساتھ تھیں۔ 1 تو بج ہی گیا تھا سب کپڑے وغیرہ بدلنے میں لگ گئے۔ ادھر ادھر بکھرا سامان تھوڑا بہت سمیٹا گیا کہ صبح تک سونے کا انتظام ہو سکے۔ کئی دفعہ بسمہ کا گزر ڈرائنگ روم کے دروازے کے سامنے سے ہوا اور ہر باراس کی نظر باسط کے گفٹ پہ جا کر ہی ٹہری۔ رات اتنی ہوگئی تھی کہ یہ طے پایا کہ اب یہ سب گفٹس صبح کھولے جائیں گے۔ بستر پہ لیٹتے ہی کر بسمہ کو بے چینی شروع ہوگئی کہ گفٹ میں آخر ہوگا کیا۔ کبھی سوچتی اٹھ کر الماری میں چھپا دے کسی کو بتائے ہی نہیں کہ باسط نے کوئی تحفہ دیا ہے۔ کبھی سوچتی کی بس سب گفٹس میں مکس ہوگیا ہے کسی کو کیا پتا کہ کس نے دیا ہے۔ پھر دھیان آیا کہ بشرہ آپی اور اسماء آپی بچوں سمیت وہیں سورہی ہیں بچے تحفے ادھر ادھر نا کردیں۔ تھکن اتنی تھی کہ زیادہ دیر سوچ بھی نہیں پائی اور نیند میں ڈوبتی چلی گئی۔
صبح گھر میں چہل پہل سے اس کی آنکھ کھلی پہلی بار ایسا ہوا تھا جب وہ سب کے جاگنے تک سوتی رہی مگر کسی نے اسے جھنجوڑ کر اٹھایا نہیں۔ دوسرے ہی لمحے اسے گفٹ یاد آیا کچھ سوچے سمجھے بغیر وہ ایک دم بستر سے اٹھی اور بھاگ کے ڈرائنگ روم میں آگئی دونوں آپیاں اپنے بچوں کو لیئے بیٹھی تھیں اور ناشتہ کروا رہی تھیں۔ معمول کے مطابق ڈانٹ ڈپٹ چل رہی تھی مگر بسمہ کا دھیان ان کی طرف تھا ہی کب اس کی نظریں تو سب سے پہلے ٹیبل پہ رکھے گفٹس پہ گئیں سب کچھ جوں کا توں دیکھ کر اسے سکون ہوا اور جیسے ہوش آگیا۔
"وہ آپی رات جو جھمکے پہنے تھے وہ یہاں ٹیبل پہ چھوڑے کیا میں نے؟” سٹپٹا کر اس نے بے تکی بات بنا دی۔
"جھمکے؟ نہیں تو وہ تو تم نے فورا ہی اتار کر جیولری باکس میں رکھے تھے نا، وہاں نہیں ہیں؟”
اسماء آپی کی نظریں چھوٹی بیٹی پہ تھیں جسے وہ نوالا کھلانے بلکہ ٹھسانے کی کوشش میں تھیں مگر جواب بسمہ کو دیا۔
"اچھا میں وہیں دیکھ لیتی ہوں”
” یہ سب بعد میں کرنا جلدی سے ناشتہ واشتہ کر کے فارغ ہوجاو گفٹس اور لفافے کھولیں۔ بچوں نے صبح سے دماغ کھایا ہوا ہے کہ خالہ جانی کے گفٹس کھولیں۔ بھیا بھی کئی بار انہیں ڈانٹ کے جا چکے ہیں مگر آج تو یہ قابو میں ہی نہیں آرہے۔” اسماء آپی نے اس کے مڑتے مڑتے پیچھے سے تھوڑا زور سے کہا۔
وہ "جی آپی” کہہ کر غسل خانے میں گھس گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ ناشتے سے فارغ ہوکر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ اسے دیکھتے ہی باقی سب بھی آگئے جیسے بس اسی کا انتظار ہو۔ اسے عجیب بھی لگا اور اچھا بھی۔ اتنا پروٹوکول تو اسے کبھی نہیں ملا کہنے کواسکول میں پوزیشن ہولڈر تھی مگر بھیا اور اسد کے پاس ہونے پہ جتنی سیلیبریشن ہوتی اتنی اس کے فرسٹ یا سیکنڈ آنے پہ نہیں ہوتی تھی۔ وہ اہمیت جو وہ گھر کا فرد ہونے کی حیثیت سے ہمیشہ چاہتی تھی۔ وہ اسے آج مل رہی تھی۔ یہ سب اس نے اسماء آپی اور بشرہ آپی کی شادی پہ بھی نوٹ کیا تھا جب ان سے وی آئی پی کی طرح برتاو کیا جارہا تھا۔ مگر اپنے لیئے یہ سب ہوتے دیکھنا، یہ سب بہت الگ احساس تھا۔ پہلے تو اس کی کبھی نہیں چلی باقی سب سے چھوٹی تھی اور اسد سے بڑی ہونے کے باوجود لڑکی ہونے کی وجہ سے اس کی ہی سننی پڑتی تھیں وہ مرد جو تھا۔ بقول دادی، کہ بھائی چھوٹا بھی ہو تو بڑا ہی سمجھنا چاہیئے انہیں تو بسمہ کا اسد کو نام لے کر پکارنا بھی پسند نہیں تھا۔ بسمہ تب چونکی جب فہد بھیا نے اسے کہا "بسمہ لفافے تمہارے پاس ہیں یا امی کے پاس لے آو تو پہلے وہ کھول لیں۔” ان کے ہاتھ میں کاپی پین تھا۔
"نہیں بھیا پہلے گفٹس کھولتے ہیں نا۔ آپ اور ابو بعد میں لفافوں کا حساب کرتے رہیئے گا وہ سارے امی کے پاس ہی ہیں۔”
بشرہ آپی یہ کہتے ہوئے اٹھ گئیں۔ انہوں نے سب سے پہلے باسط والا گفٹ اٹھایا۔
"سب سے پہلے تو یہ سب سے اسپیشل گفٹ کھلے گا” سب معنی خیز انداز میں ہنس پڑے
تب بسمہ کو اندازہ ہوا کہ سب کو پہلے سے پتا تھا کہ یہ گفٹ باسط نے دیا ہے۔
"ان لوگوں کو برا نہیں لگا؟” گھر کے خوش گوار ماحول پہ وہ خوش بھی تھی مگر ان کے غیر متوقع رویوں پہ حیران بھی۔
"سب سے پہلے تو یہ سب سے اسپیشل گفٹ کھلے گا” سب معنی خیز انداز میں ہنس پڑے
تب بسمہ کو اندازہ ہوا کہ سب کو پہلے سے پتا تھا کہ یہ گفٹ باسط نے دیا ہے۔
"ان لوگوں کو برا نہیں لگا؟” گھر کے خوش گوار ماحول پہ وہ خوش بھی تھی مگر ان کے غیر متوقع رویوں پہ حیران بھی۔
"یہ تو بسمہ کو ہی دو خود کھول کے دیکھے کہ ان کے انہوں نے کیا دیا” اسماء آپی نے شوخ لہجے میں کہا۔
"یہ لیں جی دلہن صاحبہ کھولیئے اپنے ہونے والے سرتاج کا تحفہ” بشرہ آپی نے فورا گفٹ اس کے سامنا کردیا۔ وہ ایک دم گڑبڑا گئی۔
"آپی آپ ہی کھول لیں”
"یار تم لوگ گفٹس دادی کے روم میں لے جا کر کھول لو ہمیں لفافوں کا حساب کرنے دو” بھیا کا جھنجھلاہٹ میں دیا ہوا مشورہ بسمہ کو غنیمت لگا کم از کم سب بڑوں کے سامنے نہیں کھولنا پڑتا گفٹ۔وہ تینوں بہنیں گفٹس لے کر دادی اور بسمہ والے کمرے میں آگئیں۔
گفٹ کھولتے ہوئے بسمہ کے ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ پہلی بار کسی لڑکے کا گفٹ کھول رہی تھی۔ ڈبہ دیکھ کر بھی اسے سمجھ نہیں آیا کہ اندر کیا ہے عموما تو اس نے یہی دیکھا تھا کہ گھر میں کوئی بھی الیکٹرانکس کا پرانا ڈبہ ہوتا اس میں سوٹ یا چوڑیاں یا کوئی بھی ایسا گفٹ پیک کر دیا جاتا جس کا ڈبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ سمجھی اس میں بھی کوئی ایسا گفٹ ہوگا شاید کوئی شو پیس۔ موبائل کے ڈبے میں سوٹ تو آ نہیں سکتا،ڈبہ کھول کے ایک لمحے کو وہ ششدر رہ گئی۔ اس میں بالکل نیا موبائل رکھا تھا۔
"واہ بسمہ تیرے تو عیش ہوگئے” بشرہ آپی بول پڑیں۔ اس نے موبائل آن کیا تو اندازہ ہوا اس میں سم بھی ہے سگنل پورے ہوتے ہی ٹون بجنے لگی۔ ایک ساتھ تین میسج آگئے۔ نمبر باسط کے نام سے پہلے سے سیو تھا۔
"چلو بھئ چلو یہاں تو پرسنل باتیں شروع ہونے والی ہیں” بشرہ آپی اور اسماء آپی گفٹس وہیں چھوڑ کے ہنستی ہوئی باہر نکل گئیں۔
"ہیلو باسط ہئیر”
"ہیلو بسمہ گفٹ کیسا لگا”
"اتنا ایٹیٹیوڈ تو مت دکھائیں یار آپ کا منگیتر ہوں”
بسمہ کو تینوں میسج دیکھ کے اندازہ ہوا کہ باسط شاید رات سے ہی میسج کر رہا ہے۔
اسے لگا وہ ناراض نہ ہوجائے۔ غیر ارادی طور پہ اس نے ٹائپ کرنا شروع کردیا
"سوری موبائل ابھی آن کیا۔ یہ تو بہت مہنگا گفٹ ہے” سینڈ کر دینے کے بعد سوچا کہ گھر میں سے تو کسی سے پوچھا ہی نہیں۔ بھیا کو پتا چلے گا تو وہ تو بہت ناراض ہونگے۔ پھر سوچنے لگی کیا پتا نا بھی ہوں آجکل تو سب نرالا برتاو کر رہے ہیں۔
وہ اپنی سوچوں میں ہی تھی کہ دوبارہ ٹون بجی
"جنہیں زندگی سونپ دی ہو ان کو موبائل دینا مہنگا تو نہیں ” یار یہ ایک دم اتنا فری کیوں ہوگیا؟۔ بسمہ کچھ حیران بھی تھی اور الجھن میں بھی۔ منگنی کوئی اتنا مظبوط بندھن بھی نہیں یہ تو بس ایک وعدہ ہے اس پہ اتنی جلدی اتنی بے تکلفی؟ اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ اس کا کیا جواب دے۔ کافی دیر وہ موبائل ہاتھ میں لیئے بیٹھی رہی۔
"بسمہ؟ آپ کو میری بات پسند نہیں آئی یا میرا تحفہ؟ ”
اب بسمہ کو لگا کسی کو تو بتا ہی دے۔ یہ نا ہو ذرا سی لا پرواہی نئے بنے بنائے رشتے کو خراب کردے۔
باہر نکلتے نکلتے دروازے پہ رک گئی۔ بتاوں کسے؟ جو ڈانٹے بغیر مسئلہ حل کرسکے؟ پھر اسے خیال آیا ڈانٹ تو سب سے ہی پڑنی ہے تو امی سے پوچھ لیتی ہوں ان سے ڈانٹ کھانے کی سب سے زیادہ عادت ہے تو سب سے کم بے عزتی محسوس ہوگی۔ آنکھیں بند کرکے دو تین گہرے سانس لیئے اور ہمت جمع کرکے کچن میں چلی گئی۔
"امی !”
"ہمم”
امی چولہے پہ کچھ پکانے میں مگن تھیں۔
"یہ ب۔۔۔ کل جو تحفہ ملا اس میں سے موبائل نکلا ہے” وہ باسط کہتے کہتے جھجھک گئی۔
"ہاں بتایا مجھے بشرہ اور اسماء نے اچھے خاصے گفٹس کھولنا چھوڑ چھاڑ بھاگ کے بتانے آگئیں سب کو”
"اس پہ میسج آرہے ہیں”
"کس کے”
"جن کا گفٹ ہے” وہ اب بھی باسط کا نام لینے سے کترا گئی۔
"تو میں کیا کروں؟” امی کا مسلسل دھیان چولہے پہ رکھے بھگونے پہ تھا۔
"یہی تو میں پوچھنے آئی تھی کہ میں کیا کروں؟ مطلب جواب دوں یا نہیں”
"کرلو بات منگیتر ہے تمہارا اچھا ہے شادی سے پہلے کچھ ذہنی ہم آہنگی ہوجائے گی بس ایک حد میں رہ کر بات چیت کرنا یہ نا ہو کہ گھر کے کام پڑے ہوں اور شہزادی فون پہ لگی ہوں۔ مجھے نہیں پسند لڑکیوں کا ہر وقت فونوں میں گھسے رہنا۔” جس بات پہ ڈانٹ سننے کی توقع تھی اس پہ تو نہیں پڑی جو غلطی کی ہی نہیں تھی اب تک اس پہ ڈانٹ پڑ گئی۔ بسمہ کمرے میں آگئی۔
"تحفہ تو اچھا ہے مگر بہت مہنگا ہے” بسمہ کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا جواب دے تو دوبارہ یہی میسج کردیا۔
"افف آپ اس پہ کب تک پریشان ہوتی رہیں گی؟ آپ سے بات بھی تو کرنی تھی آپ چاہیں تو میں موبائل واپس منگوا لوں پھر آپ کے ابو یا فہد بھائی کے موبائل پہ کال کرلیا کرونگا آپ سے بات کرنے کے لیئے۔ ٹھیک ہے؟”
"ان کے موبائل پہ تو بہت عجیب لگے گا بات کرنا”
” جی بالکل لگے گا مجھے اندازہ تھا اسی لیئے موبائل دیا آپ کو، اب داد دیں اپنے ہونے والے سرتاج کی ذہانت کی”
"اوہو بس اتنی سی بات پہ ذہانت کے دعوے کرنے لگے” بسمہ ہنس دی۔ بالکل لاشعوری طور پہ وہ ایک دم ہی مطمئین بھی ہوگئی اور کانفیڈنٹ بھی پتا نہیں امی کی اجازت کا نتیجہ تھا یا باسط کے دوستانہ رویئے کا۔
دن گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہوگیا کہ بسمہ جہاں جاتی موبائل ساتھ ساتھ ہوتا۔ جیسے ہاتھ پہ چپک گیا ہو۔ کئی دفعہ برتن دھوتے میں سنک میں گرتے گرتے بچا۔ کبھی آٹا گوندھتے میں آٹے سے لتھڑ جاتا۔ یا سالن پکاتے میں چکنائی سے تربتر ہوجاتا۔ پھر بڑی احتیاط سے صاف کیا جاتا۔ شروع شروع میں سب ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ کرتے رہے اس کی اور باسط کی میسجنگ کے حوالے سے اور پھر ایک دم دادی سے اعتراضات شروع ہوئے اور اسد تک نے اس کار خیر میں حصہ لینا شروع کردیا۔ ان کا اعتراض صرف زیادہ میسجنگ پہ ہوتا تو الگ بات تھی مگر خود اجازت دے کر اب اسے اس قسم کی باتیں سنائی جانے لگیں جیسے اس نے اپنی پسند سے کسی سے چکر چلا لیا ہو۔
کبھی دادی اس کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر قرب قیامت کی پیشنگوئی کرتیں، کبھی امی باپ بھائی کے سامنے بے حیائی پہ ٹوکتیں، کبھی بھیا سستی کا بہانا قرار دیتے۔ جبکہ اس کی کوشش ہوتی کہ اس کی میسجنگ سے اس کا کام متاثر نا ہو۔ کبھی اسد طنز کرتا کہ بسمہ ہائی فائی ماڈرن لڑکی ہوتی جارہی ہے کہ کھلے عام لڑکے سے باتیں کرتی ہے۔ بہنوں کوشکایت ہوتی کہ بسمہ اب ہمیں منہ ہی نہیں لگاتی۔
ہر دفعہ کسی کی بات پہ دلبرداشتہ ہو کر سوچتی کہ اب باسط سے کہہ دے گی کہ میسجنگ بند کریں اب شادی کے بعد ہی بات ہوگی مگر شاید کوئی نشہ تھا جو چھوٹتا ہی نہیں تھا۔ پہلی بار کوئی ایسا ملا تھا جو ہر وقت اس کی ہر بات سننے کو تیار تھا جو اس کی بےوقوفانہ بات پہ بھی فدا ہوتا۔ جو ہر وقت اس کی خوبصورتی اور ذہانت کو کھلے الفاظ میں سراہتا۔ یہ رشتہ گل بانو اور فائزہ کی دوستی سے کچھ الگ ہی تھا۔اس کے رومان پرور تصورات جیسا۔
بسمہ کی راتیں پھر سے تصورات میں گزرنے لگیں۔ بس یہ ہوتا کہ تصورات میں بھی وہ تھوڑا فوٹو شاپ کی مدد لے ہی لیتی۔ اسے ابھی تک باسط کی رنگت پہ تسلی نہیں ہوئی تھی۔
گھر والوں کا رویہ بدلنے کے ساتھ ہی اسے یاد آیا کہ فائزہ سے بات ہوئی تھی اس کی امی سے مشورہ کرنے کی۔ جب تک سب اچھا چل رہا تھا وہ بھولی بیٹھی تھی۔ اب اس کا ارادہ تھا کہ وہ دونوں ہی مسئلوں پہ بات کر لے گی۔ گھر والوں کا رویہ بھی اور باسط کی رنگت بھی۔ ایک دو دفعہ اس نے باسط کو مشورہ بھی دیا کہ وہ وائیٹننگ فیشل کروا لیا کرے یا پھر کوئی فئیرنیس کریم یوز کرنی شروع کردے۔ کبھی باسط مذاق میں بات ٹال جاتا اور کبھی خاموش ہوجاتا کچھ دیر کے لیئے۔ پھر وہ صفائیاں پیش کرنے کی کوشش کرتی کہ اسے مسئلہ نہیں بس لوگ مذاق اڑاتے ہیں اور اسے اچھا نہیں لگے گا کہ کوئی باسط کا مذاق اڑائے۔
کئی دفعہ سوچا کہ اسے نہیں ٹوکے گی مگر پھر کسی گورے ہیرو کو دیکھ لیتی یا گھر پہ کالوں کا مذاق اڑتا دیکھتی تو شدت سے خواہش ہوتی کہ کاش باسط کا رنگ تھوڑا صاف ہوتا۔ پہلے شاید گھر والوں نے لحاظ رکھا ہو مگر اب سب گھما پھرا کر باسط کی رنگت پہ کچھ نا کچھ بولنے ہی لگے تھے۔ اس پہ اسے اور غصہ آتا کہ دیکھ کر بھی خود وہی لوگ آئے تھے اب اسے ایسےسناتے ہیں جیسے اس نے کالے دولہا کی ضد کی تھی۔ اس پہ قنوطیت سی طاری رہنے لگی تھی اسے لگنے لگا ہر بری چیز جان بوجھ کے اس کے حصے میں رکھی جاتی ہے۔ ویسے بھی گھر والوں کو اس کی کوئی خاص پروا تھی نہیں کم از کم یہ ایک چیز تو ڈھنگ کی دے دیتے اسے۔ اب اسے پکا یقین ہونے لگا تھا کہ وہ گھر میں اضافی ہے اور اسے بوجھ سمجھ کے سر سے اتارا جا رہا ہے۔ وہی اسد جو منگنی سے پہلے باسط کی ہر چیز کی تعریفیں کرتا تھا اب بار بار اس کے کمپلیکشن کا مذاق اڑاتا۔ ایک دن وہ واقعی کافی چڑ گئی جب اسد اسے بلا وجہ چڑائے جارہا تھا۔
"تمہارے کالو صاحب کو چمکیلے رنگ پہننے کا اتنا شوق ہے فل ٹائم کنٹراس مار کے آتے ہیں ”
سب اس کی بے تکی باتوں پہ ہنس رہے تھے جس پہ بسمہ کو اور غصہ آرہا تھا۔
"اوپر سے پتا نہیں کس چیز سے منہ دھو کے آتے ہیں یہ لش پش منہ چمک رہا ہوتا ہے باٹا کے جوتوں کی طرح”
"آئے ہاں کبھی کبھی تو واقعی بہت چمک رہا ہوتا ہے اس کا منہ کالا کالا۔” دادی بھی حمایت میں بول پڑیں۔
"تو نہیں کرنا تھا نا یہ کالا کالا پسند۔ بھگتنا تو مجھے پڑے گا ساری زندگی اس کا رنگ بھی اور آپ لوگوں کا طنز بھی۔”
"ارے ارے دیکھو ذرا اس کی گز بھر کی زبان اب ماں باپ کے فیصلوں پہ اعتراض ہوگا۔ بی بی اتنا اعتراض تھا تو خود کوئی شہزادہ ڈھونڈ لیا ہوتا۔ ماں باپ شکل نہیں دیکھتے یہ دیکھتے ہیں کہ بیٹی خوش کہاں رہے گی۔”
"تو مذاق بھی تو آپ لوگ ہی اڑا رہے ہیں” وہ روہانسی ہوگئی۔
"ارے بھائی ہے چھوٹا دو باتیں مذاق میں کرلیں تو ٹسوے بہانے لگیں محترمہ، ارے سسرال میں کیا کیا برا بھلا سننا پڑتا ہے وہ کیسے سہو گی”
” دادی ضروری ہے کہ ایسی سسرال دھونڈی جائے جو کچھ برا بھلاضرور کہے؟”
آج پتا نہیں اسے کیا ہوگیا تھا وہ منہ در منہ جواب دینے کو تیار بیٹھی تھی۔
"لاحول ولا پگلا گئی ہو کیا؟ کوئی جان بوجھ کے ایسی سسرال نہیں ڈھونڈتا اولاد کے لیئے مگر سسرال جگہ ہی ایسی ہے بیٹیوں کو بڑا دل مضبوط کر کے اپنا گھر چھوڑنا ہوتا ہے۔”
"دادی جو لوگ اپنی بیٹی کو محبت دے سکتے ہیں وہ بہو کو کیوں نہیں؟”
"کیونکہ بہو سگا خون نہیں ہوتی”
” نہیں دادی مسئلہ یہ ہے کہ انہیں محبت دینے کی عادت ہی نہیں،چاہے وہ بیٹی ہو یا بہو مجھے کونسا پیار دے دیا آپ لوگوں نے؟ ہاں بس یہ ہے کہ ایسا رویہ بڑے بھیا یا اسد کی بیوی کے ساتھ ہوگا تو وہ چپ کرکے نہیں سہے گی کیونکہ وہ سگا خون نہیں اپنے سگے رشتوں کی شکایت کرتے ہوئے اپنی ہی انا مجروح ہوتی ہے ”
وہ صرف سوچ کے رہ گئی ایک آنسو گال تک آگیا اگلا نکلنے سے پہلے پہلے وہ اٹھ کر کمرے میں آگئی۔تکیے میں منہ دیئے کافی دیر روتی رہی۔ ہر بار روتے ہوئے اسے امید ہوتی کہ کوئی تو چپ کرانے آئے گا۔ مگر سب ایسے اپنے کاموں میں لگے رہتے کہ اسے لگتا اس کو رلانا ہی مقصد تھا شاید تبھی کسی کو اس کے رونے پہ ترس نہیں آتا تھا۔ نا کوئی منانے کی کوشش کرتا نا اپنے غلط رویئے پہ معافی مانگتا۔ آج بھی وہ روئے جارہی تھی کہ موبائل کی ٹون بجی۔ اسے اندازہ ہوگیا کہ کس کا میسج ہے مگر اس وقت وہ اس سے بالکل بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ سارا غصہ ہی اس سے شروع ہوا تھا۔ ناچاہتے ہوئے بھی اس نے میسج کھول لیا۔
"میری زندگی کی روشنی کہاں گم ہے؟”
"جائیں آپ مجھے ابھی بات نہیں کرنی” وہ خود کو جواب دینے سے نہیں روک پائی مگر جواب سختی سے ہی دیا۔
"ارے کیوں بھئی اتنا غصہ کیوں جناب؟”
کچھ نہیں بس اسد سے تھوڑا جھگڑا ہوگیا”
"اوہو یہ تو گڑبڑ ہوگئی۔ ہماری بسمہ کا موڈ خراب ہے اور وہ اتنی دور ہے ”
” پاس ہونے پہ کیا فرق پڑنا تھا”
"وہ تو آپ پاس ہوتیں تو آپ کو پتا چلتا ”
"پھر بھی کیا ہوتا” وہ اپنی ناراضگی بھول بھال کے باتوں میں لگ گئی۔
"ابھی بتاوں گا تو آپ ناراض ہوجائیں گی”
"لو یہ کیا بات ہوئی۔ بتائیں نا باسط”
"نہیں بھئی ابھی بتا دوں گا تو آپ کہیں گی باسط آپ گندی گندی باتیں کرتے ہیں”
"پہلے کبھی آپ کو کہا ہے ایسا”
” پہلے نہیں کہا مگر میں جو کروں گا وہ ابھی بتا دیا تب آپ یہ ضرور کہیں گی ؟” میسج پڑھ کر بسمہ کی کان کی لوئیں تک سرخ ہوگئیں۔
"آپ بد تمیز ہیں بہت، جائیں میں واقعی بات نہیں کر رہی۔”
موبائل سائیڈ میں رکھ کر اس نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔ دو تین دفعہ موبائل مزید بجا پھر خاموش ہوگیا۔ بسمہ کی دھڑکن بہت بڑھی ہوئی تھی اور چہرے پہ آجانے والی مسکراہٹ اب اس سے کنٹرول نہیں ہورہی تھی۔

 

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button