- Advertisement -

آنکھ ہے پر عجب تماشا ہے

حسیب بشر کی ایک غزل

آنکھ ہے پر عجب تماشا ہے
حُسن اور عشق سب تماشا ہے

تُو مجھے چھوڑ کر چلا گیا ہے
یوں سمجھ لو کہ اب تماشا ہے

تیرے جانے سے یہ کھلا مجھ پر
تیرا حسب ونسب تماشا ہے

تجھ سے بہتر تو یہ پرندے ہیں
جو سمجھتے ہیں کب تماشا ہے

تُو تو کہتا تھا آخری ہوں میں
عشق رب ہے تو رب تماشا ہے

تجھ سے مل کر تجھے بتاؤں گا
یہ جو تیرے سبب تماشا ہے

میرے شعروں پہ داد دیتے حسیب
خوش ہوئے یار جب تماشا ہے

حسیب بشر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
انجلاء ہمیش کی ایک اردو نظم