تجھ کو پورا نہیں ملا ہوں میں
آ دھا مجھ میں ہی رہ گیا ہوں میں
تیری محفل میں ذکر میرا ہے
یعنی اب بھی نہیں گیا ہوں میں
آئینے تلملائے جاتے ہیں
اس قدر خوشنما ہوا ہوں میں
اور کچھ وقت چاہئے مجھ کو
اپنے بچوں کا آسرا ہوں میں
ایک قطرہ پلک پہ ٹھہرا ہوا
آدھی مانگی ہوئی دعا ہوں میں
چاند ہوں اور چلتے پانی میں
دیکھ کیسا ٹھہر گیا ہوں میں
کوئی ایسے جدا نہیں ہوتا
جیسے تجھ سے جدا ہوا ہوں میں
کوئی چھت سے بلا رہا ہے مجھے
اور سیڑھی بنا رہا ہوں میں
دل کے اندر دہک رہا ہے کہیں
ایک آنسو جو پی چکا ہوں میں
مجھ پہ طاری ہے موسمِ ہجراں
پھر بھی کیسا ہرا بھرا ہوں میں
کہہ دیا نا پرے رہو مجھ سے
کہہ دیا نا بہت برا ہوں میں