آپ کا سلاماردو تحاریراسلامی گوشہاسلامی مضامین

یقین کامل

یوسف برکاتی کی ایک اردو تحریر

میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کو میرا آداب

یقین کامل کا مطلب ہے مکمل بھروسہ ایمان اور اعتماد اور یہاں یقین کامل کا لفظ اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ اور مکمل ایمان کے لئے استعمال ہوا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ نے صاف اور واضح الفاظ میں کہا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی رشتہ ہو یا کسی سے بھی آپ کا کتنا ہی گہرا اور اچھا تعلق ہو اس پر مکمل بھروسہ کوئی انسان نہیں کرسکتا لیکن اگر انسان اپنے رب تعالی پر یقین کامل کرکے اپنے سارے معاملات اس کے سپرد کردیتا ہے تو پھر وہ معاملات رب تعالی اپنے حساب سے حل فرما دیتا ہے جس طرح اللہ تعالی کے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم اور ان کے گھرانے کے لوگ اپنے رب پر توکل کرکے اپنے سارے معاملات اس پر چھوڑ دیا کرتے تھے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت علی المرتضی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے کبھی مجھ سے کچھ کہا ہی نہیں کبھی فرمائش ہی نہیں کی ایک دن بیمار ہو گئی تو میں قریب بیٹھا تھا تو میں نے کہا فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا زندگی میں تُو نے کبھی کچھ نہیں مانگا اے عزت والے باپ کی عزت والی بیٹی میرا دل کرتا ہے کوئی فرمائش تو کرنا جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے زیادہ زور دیا تو فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کہنے لگی علی کرم اللہ وجہہ الکریم اگر ایک انار مل جائے نا اگر میرا دل کر رہا ہے طبیعت چاہ رہی ہے انار کھانے کو مولا علی شیرِ خدا فرماتے ہیں کہ میں اسی وقت بازارگیا ایک دینار تھا میری جیب میں لہذہ ایک انار خریدلیا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں کہتے ہیں لیکن جب انار خرید کر واپس پلٹا تو ایک بوڑھا شخص ہونٹوں پہ کمزوری میرے باپ دادا کی عمر کا لڑکھڑاتے ہوئے اس کی ہاتھ اور کہنے لگا علی کرم اللہ وجہہ الکریم میں بھوکا ہوں کئی دنوں کا حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میرے پاس وہ ایک ہی دینار تھا جس کا انار آگیا کہتے ہیں میں نے کچھ سوچے بغیر اسی وقت وہ انار نکالا اس شخص کی ہاتھ میں رکھا اور وہاں سے گھر کی طرف چل دیا اور بوجھل قدموں سےجب میں گھر کے اندر داخل ہوا تو پاک رسول کی پاک بیٹی عزت والے نبی کی عزت والی بیٹی صبر والے رسول کی صبر والی بیٹی میرا انتظار کررہی تھی جب میں نے اپنا قدم اندر رکھا دروازے کے تو فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا نے میرا اترا ہوا چہرہ دیکھا تو فرمانے لگی علی کرم اللہ وجہہ الکریم پیسے اللہ کے رستے میں دے آئے ہو؟ خیرات کر ائے ہو؟۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف دیکھا تو میں حیران ہو گیا میں نے کہا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تجھے کیسے علم کہنے لگی مجھے یقین ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انار لینے گئے تھے خرید بھی لیا تھا اور مجھے پتہ ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ میرے ساتھ بے وفائی ہو ہی نہیں سکتی یہ کسی سوالی نے مانگ لیا ہوگا علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ آجائو مجھے انار کھانے سے وہ سکون نہیں ملا جو تُمہارے اللہ رب العزت کے رستے میں دے آنے سے ملا ہے یعنی انار کھانے سے وہ سکون نہیں ملا جو تیرے دینے سے ملا ہے مولا علی مشکل کشاء کہتے ہیں اس کے بعد صبر کر کے میں اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیٹھ گئے تو دروازے پر دستک ہوئی کہتے ہیں میں اٹھ کے دروازے پر گیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دروازے پر کھڑے تھے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ انہوں نے نو عدد انار مجھے دیے کہنے لگے نبی پاک علیہ وآلیہ وسلم نے بھیجے ہیں تو حضرت علی شیرِ خدا فرمانے لگے ہمارے نہیں کسی اور کے ہیں ہمارے نہیں پڑوسی کے ہیں دائیں بائیں دیکھے، کہنے لگے نہیں تمہارے ہی ہیں، فرمانے لگے نہیں، میرے ہوتے تو دس ہوتے۔ کہ اللہ فرماتا ہے
مَنْ جَعَبِ الْحَسَنَةِ فَالَقُواَ شِرُواْ اَمْسَالِحَا
تم ایک نیکی کروگے میں دس کا اجر عطا کروں گا۔ فرمایا میرے ہوتے تو دس پورے ہوتے اگر اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تو میرا یقین کمزور کیسے ہو سکتا ہے؟ میرے ہوتے تو دس ہوتے یہ نو ہے۔ حضرت سلمان فارسی نے جیب میں ہاتھ ڈالا، دسواں بھی نکالا اور کہا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیرے دس ہی تھے میں تو تیرا امتحان لے رہا تھا بس یہ ہی ہے یقین کی دولت اور یہ یقین کی دولت زنجیریں کاٹ دیتی ہے یقین کی دولت انسان کو نواز دیتی۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں سرکار صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب تم اللہ تعالی کے دربار میں لڑکھڑاتے ہوئے آتے ہو تو یوں نہ کہا کرو کہ یا اللہ چاہے تو دے چاہے تو نا دے جب مالک سے مانگو تو کہا کرو یا اللہ تُجھ ہی سے مانگوں گا اور تجھ ہی سے مانگنا ہے اور میں لے کر اٹھوں گا تُو مجھے دے گا فرمایا جتنا تمہارا یقین کامل ہوگا اتنا ہی اللہ تعالی تمہیں جھولی بھر کے عطا فرمائے گا رب العالمین پر جو شخص مکمل بھروسہ اور کامل یقین کے ساتھ جو کچھ مانگتا ہے تو رب تعالی بہت خوش ہوتا ہے اور وہ اپنے بندے کو صرف وہی عطا نہیں کرتا جو وہ مانگ رہا ہوتا ہے بلکہ وہ بھی عطا کرتا ہے جو وہ نہیں مانگ رہا ہوتا اس لئے اپنے سارے مسئلے اپنی ساری حاجتیں اس کے سپرد کردینی چاہئے پھر وہ وہاں سے عطا کرے گا جہاں سے ہمارا گمان بھی نہیں ہوگا ان شاءاللہ ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں جب میرے آقائے نامدار تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی ذات کا اپنے رب تعالی پر اتنا مظبوط اور کامل بھروسہ تھا تو ان کے گھرانے کی کیا بات ان کے صحابہ کی کیا بات اور یہ ہی حال اولیاء کرام کا بھی تھا اب توکل اللہ دیکھیں کہ امام اہلسنت مجدد دین و ملت حضرت امام احمد رضا خان فاضلِ بریلوی علیہ الرحمہ جب پہلی بار حج کی سعادت حاصل کرنے کرنے کے لئیے تشریف لے گئے تو آپ علیہ الرحمہ کی والدہ بھی ساتھ تھی جب حج کے سفر پر پانی کے جہاز سے جایا جاتا تھا جب حج کی سعادت حاصل کرکے واپس آرہے تھے تو راستے میں طوفان آگیا اور طوفان کی شدت اتنی تھی کہ جہاز ہچکولے کھانے لگا لوگوں نے کلمہ طیبہ کا ورد شروع کردیا آپ علیہ الرحمہ کی والدہ بھی گھبرائیں اور کہنے لگی احمد رضا لگتا ہے زندگی کا آخری وقت آگیا ہے اب ہم واپس ژندہ سلامت نہیں پہنچ سکتے ۔

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

جہاز میں موجود اتنے لوگوں میں صرف اور صرف ایک شخص مطمعن اور آرام سے سفر میں مصروف تھے اور وہ امام احمد رضا علیہ الرحمہ تھےاپ علیہ الرحمہ کی والدہ کی طبیعت جب زیادہ خراب ہوئی اور وہ چلانے لگیں کہ اب آخری وقت آگیا ہے تو آپ علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ ماں جی آپ آرام سے بیٹھ جائیں کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ میں نے وہ دعا پڑھ لی تھی جو حدیث میں میرے سرکار صلی علیہ والیہ وسلم نے بتائی تھی کہ کشتی کے سفر پر جانے سے پہلے یہ دعا جو پڑھ لے گا وہ کشتی کبھی ڈوبے گی نہیں اور میرا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کی بات پر مکمل بھروسہ ہے لہذہ آپ آرام سے سوجائیے ہم ان شاء اللہ بحفاظت اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائیں گے اور اسی لئیے یقین جیت گیا اور لوگوں کا شک ہار گیا طوفان تھم گیا اور جہاز کنارے لگ گیا لوگ اپنے اپنے گھروں کی طرف خوشی خوشی چلدئیے ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں یہ تو حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ان کے گھرانے اور اولیاء کرام کی بات تھی اللہ تعالیٰ پر مکمل اور پختہ یقین کامل ہو تو ایک عام انسان پر بھی رب العزت کی کرم نوازیاں جاری ہوجاتی ہیں جیسے کسی شہر میں بنانے والے نے دو عمارتوں کو بالکل ایک جیسا بنایا اور آمنے سامنے تعمیر کیا ایک شخص جو تاروں پر چلنے کا ماہر تھا وہ ایک بڑا تختہ لیکر ایک عمارت کی چھت پر پہنچ گیا اور اس تختے کا دوسرا سرا دوسری عمارت پر رکھ کر اپنے ایک بچے کو اپنے کاندھے پر بٹھاکر وہاں سے چلنا شروع ہوا نیچے موجود لوگوں نے اس کا حوصلہ بڑھانا شروع کیا اور تالیوں سے اس کو آگے جانے کے لئے آواز دیتے رہے اور یوں لوگوں کی حوصلہ افزائی سے وہ دوسری عمارت تک پہنچ گیا
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس کے بعد اس نے نیچے آواز لگائی اور کہا کہ میں اب دوبارہ اسی عمارت پر جانا چاہتا ہوں کیا میں جا سکوں گا ؟ تو لوگوں نے تالیاں بجا کر کہا کہ تم کرسکتے ہو بلکہ تم ہی کرسکتے ہو تو اس نے اپنے بچے کو اپنے کاندھے سے نیچے اتارتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہے تو آپ لوگوں میں سے کوئی اپنے بچے کو اوپر لیکر آئے میں اسے اپنے کاندھے پر بٹھاکر اسی تختے پر چلتے ہوئے دوسری عمارت تک جاتا ہوں اس کی یہ بات سن کر سب چپ ہوگئے اور ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے پھر کچھ ہی لمحوں میں جہاں ہزاروں کا مجمع یہاں یہ منظر دیکھنے کے لئے کھڑا تھا وہاں کوئی نہیں تھا کیونکہ اس شخص کو تو اپنے اوپر اور اپنے رب پر پورا بھروسہ تھا مگر وہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اللہ پر میرا یقین کامل دیکھنے آئے ہیں یا صرف تماشہ دیکھنے کے لئے لیکن لوگوں کو نہ اعتبار تھا اور نہ ہی بھروسہ وہ صرف تماشہ دیکھنے والوں میں سے تھے انہیں اپنے رب پر یقین کامل نہیں تھا ۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اپنے ہر کام میں اپنے رب تعالی پر مکمل یقین اور بھروسہ رکھئیے اور اپنے سارے مسائل ساری پریشانیاں ساری مشکلیں اس کے سپرد کردیں پھر دیکھیں وہ کیسے بگڑی بناتا ہے اور کس طرح دنیا کی زندگی اور آخرت کی زندگی کو سنوار دیتا ہے روایت کے مطابق توکل ایمان کی چابھی ہے اور ایمان توکل کا تالا ہے۔ تالا اسی وقت مفید ہوتا ہے جب چابھی موجود ہو۔ ایمان بھی اسی وقت کارگر ثابت ہوگا جب انسان کے پاس توکل بھی ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہےکہ
وَعَلَى اللَّـهِ فَتَوَكَّلُوا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
ترجمعہ کنزالایمان :
اور اللہ ہی پر بھروسہ کرو اگر تم مومن ہو
اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ
توکل علی اللہ ایمان کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم کو کچھ قابل قدر تحفے دئیے۔ ان اہم تحفوں میں سےایک توکل ہے۔ روایت میں ہے کہ ایک دن جناب جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بعد درود و سلام عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا تحفہ بھیجا ہے جو آپ سے پہلے کسی کو نہیں بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے پوچھا وہ تحفہ کیا ہے تو جناب جبرئیل نے بتایا: وہ صبر، رضا، زہد، اخلاص اور یقین ہے۔ ایک چیز ابھی باقی ہے جو ان سب سے بہتر ہے بلکہ انکی بنیاد ہے اور وہ توکل ہے۔(معانی الاخبار، شیخ صدوق، ص: ۲۶۱)
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں اس روایت سے واضح ہو گیا کہ ہر پسندیدہ صفت کی بنیاد توکل ہے۔ اسی روایت میں آگے بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جناب جبرئیل سے پوچھا۔ اللہ پر توکل کا کیا مطلب ہے ؟ تو انہوں نے کہا: حقیقی توکل یہ ہے کہ انسان جان لے کہ نہ بندہ اسے فائدہ پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، نہ کوئی چیز دے سکتا اور نہ ہی کسی چیز سے روک سکتا ہے۔ اور انسان کا دوسرے انسانوں سے مایوسی (یعنی امید صرف پروردگار سے ہو) توکل ہے۔
( بحارالانوار، جلد۶۸, صفحہ۱۳۸)

میرے واجب الاحترام پڑھنے والو

انبیاء کرام اور ان کے بعد آنے والے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے اللہ تعالیٰ پر مکمل یقین کامل اور توکل کے امتحانات کے تذکرے تاریخ اسلام میں بھرے پڑے ہیں اولیاء کرام اور بزرگان دین کی زندگیاں بھی اللہ تعالیٰ پر یقین کامل اور مکمل توکل پر گزرتی رہی ہیں اور آج بھی ہمارے درمیان ایسے لوگ موجود ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ سے محو گفتگو رہتے ہیں اپنے سارے دکھڑے اور مسائل کو اس رب کی بارگاہ میں ہی پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کیونکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہمارا کوئی سننے والا اور کرنے والا نہیں ہے۔
میرے واجب الاحترام پڑھنے والوں ہمیں بھی اپنے سارے مسائل کو پریشانیوں کو دکھ اور تکلیفوں کو اس رب تعالی کے سپرد کرکے اس پر یقین کامل مظبوط کرنا ہوگا اگر ہم اپنے توکل اللہ پر مظبوط رہے اپنے سچے ایمان کے ساتھ تو ہمارے سارے مسائل وہ رب ایسے حل کرے گا جس کا ہمیں گمان بھی نہیں ہوگا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یقین کامل کی دولت سے سرفراز فرمائے اور اپنے اوپر توکل کرنے کی ہمت اور طاقت عطا فرمائے ہم سے صرف اپنی مرضی اور اپنی منشاء کے مطابق کام لینے کی توفیق عطا کرے آمین آمین بجاء النبی الکریم صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم ۔

 

یوسف برکاتی

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button