- Advertisement -

پاکستانی اُردو ناول

معاشرتی مسائل کی ترجمانی:اجمالی جائزہ

امامہ ریاست
اسکالر،پی ایچ ۔ڈی،اُردو
نادرن یونی ورسٹی, نوشہرہ،خیبر پختون خوا
پروفیسر محسن خالد محسنؔ
لیکچرار،شعبہ اُردو
گورنمنٹ شاہ حسین ایسوسی ایٹ کالج،لاہور
پاکستانی اُردو ناول میں معاشرتی مسائل کی ترجمانی:اجمالی جائزہ
An Review of Interpreting Social Issues in Pakistani Urdu Novels

 

اللہ تعالیٰ نے اپنی بنائی ہوئی اِس حسین و جمیل کائنات میں انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دے کر بھیجا اور اہلِ عقل والوں کے لئے بے شمار نشانیاں چھوڑیں جو اُنہیں غور کرنے، سوچنے اور سمجھنے پر اُکساتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی دماغ ہمہ وقت ان گنت افکار و خیالات کی آما جگاہ بنا رہتا ہے۔
انسان کے اندر مچلنے والے جذبات و احساسات کی ترسیل و اظہار کا بہترین ذریعہ ادب کو مانا جاتا ہے کہ جس کے ذریعے انسان اپنی سوچ کو الفاظ کا جامعہ پہناتے ہوئے تحریر کی صورت میں سامنے لاتا ہے اور اپنا مقصد حیات و مُدعا بیان کرتا ہے۔
اُردو زبان و ادب کے حوالے سے بات کی جائے تو اس میں بے شمار ادیب و مصنف ایسے ہیں جنہوں نے نہ صرف اس کو انفرادی اسلوب نگارش سے نوازا بلکہ بہت سی اصناف ادب کو بھی متعارف کروایا جن میں اُردو ناول بے حد اہمیت کا حامل ہے۔
یو ں تو ہر صِنف ادب ہی قابلِ تعریف اور منفرد مقام کی حامِل ہے لیکن ناول اپنی ہیت، وسعت اور جامعیت کے اعتبار سے ایک مسلم حیثیت رکھتا ہے۔ ناول کے ذریعے نہ صرف بے شمار تہذیبی ، معاشرتی ، معاشی ، مذہبی ، نفسیاتی اور اسی طرح کے اور بہت سے مسائل و رویوں کی عکاسی ہوتی ہے بلکہ افراد معاشرہ ان کی عکاسی و نشاندہی کرنے والے قابل قدر ، عظیم و منفرد حیثیت کے حامل قلم کاروں اور علمی و ادبی معماروں سے بھی روشناس ہوتے ہیں۔
یہ لوگ ہمارے ملک کا نہ صرف بہت قیمتی سرمایہ ہیں بلکہ انہی کی بدولت معاشرے میں بسنے والے لوگ اِن کی تخلیقات و تحقیقات کے باطن میں چھُپے ہوئے اسباق کو سمجھتے ہوئے معاشرہ کے مفید رکن بن کر اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
قدیم واقعات اور ماضی کے حالات کو سننے اور سنانے کا عمل برسوں سے انسانوں کو اچھا لگتا ہے۔ عمر میں کوئی بھی منزل ہو انسان میں کہانی سننے اور کہنے کا شوق پایا جاتا ہے۔یہ ا نسان کی سرشت میں شامل ہے کہ ایسی باتوں پر زیادہ دھیان دیتا ہے جو اسے ان دیکھی اور ان جانی دنیا ؤں کی سیر کروائیں اور اس کے جذبات کی عکاسی کریں ۔
خاص طور پرایسے واقعات جن سے اس کی تشنہ خواہشات کی تکمیل کا پہلو نکلتا ہو اور اس کے جذبات کو تسکین ملتی ہو۔ ایسے واقعات انسان کو ہمیشہ سے متاثرکرتے رہےہیں جو ظالم کو ظلم سے روکیں اور مظلوم کے مددگار ہوں۔قصہ گوئی کا فن تہذیب انسانی کا اہم عنصر ہے ۔ جب ایک انسان نے دوسرے انسان کو اپنے دن بھر کے تجربات سنائے تواسی دن سے قصہ خوانی کی داغ بیل پڑی ۔
سب سے پہلے کہانی سنانے کی ابتدا کب ہوئی ؟ اس کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہے ۔آسمانی صحائف سے یہ بات سامنے آئی کہ جو گزری ہوئی قوموں کے واقعات بیان ہوئے ہیں وہ بھی کہانی کے انداز میں ہیں۔یہ کہانیاں سن کے انسان کے طبعی رجحان کو تسکین ملتی ہے۔ انسان کو ان واقعات کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان کو توجہ سے سن کر اپنی اصلاح کا سامان کرے ۔کہانی کی اہمیت اور دلچسپی کا ثبوت ہمیں دنیا کی تمام مذہبی اور الہامی کتابوں سے بھی ملتا ہے مثال کے طور پر قرآن مجید میں حضرت یوسفؑ کے قصے کو احسن الاقصص کہا گیا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو انسان نے سب سے پہلے جس ادبی صنف میں دلچسپی لی وہ کہانی ہی ہے۔قصہ گوئی یا کہانی سے داستان کا سفر شروع ہوتا ہے۔اردو ادب میں داستانوں کارواج سترویں صدی میں ہوا تھا۔کہانی سے داستان کا سفر شروع ہوا تو داستان سے آگے ناول نے اپنے سفر کا آغاز کیا ۔ حقیقت سے دور ہونے کی وجہ سے داستانوں نے اپنی قدر و منزلت کھو دی چنانچہ اب اردو میں ناول نگاری نے اپنی جگہ بنانا شروع کی ۔
ناول نگاری کو قصہ نگاری کی ایک ترقی یافتہ شکل کہا جاتا ہے۔ناول اطالوی زبان کا لفظ ہے جو اردو میں انگریزی کے توسط سے آیا۔ اطالوی زبان میں اس کے لیے Novella کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ ناول کے لغوی معنی انوکھا ،نرالہ،عجیب اور نیا کے ہیں۔ناول سے مراد وہ نثری کہانی ہے جس میں کسی خاص مقصد کے تحت زندگی اور اس کے متعلقات کی حقیقتوں کی ترجمانی کی جائے ۔ناول نےاس وقت جنم لیا جب داستانیں بدلتی اقدار کا ساتھ دینے سے معذور ہوگئیں ،تاہم اپنے مخصوص انداز اور جدت کے باوجود ناول کہانی ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے اور آج بھی ناول قصہ گوئی کے بعض اصولوں کو برت رہا ہے۔
ہر دور میں ہر بڑے ناول نگار نے اس پہلو کو ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ناول میں زندگی کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے اس ضمن میں چند ماہرین کی نظر میں ناول کی تعریفات دیکھئے:
"انگلستان کی ایک ادیبہ کلازیوز کے نزدیک ناول اس زمانے کے معاشرت اور زندگی کی سچی تصویر ہے جس زمانے میں وہ لکھا جائے۔ ” 1؎
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی مندرجہ ذیل تعبیر کو ایک حد تک ناول کی اصطلاح کا کامیاب تعارف قرار دیا جا سکتا ہے:
"ناول سے مراد سادہ زبان میں ایسی کہانی ہے جس میں انسانی زندگی کے معمولات اور روزانہ پیش آنے والے معاملات کو اس انداز میں بیان کیا جائے کہ پڑھنے والے کو اس میں دلچسپی پیدا ہو ۔ یہ دلچسپی پلاٹ ،منظر نگاری ،کردار نگاری اور مکالمہ نگاری سے پیدا کی جاتی ہے اور یہی ناول کے بنیادی عناصر ہیں ان میں پلاٹ اور کردار نگاری خاص طور پر اہم ہیں۔”2؎
ممتاز حسین یہ اظہار کرتے ہیں:
"علمی کتابیں بے شمار موضوعات پر لکھی جاسکتی ہیں لیکن ناول کا موضوع ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے زندگی”3
ناول ایسی بصیرت کا حامل ہے جو انسان کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ناول زندگی کا عکاس ہوتاہے اور ایک کامیاب ناول وہی ہوتا ہے جو اپنے جلومیں زندگی کو لے کر چلتاہے۔معاشرہ ہر وقت تبدیلوں کے عمل سے گزرتا ہے اور ناول ان تبدیلوں کا ساتھ دیتا ہے ۔ اصل میں ناول ایک ایسی صنف ہے جو ہر وقت تبدیلوں کے عمل سے گزرتی ہے ۔
ناول کا اصل موضوع انسانی زندگی اور اس کے متعلقات ہیں اور یہی خوبی اسے دیگر اصناف ادب سے ممتاز کرتی ہے۔ ناول کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے ۔ناول کے لیے پلاٹ اور کردار نگاری دو اہم عناصر کو ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ناول میں کچھ اشخاص کی ضرورت ہوتی ہے جن کو بعض واقعات پیش آئےچنانچہ پلاٹ اور کردار دونوں کی اہمیت مسلمہ ہے لیکن دورجدید میں بعض ایسے ناول بھی کامیاب قرار پائے جن میں پلاٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایسے ناولوں میں قاری کی تمام دلچسپی کرداروں میں ہوتی ہے ۔ ناول بلآخرقصہ کہانی کی ہی ایک شکل ہے چنانچہ ہر کہانی کی طرح ناول میں بھی تخیل کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ناول نگاری کا مطمع نظر حقیقی زندگی کو پیش کرنا ہوتا ہے ۔ ایک بڑا ناول نگار زندگی کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھ کر پیش کرتا ہے ۔ فلسفہ حیات اور کہانی کے حوالے سے علی عباس حسینی لکھتے ہیں:
"قرآن مجید کو لیجئے جہاں پر قصہ اور حکایتیں آتی ہیں ۔ ان سے کچھ نتائج مرتب کئے گئے ہیں ۔ کہیں پر ہم کو ڈرانے کے لیے کسی قوم کی بربادی بیان کی گئی ہے اور کہیں ہمیں ہمت دلانے کے لیے مرحوم امتوں کا تذکرہ کرکے اپنے برگزیدہ بندوں کی مدد کا وعدہ فرمایا ہے ۔ آتش نمرود کو گلزار ابراہیمی بنا کر اپنے خلیل پر لطف و کرم کی بارش کی گئی ہے ۔یوسف اور زلیخا کے افسانے کا بیان جذبہ جنسی زورِارتقا کا معرکہ ہے ۔حضرت یعقو بؑ کا اپنی آنکھوں کو روزن دیوار زندان بنا لینا افراط محبت کی خرابیاں ، غرض حضرت ایوبؑ، حضرت سلیمان ؑ ،حضرت صالح ؑ ، حضرت الیاس ؑاور حضرت خضر ؑ جس کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کی بھی حکایت بیان کی گئی ہے صرف اس لیے کہ ہم اس سے ایک سبق حاصل کریں ایک خاص طرح کا نتیجہ نکالیں”۔4؎
کسی ناول میں فلسفہ حیات پیش کرنے کے لیے ناول نگار سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ ماہر نفسیات بھی ہو، ماہر تعلیم بھی ،ماہر سیاسیات بھی اور ماہر اخلاقیات بھی ہو۔اپنے مذہب ، فلسفے، معیشت،اخلاق، معاشرے،عادات و اطوار ، اجتماعی اور انفرادی رجحانات،اور میلانات پر اس کی گہری نظر رہی ہو۔
ہمارے ہاں ناولوں کی بہت سی اقسام بھی پائی جاتی ہیں مثلاً رومانوی ناول سے مراد وہ ناول ہیں جن میں قصے کا دارومدار پلاٹ پر ہوتاہے۔ اس میں زندگی کی ترجمانی پر زور نہیں دیا جاتا بلکہ تفریح کا عنصر نمایاں رہتا ہےاور ایک لحاظ سے یوں کہہ لیں کہ زندگی سے فرار کی کوشش کی جاتی ہے۔ایسے ناولوں میں تاریخی ،پراسراری،رزمی ، عاشقانہ اور سیاحتی موضوعات ملتے ہیں۔رومانوی ناولوں میں واقعات پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ ایسے ناولوں میں عجائب نگاری، مثالیت پسندی، بزم آرائیاں، اخلاق آموزی، محبت شعاری ،حسن آفرینی اور تخیل کی بلند پردازی ملتی ہے۔ نفسیاتی ناول ناولوں کی دوسری بڑی قسم ہے۔ اس میں تخیل کے بجائے حقیقت نگاری کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔
ناول نگار تصورات کی دنیا میں کھویا نہیں رہتا بلکہ وہ اپنی تخلیق میں اپنے گرد و پیش کو اصل صورت میں پیش کرتا ہے۔ اس کا موضوع جیتا جاگتا معاشرہ اور چلتی پھرتی دنیا ہوا کرتی ہے۔ ایسے ناولوں میں کسی ملک کے رسم ورواج،مشاغل و معمولات ،آداب،عقائد اور رجحانات وغیرہ کی ہو بہو تصویر پیش کی جاتی ہے۔ شخصی سیرت بیان کرتے ہوئےاس کو داخلی وخارجی زندگی کا تصادم دکھا کر ارتقائی کردار کا نقشہ کھینچا جاتا ہے یا تحلیل نفسی سے کام لے کر ہمارے لاشعور کی گھتیاں سلجھائی جاتی ہیں۔تبلیغی یا اخلاقی ناول میں مذہبی اور اخلاقی سبق دیا جاتا ہے۔ علمی ناول میں تعلیمی مسائل سمجھائے جاتے ہیں۔ اسراری ناول میں اسرار ،جادو یا کسی راز کے انکشاف پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔
تاریخی ناول میں کسی تاریخی واقعہ کا بیان ہوتا ہے۔ مہماتی ناول میں معرکہ آرائیاں دکھائی جاتی ہیں۔ عشقیہ ناول میں حسن و عشق کی داستان بیان کی جاتی ہے۔سیاحتی ناول میں بری، بحری اور ہوائی سفر اور نئے نئے ملکوں کے حالات درج ہوتے ہیں اور سائنسی ناول میں عصر حاضر کی ایجادات اور سائنسی امکانات کا نقشہ کھینچا جاتا ہے۔۔ ناول وسیع ا لظرف متنوع فطرت کے تحت کسی بھی نئی صورت میں منقلب ہونے کی صلاحیت اپنے اندر رکھتا ہے۔ قصہ گوئی کا آغاز بلاشبہ داستان اور حکایت کی صورت میں ہوا اور مختلف زبانوں میں مختلف خصوصیات اختیار کرتا ہوا بتدریج ایک منفرد ہیئت کی شکل اختیار کر گیا۔
معاشرہ معاشرت کے لفظ کی ایک شکل ہے جس کے معنی مل جل کر زندگی گزارنے کے ہیں۔ عمرانیات کے نقطہ نظر سے معاشرے کی اصطلاح ایک مخصوص معنی کی حامل ہے اسے وسیع و غیرمحدود دونوں معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ وسیع مفہوم کے مطابق تمام نسل انسانی کو معاشرے سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن محدود مفہوم میں اس سے مراد وہ گروہ لیا جاتا ہے جو کچھ لوگوں یا خاندان پر مشتمل ہوتا ہے۔انگریزی زبان میں معاشرے کے لیے سوسائٹی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈکشنری آف سوشیالوجی اینڈ ریلیٹڈ سائنس نے معاشرے کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
“Society is a group of human beings co-operating in the pursuit of several of their major interest, invariably including self-maintenance and self- perpetuation. The concept of society includes continuity, complex associational relationships, and a composition including representatives of fundamental human types, specifically men, women, and children. There is also ordinarily the element of territorial establishment. Society is a functioning group, so much so as to be frequently defined in terms of relationships or processes. It is the most basic large-scale human group. It is to be sharply differentiated from fortuitous or temporary or non-representative groups or aggregations such as a mob, the passengers on a steamship, the spectators at a ballgame, or the inhabitants of an army camp”. 5
انسان سماجی حیوان ہے،معاشرے میں رہنے کی وجہ سے وہ انسان ہے اور معاشرے سے باہر وہ حیوان ہے یعنی معاشرہ انسان کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت میں لاتا ہے اور یہ عمل تربیت کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ایسی جگہ جہاں انسان اپنے جسم و جان کی حفاظت کے لئے اور اپنی نسل کی بقا کے لیے اقدامات کرے اسے معاشرہ کہا جاتا ہے اور اسی بنا پر معاشرت اور معاشرتی زندگی وجود میں آتی ہے۔
انسان کی تخلیق اس طرح سے ہوئی ہے کہ وہ اکیلا نہیں رہ سکتا بلکہ دوسرے کا مستقل حاجت مند رہتا ہے۔ گروہی زندگی انسان کے لیے ناگزیر ہے اسی بنا پر معاشرہ اور معاشرتی زندگی نے جنم لیا۔انسان کی خواہش ہے کہ اس جیسا انسان ہمیشہ اس کے ساتھ رہے اس کی دو وجوہات ہیں پہلی تو یہ کہ ایک متضاد صنف کے ساتھ تعلق نسل انسانی کی بقا کے لیے ضروری ہے ابتدا میں انسان نے بالکل تنہائی کی زندگی بسر کی۔ وہ ہمیشہ دوسرے انسانوں سے اس لئے خائف رہتا تھا تا کہ کہیں کوئی دوسرا انسان اس کو نقصان نہ پہنچا دے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان ایک دوسرے کے عادی ہوتے گئے اور بالآخر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پر امن زندگی گزارنے لگے اور اسی طرح معاشرہ وجود میں آیا ۔انسان نے ہمیشہ خود کو قدرتی طاقتوں کے سامنے بےبس پایا اس لیے انسان نےگروہی زندگی اختیار کی اور اسی گروہی زندگی کے سبب معاشرہ وجود میں آیا۔
انسان نے ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ضرورت محسوس کی ۔معاشرہ انسانی جسم کی مانند ہے۔جس طرح انسانی اعضا ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے پر انحصار کرتے ہیں اسی طرح معاشرے کے ادارے اور گروہ ایک دوسرے کے بغیر مکمل نہیں رہ سکتے۔ معاشرے میں لوگ ایک لمبے عرصے تک ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے خود کو ایک دوسرے کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں اور ایک منظم اکائی بن جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں ارتقا یعنی ترقی ہونا ایک فطری عمل ہے۔ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد اپنی بنیادی ضروریات کے پیش نظر ایک دوسرے کی بنیادی احتیاجات مثلاً خوراک لباس ،اور رہائشی سہولیات کے ساتھ ساتھ معاشرتی میل جول اور لاتعداد نفسیاتی تقاضوں میں شامل ہوتے ہیں ۔
جس معاشرے میں ان تمام بنیادی ضروریات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے، اس معاشرے کا ایک فرد بھی اس کی بہتری کے لیے کام نہیں کر سکتا اور اس طرح انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں تضاد پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورتحال معاشرے کی ترقی کو درہم برہم کر دیتی ہے ۔اس حالت میں معاشرتی ادارے ایسی صورتحال سے نمٹنے اور معاشرہ اور اس کے افراد کی فلاح و بہبود کی خاطر سرگرم عمل رہتے ہیں۔ افراد کی تمام تر جائز سماجی ،ثقافتی، معاشی و جذباتی خواہشات و ضروریات کی تسکین کا ذریعہ معاشرہ بنتا ہے۔معاشرہ کو انسانی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے معاشرہ اجتماعی زندگی کی اساس ہے۔
اس معاشرے کے لوگ ایک دوسرے کی غمی خوشی اور دکھ درد میں ایک دوسرے کا بھرپور ساتھ دیتے تھے ۔اس معاشرے میں تعلیم کا معیار انتہائی پست تھا ، حد سے حد پرائمری سکول تک تعلیم کے بعد بچوں کو کام پر لگا دیا جاتا تھا یہی وجہ ہے کہ موچی کا بیٹا موچی ،کمہارکا بیٹا کمہار، لوہار کا بیٹا لوہار اور مزارع کا بیٹا مزارع ہی بنتا تھا۔تعلیمی پسماندگی کی وجہ سے یہ لوگ کسی بھی معاشرتی تبدیلی کو جلدی قبول نہیں کرتے اورلوگ اپنی مذہبی روایات اور اقدارپر بھی کسی قسم کا سمجھوتہ کرنےکے قائل نہ تھے۔
دنیا میں اکثر ایسے معاشرے بھی پائے جاتے ہیں جن کی آبادی انتہائی کم ہے اور ان کے افراد ایک ہی مقام پر رہائش اختیار کرتے ہیں۔ ایسے معاشروں کو اقامتی معاشرہ کا نام دیا گیا۔ یہ معاشرہ تعلیم کی کمی کے باوجود ثقافتی اور مذہبی اقدار کا محافظ ہوتا ہے۔روایتی معاشرے کی نسبت جدید معاشرے میں ترقی کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ جدید معاشرہ روایتی معاشرے کے متضاد خصوصیات کا حامل ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور دیگر ترقی یافتہ معاشرے جدید معاشرہ کی اہم مثالیں ہیں۔
جدید معاشرہ صنعتی ترقی پر قائم ہوتا ہے۔ اس معاشرے میں تعلیمی ترقی عام پائی جاتی ہے اور بے شمار معاشرتی ادارے بھی پائے جاتے ہیں ۔ہر بڑے ادارے میں بہت سے چھوٹے ادارے پائے جاتے ہیں۔ اس معاشرے میں مختلف معیار تعلیم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ملازمت کے بے شمار اور بہتر مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔جس طرح انسانی معاشرہ میں مختلف پیشوں کی صورت میں کاموں کو آپس میں بانٹا جاتا ہے اسی طرح حیوانات میں بھی یہ سلسلہ پایا جاتا ہے مثلاً اگر ایک پرندہ گھونسلہ بنانے کے لئے تنکے جمع کرتا ہے تو دوسرا روزی رزق کی تلاش میں اِدھر اُدھر نکل جاتا ہے۔اگر چیونٹیوں کی زندگی پر غور کریں تو یہاں بھی خوراک جمع کرنے کے لیے ایک گروہ موجود ہوتا ہے ۔ان کی ملکہ ان کی حفاظت کا انتظام کرتی ہے ۔
انسانوں کی طرح جانوروں میں بھی تقسیم کار، تعاون اور ذات پات کا نظام پایا جاتا ہے نیز حیوانات میں بھی انسانوں کی طرح حاکمیت کا عنصر بھی پایا جاتا ہے اور اسی طرح اپنائیت کا بھی۔انسانی معاشرے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے گروہ کو مضبوط رکھتا ہے اور ان میں پھوٹ نہیں پڑنے دیتا بالکل اسی طرح حیوانات بھی اپنی گروہی زندگی کو قائم رکھتے ہیں ۔حیوانات اور پرندوں کے گروہی ارکان میں باہمی تعاون پایا جاتا ہے۔
معاشرہ چاہے انسانی ہو یا حیوانی ایک نظام کے تحت چلتا ہے اور اسی نظام کو معاشرتی نظام کہتے ہیں ایک معاشرہ اور ایک قوم کی خصوصیت،عادات و اطوار ،اس کا طرز فکر ،اس کا دینی نظریہ اور اس کے اہداف و مقاصد اس معاشرے کی تہذیب کی بنیاد ہوتے ہیں یہی وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ایک قوم کو شجاع ،غیور اور خودمختار بناتی ہیں اور ان کا فقدان قوم کو بزدل اور حقیر بنا دیتا ہے ۔تہذیب قوموں کے تشخص کا سرچشمہ ہے۔ اس کے دو حصے ہیں ایک حصہ امور اور مسائل سے تعلق رکھتا ہے جو ظاہر و آشکار ہیں مثلاً لباس کیسا ہے؟ لباس کو کیسے پہنا جائے؟ گھر کس طرح بنایا جائے اور رہن سہن کا طریقہ کیا ہو ؟یہ سب چیزیں معاشرے کی ظاہری تہذیب کا آئینہ ہیں۔ تہذیب کا دوسرا حصہ وہ ہے جو کسی قوم کی جذباتی اور روحانی زندگی سے تعلق رکھتا ہو۔
اگر کسی قوم کو اس کے تہذیبی تشخص سے دور کیا جائے تو وہ زیادہ دیر تک اپنا وجود قائم نہیں رکھ پاتی۔مشترکہ قواعد و ضوابط اور اقدار کی تشکیل ایک دم اچانک نہیں ہوجاتی بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔کسی معاشرے کے اقدار،روایات اور ترجیحات افراد کے باہمی لین دین اور تبادلہ خیال کے ساتھ ساتھ ان کی مکمل معاشرتی اور سماجی زندگی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ان اقدار کو تہذیب کی شکل اختیار کرنے کے لیے صدیوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے۔
فردایک ایسی واحد اور ناقابل تقسیم ہستی ہے جس کی اپنی ایک الگ انفرادیت اور پہچان ہوتی ہے اور یہی اجتماعی حیثیت میں معاشرتی زندگی کا ڈھانچہ ترتیب دینے، اسے منظم رکھنے اور اسے چلانے کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور ریاست کے ان تمام اداروں کا بنیادی مقصد فرد کی فلاح و بہبود ہے۔یہ تمام تر ادارے سماجی، اخلاقی ،معاشی اور مذہبی اصول و قواعد فرد کے لئے اور فرد سے ہی ہیں۔خاندان ،گروہ، قبیلے، جماعت ،قومی اور معاشرتی ادارے افراد کے اجتماع کی مختلف صورتوں کے نام ہیں اور اگر فرد کا وجود نہ ہو تو یہ تمام معاشرتی ادارے اپنی افادیت واہمیت اور وجود بھی کھو دیتے ہیں۔
کسی معاشرے کی تہذیبی،معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا تمام تر ڈھانچہ فرد سے فرد کے لیے تشکیل پاتا ہے اور ان کا مقصد فرد کے انفرادی اور اجتماعی حقوق و فرائض اور آزادی کا تحفظ ہوتا ہے تاکہ فرد کی جذباتی،روحانی، جسمانی، معاشرتی اور معاشی ضروریات کی تکمیل ہو سکے۔معاشرے ،تہذیب اور ثقافت کی تخلیق کے پیچھے فرد کی ذات کارفرما تھی کیوں کہ تنہا حیثیت میں فرد بالکل بے یارو مددگار ہے اس لیے اس نے مل جل کر رہنے اور آپس میں تعلقات کو تشکیل دینے کی کوشش کی اور معاشرہ اسی کوشش کا نتیجہ ہے۔
معاشرہ کسی تہذیب کے آغاز اور بقا کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مختلف جماعتوں اور گروہوں کے دھار ے آپس میں ملتے ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ اپنی انفرادی تہذیب سے پہچانا جاتا ہے اور تہذیب معاشرے کی ضروریات، عقائد نظریات اور ترجیحات کے مطابق ڈھلتی ہے ۔
معاشرے سے مراد ایسی اکائی لی جاتی ہے جس میں افراد کو سیاسی ، معاشی، اخلاقی، مذہبی اور جغرافیائی حوالے سے یکساں سطح پر مساوی اہمیت اور مقام دیا جاتاہے۔معاشرے کے سماجی عناصر ترکیبی یعنی مشترکہ ثقافت زبان ،رنگ و نسل، علاقائی وحدت ، مذہب اور روایات، اقتدار افراد کو ایک تعلق فراہم کرتے ہیں یہی تعلق افراد کی اکائی کا باعث اور اشتراک عمل کی بنیاد بنتا ہے۔ بقول خالد علوی:
"انسان فطری طور پر معاشرت پسند ہے ۔اسی فطری تقاضے اور خارجی ماحول کی ضروریات نے اسے اجتماعی زندگی بسر کرنے پر مجبور کیا۔” 6؎
ایک تہذیبی معاشرتی ڈھانچہ انسان کی اجتماعی زندگی کا اولین تقاضا اور اس کی فطرت کی ضرورت ہے جب کہ تہذیب فرد اور اس کی اجتماعی زندگی کا ایک منضبط نظام ہے جو اس کو اجتماعی زندگی کے لئے قواعد و ضوابط مہیا کرتا ہے۔ تہذیب کی تشکیل میں فرد انفرادی طور پر ہویا معاشرے کی اجتماعی صورت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہےجب کہ معاشرہ، تہذیب ،فرد اور معاشرے کی مشترکہ اقدار و ضروریات اور رسوم و رواج اورجغرافیائی مذہبی اور انسانی ضروریات کی تسکین کرتے ہوئے انہیں ایک انفرادی شناخت عطا کرتی ہے جو معاشرے کو منظم کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل کا نام ہے۔
زندگی اور ادب کو الگ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ادیب جب تک اپنے اردگرد کے ماحول اور معاشرے سے وابستہ نہیں ہوگا وہ کبھی کوئی ایسی تخلیق نہیں لاسکتا جو قاری کو متاثر کرے کیوں کہ کہ حق اور مقصدیت کے لبادے میں لپٹی ہوئی بات خیالی اور تصوراتی سوچ سے زیادہ اثر رکھتی ہے۔انسانی فطرت اور انسانی زندگی کو سمجھنے کے لیے مختلف علوم و فنون مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ ادب چوں کہ انسانی زندگی اور فطرت کے لازوال خزانوں کا امین اور مختلف احساسات و واقعات کا مر قع ہوتا ہےاسی لئے اس کے ذریعے انسانی زندگی کی مختلف صورتوں، مزاجوں ، عادتوں ، رویوں اور حالات سے آگہی ہوتی ہے۔
ادب کا بنیادی وظیفہ انسان کا مطالعہ ہے۔ شاعری ، ڈرامہ، ناول اور افسانہ وغیرہ میں انسانی زندگی اور فطرت کا لہجہ، رنگ اورتصویر پیش کی جاتی ہے ۔ادب کامعاشرے سے بہت گہرا تعلق ہے۔ادب کے ذریعے اخلاقی ,مذہبی اور معاشرتی قدروں کی تبلیغ ہوتی ہے .اور ان قدروں کو پھلنے پھولنے اور معاشرے میں نافذ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ادب چوں کہ انسان تخلیق کرتے ہیں اس لئے اس میں واقعات و حالات بھی انسانی زندگی اور معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔
انسانی معاشرہ جن اصولوں پر قائم ہوتا ہے وہ اس کی اقدار کہلاتی ہیں ۔ ہر زمانے میں زبان نئی لفظیات واضح کرتی ہے جس میں اس زمانے کے سیاسی و تمدنی اور ثقافتی ، رجحانات ،میلا نات اور موضوعات کو پیش کیا جاتا ہے ۔پرانے الفاظ سے دامن چھڑا تی اور لفظوں کو نئے موضوعاتی آفاق سے روشناس کرتی ہے ۔ادب ان کے مختلف نمونوں کا محافظ ہوتا ہے ۔اس لیے کسی بھی علاقے یا معاشرے اور قوم کی زبان کے عہد بہ عہد صورتحال سے واقفیت کے لئے ادب سے بڑھ کر کوئی وسیلہ نہیں ۔
ادب کے ذریعے ہی انسان کے جمالیاتی ذوق کی نشوونما ہوتی ہے ۔ ادب انسان کی تربیت کرتا ہے اور اسے اچھائی برائی کی تمیز دیتا ہے اور اس کے اندر کو کثافتوں سے پاک کرکے اُجلا کر دیتا ہے۔دنیا کے ہر ادب کی ابتدا شاعری سے ہوئی ۔انسانی جذبات کے اظہار کا ذریعہ شعر ہی تھا۔ اس صنف کی تاریخ نثر کے مقابلے میں بہت قدیم ہے ۔یہاں تک کہ لکھنے کی تاریخ سے پہلے بھی شعروشاعری موجود تھی۔
اردو ادب میں فارسی اور عربی کے اثرات زیادہ ہیں کیوں کہ قدیم ادوار سے ہی عربی اور فارسی میں شاعری کی جاتی تھی۔ اردو میں نثری خزانہ عہدِ قدیم سے خالی نظر آتا ہے اگر کہیں کچھ ملتا ہےتو وہ بھی فارسی داستان کا ترجمہ ہے۔ جدید اردو نثر کی ابتدا انیسویں صدی سے ہوئی ہے۔جب ڈاکٹر گلکرسٹ نے فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی ۔ اس کے بعد خطوط غالب نے اردو نثر کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا لیکن حقیقی ترقی 1857ء کے بعد تحریک سر سید کی وجہ سے ہوئی۔
1857ءکے بعد نئے صنعتی نظام کی آمد اور مغربی ادب کے اثرات کے تحت جونئی اصناف ہمارے ادب میں مقبول ہونا شروع ہوئیں ان میں ناول ایک اہم صنف ہے ۔اٹھارویں صدی کے نثری سرمائے نے انیسویں صدی کے نثری ادب کے لیے راہیں ہموار کیں اور انیسویں صدی کا آغاز اردو زبان و ادب کے لیے بہت سی امیدیں لایا ۔۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد سر سید عہد میں بہت سی نئی اصناف متعارف ہوئی جن میں ناول بھی شامل ہے۔
محمدضیاالرحمن اعظمی کے بقول:
"ناول ایک مکمل اور طویل خیالی نثری داستان ہے۔ اس کی ابتدا مشرق سے ہوئی۔یورپ میں اس کی ابتدا دوسری صدی قبل مسیح میں ہوئی۔اس وقت اس کا ایک دستیاب نمونہ لاطینی زبان کا ناول ہے ۔ جس کا نام (Golden Ass of Apuleius) ہے۔ لیکن موجودہ اطالوی لفظ ناویلا سے مشتق ہے۔بوکا شیو نے (Navella Storia) لکھ کر ناول کی ابتدا کی سپین میں ڈان کو کزٹ نے ناول کو ترقی دینے میں غیر معمولی کارنامہ انجام دیا ۔ سترہویں صدی عیسوی میں فرانس میں رومانی ناول لکھے جانے لگے۔اٹھارویں صدی عیسوی میں ڈیفو ریچرڈ سن فیلڈنگ،سڑنے سما لٹ ، والپول اور مسز ریڈ کلف نے عمدہ ناول لکھے”۔7؎
اردو کا پہلا ناول نگار مولوی نذیر احمد کو کہا جاتا ہے ۔مولوی نذیر احمد نے ناول کو مافوق الفطرت عناصر اور قیاس آرائیوں سے نکال کر کہانی کو فطرت اور مقصد کے قریب کردیا ۔ان کی کہانیاں معاشرے کی عکاسی کرتی ہیں اور سماجی، معاشرتی اور سیاسی پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں۔
نذیر احمد کے بعد ناول نگاری میں کئی بڑے نام آتے ہیں جن میں پنڈت رتن ناتھ،عبدالحلیم شرر،منشی سجاد حسین،مرزا ہادی رسوا اور علامہ راشد الخیری شامل ہیں۔ یہاں تک کہ مرزا ہادی رسوا نے تو "امراؤ جان ادا ” لکھ کر ناول کو فن کی بلندیوں پر پہنچا د یا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ناول زندگی کے کینوس سے جنم لیتا ہے اور زندگی میں کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں ۔ حالات اور زمانے کی گردش جو کچھ سامنے لاتی ہے وہ ادب کا حصہ ضرور بنتا ہے۔
ناول بذات خود زندگی کا عکاس اور زندگی کے قریب ترین تحریر کا نام ہے ۔ ناول کو پرتاثیر بنانے کے لئے ناول نگار کو دیکھنے اور سوچنے کے لیے تخیل کو حقیقت سے جوڑ کر ایسی کہانی تخلیق کرنا ہوتی ہے جو لوگوں کوقریب لا سکے۔اس طرح ہر طبقہ دوسرے طبقے اور ہر معاشرہ دوسرے معاشرے کے مسائل و حالات سے آگاہ ہوجاتا ہے۔
تقسیم ہند سے آج تک پاکستانی اردو ناول میں اگرچہ مختلف النو ع موضوعات کی بھرمار رہی مگر یہ بات عام طور پر دیکھی گئی ہے کہ قیام پاکستان کے بعد اردو ناول کا موضوع زیادہ تر تقسیم اور اس سے متعلقہ حالات و واقعات رہے ہیں جو پاکستان کی مخصوص سیاسی، سماجی اور معاشرتی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔
اصناف نثر میں ناول کو یہ اختصاص حاصل ہے کہ یہ اپنی وسعت اور ہمہ گیری کے باعث زندگی کو اس کی بے قلمونی اور ہماہمی کے ساتھ پیش کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔زندگی کا شاید ہی کوئی رخ ایسا ہو جو ناول کے دائرہ کار سے باہر ہو ۔ ناول اپنا خام مال معاصر تاریخ سے حاصل کرتا ہے تاہم ناول کو اس لیے تاریخ پر افضلیت حاصل ہے کہ تاریخ کا رخ عمودی اور جزوی ہوتا ہے جب کہ ناول کا رخ افقی اور کلیت آمیز ہوتا ہے۔
تقسیم ہند اور مہاجرت برصغیر ہندوپاک کی تاریخ کا ایک ایسا سنگ میل ہے جس کے اثرات تاحال ہمارے معاشرے پر محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ تقسیم ہند کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی ہجرت رونما ہوئی ۔تقریبا سو کروڑ افراد ادھر سے ادھر ہوئے ۔ سفاکانہ قتل و غارت ہوئی۔ ایسے فسادات رونما ہوئے انسانی ذہن جن کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہے ۔ تاریخ ہندوستان کا اتنا بڑا واقعہ اردو ناول کی روایت پر اثرانداز ہوا اوراردو ناول نے اپنی معاصر تاریخ کے اس غیر معمولی واقعے کی بھرپور نمائندگی کی ۔
تقسیم کے فوراًبعد سے کئی دہائیاں بعد تک بھی اس موضوع پر ناول لکھے جاتے رہے۔ اس حوالے سے جو نمایاں ناول نگار سامنے آئے ان میں قرۃ العین حیدر،خدیجہ مستور،عبداللہ حسین ، شوکت صدیقی ، انتظار حسین اور الطاف فاطمہ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد کیمپوں میں مہاجرین کا قیام ایک عارضی اور فوری نوعیت کا مسئلہ تھا جسے تقریبا سبھی ناول نگاروں نے نمایاں کرنے کی کوشش کی ۔ بعض مصنفین کی پیش کردہ تصویر وں سے یہی تاثرا بھرتا ہے کہ کیمپوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی ۔یہ معاملہ حکومتی مشینری کے بس سے باہر ہو گیا تھا اور کیمپ بیماری، بھوک اور غلاظت کی آماجگاہ بن گئے تھے۔
بعض ناول نگاروں نے یہ بھی دکھانے کی کوشش کی کہ حکومتی اہلکار اپنے فرائض میں کوتاہی اور بعض مجرمانہ غفلت سے کام لیتے ہیں تاہم لاہور کے حوالے سے اکثر ناول نگاروں نے اہل لاہور کی محبت اور گرم جوشی کو خوب سراہا ہےمثلاً انتظار حسین نے ناول بستی میں اہل لاہور کے اس جذبے کی دل کھول کر تعریف کی کہ اہل لاہور نے مہاجرین کی وسیع پیمانے پر مدد کی اور بہت تعاون بھی کیا۔
قیام پاکستان کے بعد سماجی ومعاشرتی معیارات تیزی سے تبدیل ہو رہے تھے ۔ایک جمے جمائے معاشرے میں اپنی حیثیت سے الگ ہوجانے کے بعد مہاجرین کی سماجی و معاشرتی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی ۔ انہیں نئے معاشرے میں نئے سرے سے سماجی و معاشرتی شناخت قائم کرنے کا مسئلہ درپیش تھا ۔ عزت، شرافت ،غربت اور امارات کے پیمانے یکسر تبدیل ہوگئے ۔بڑی بڑی جاگیروں کے مالک کشادہ حویلیوں اور کوٹھیوں میں رہنے والے کئی ایسے افراد بھی تھے جو کواٹروں اور جھگیوں میں پڑے تھے۔کئی ایسے بھی تھے جو تقسیم سے قبل معمولی زندگی بسر کررہے تھے مگر انقلاب کے بعد ان کی زندگی سنور گئی۔ بڑے بڑے مکان مل گئے ،جاگیریں اور کارخانے الاٹ ہوگئے، بعض کلیموں کے پیچھے جوتیاں چٹخاتے پھر رہے تھے اور بعض راتوں رات امیر ہو گئے۔یہ ایک نو تشکیل پذیر معاشرے کی تصویر ہے۔
پاکستانی دور کے ناول کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان میں تاریخی اعتبار سے پانچ ہزار سال تک کے حالات و واقعات کا ذکر ہے ۔ مذہبی اعتبار سے سے محمد بن قاسم کی سندھ میں آمد اور سیاسی اعتبار سے 14 اگست 1947ء نقطہ عروج ہے۔ مشرقی پاکستان میں قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی تعصب نے سر اٹھانا شروع کردیا تھا ۔اس کی کیا وجوہات تھیں؟یہ ایک الگ بحث ہے تاہم اس تعصب اور منافرت کی فضا نے مہاجرین کو عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا۔ وہ سرزمین جس کی خاطر انہوں نے قربانیاں دی تھیں ،اپنا گھر بار چھوڑا اپنے ان کے لئے اجنبی تھے اور وہاں کے باسی انہیں اپنا ماننے کو تیار نہ تھے۔ جنگ 1965ء اور المیہ مشرقی پاکستان بھی نوزائیدہ مملکت کے لیے ایک بڑا سانحہ اور مسئلہ تھا۔
بلاشبہ 1965ء کے ادب میں تقریبا تمام ادیبوں کا حصہ نظر آتا ہےاور ایک خاص بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ ایسے ادیب اور شاعر جو وطن اور مذہب کا سہارا لے کر کچھ لکھنا گناہ کبیرہ سمجھتے تھے انہوں نے بھی ایک سچے پاکستانی اور مسلمان ہونے کا فرض ادا کر دیا۔سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہمارے دانشوروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ ہمارے وہ دانشور جو اس سے قبل لندن ،پیرس ،ماسکو اور واشنگٹن کو اپنا قبلہ تسلیم کرتے تھے انہوں نے اس واقعہ کے بعد اپنے قبلےکی درست سمت کا تعین کرلیا۔
ہماری سیاسی تاریخ میں خاص کر بیسویں صدی میں جو اہم واقعات رونما ہوئے اور جن کو پاکستانی اردو ناولوں میں موضوع بحث بنایا گیا، ان میں تقسیم بنگال ،مسلم لیگ کا قیام ، جنگ عظیم اول ،دوم، انقلاب روس ،رولٹ ایکٹ واقعہ ،جلیا نوالہ باغ، تحریک خلافت ،فسادکلکتہ، سائمن کمیشن، ملک گیر بائیکاٹ ،عہد نامہ ،آزادی لندن کی گول میز کانفرنس، انڈیا ایکٹ، ترقی پسند تحریک کی بنیاد، مسلم لیگ آل انڈیا کانفرنس کا اعلان ،اس کے بعد نہرو جناح خط و کتابت اور پھر تین جون 1947ءکواعلان پاکستان اور 14 اگست 1947 کو قیام پاکستان شامل ہیں۔
ان تمام سیاسی واقعات کا تذکرہ جن ناولوں اور ناول نگاروں کے ہاں خاص طور پر ملتا ہے ان میں آگ کا دریا،از قرۃالعین حیدر، گنگا جمنی میدان، از، اختر حمید خان ،تلاش بہاراں ، از، جمیلہ ہاشمی، اداس نسلیں ،از ،عبداللہ حسین،آنگن ،از،خدیجہ مستور، بستی، از ،انتظار حسین،اور بعض دوسرے شامل ہیں۔پاکستان میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے اندر بے روزگاری ،سفارش، اقربا پروری اور اہلیت کی ناقدری کی وجہ سے احساس محرومی پیدا ہوا جس کو ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے موضوع بحث بنایا ۔ایسے ناول اور ناول نگاروں میں دیوار کے پیچھے، از انیس ناگی،پریشر ککر، از صدیق سالک ،سیاہ آئینے، از فاروق خالد وغیرہ نے دل کھول کر تبصرہ کیا ۔اس کے علاوہ ممتاز مفتی کا، علی پور کا ایلی،رضیہ فصیح الدین کا ،آبلہ پا، انور سجاد کا،خوشیوں کا باغ ،بانو قدسیہ کا ،راجہ گدھ ،اور شہر بے مثال وغیرہ ایسے ناول ہیں جن میں پاکستانی معاشرے و مسائل کا عکس بہت نمایاں ہے۔نثار عزیز بٹ کا ناول ،نے چراغے نے گلے ،ایک تاریخی طرز کا ناول ہے۔
1970ء کے بعد شائع ہونے والے ناولوں میں انتظار حسین کا ناول، بستی،ایک اہم ناول ہے۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود اس پر بحث و تمیز کا سلسلہ جاری ہے۔اس میں مصنف نے یادوں کے دریچے میں کھوکر تقسیم ملک سے پہلے اور بعد کے حالات و مسائل کو ایک خاص انداز میں پیش کیا ہے۔ماضی کی یادوں اور حالات و واقعات میں 1971ء کی پاک بھارت جنگ کی بات نمایاں نظر آتی ہے۔دیوار کے پیچھے،انیس ناگی کا جدید تکنیک کے حوالے سے ایک اہم ناول ہے ۔ روایتی انداز سے ہٹ کر اس ناول کو انسانی کرب کی علامت بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ یہ ناول ناقدین کے نزدیک آج کے اجڑے مرد کی کی بنجر سائیکی کا لینڈ سکیپ ہے۔
بانو قدسیہ کا ناول ” راجہ گدھ ” بلاشبہ اپنے عہد کا سب سے بڑا ناول ہے ۔ رزق حرام تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ رزق حرام اور اس کی مضمرات کے سلسلہ میں مصنفہ نے یہ ایک ضخیم ناول تخلیق کیا ہے۔اس ناول میں مرکزی کردار قیوم کو عملی اور معنوی طور پر ایسا مردار خورثابت کیا گیا ہےجو اپنے ساتھ محرومیوں اور نا رسائیوں کا پورا ماضی اٹھائے پھرتا ہے۔رحیم گل کا ناول، جنت کی تلاش ،معصوم انسانی روحوں کا بے چین سفر ہے۔ اس ناول میں ہمارے ملک کے امیر گھرانوں میں پرورش پانے والے لاڈلوں کے مسائل کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔مصنف نے اپنے ملک کی نوجوان نسل کے علاوہ دوسرے ممالک سے آنے والے سیاحوں کے حوالے سے ذہنی سکون کے متلاشی افراد کی بات بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے۔
المیہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے الطاف فاطمہ کا ناول "چلتا مسافر” اس موضوع پر اردو ناولوں کی حد تک سب سے اہم تخلیق نظر آتا ہے۔ اس میں ایک ایسے بہاری کنبے کی کہانی بیان کی گئی ہے جو بہار میں تحریک پاکستان کے لیے کام کرتا ہے عبداللہ حسین کے ناول "نادار لوگ” کا یعقوب ایوان ایک پنجابی مہاجر ہے جو ساڑھے بارہ قلعے کا مالک ہے ۔اسے یوپی کا اردو سپیکنگ بنا کے کلیم میں ردوبدل کرکے ایک بڑی جاگیر ہتھیانے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے لیکن یعقوب اعوان ساڑھے بارہ ایکڑ پر ہی اَڑا رہتا ہے ۔یہ حقیقت یعقوب کی مٹی سے محبت اور وفاداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔غلام ثقلین کا ناول”میرا گاؤں” دیہاتی آگاہی کا ناول ہے۔ گاؤں کے حالات و واقعات اپنی اصل صورت میں اردو ناول میں پہلی مرتبہ یہاں ملتے ہیں۔ یہ ناول دیہات کا عکاس اور عام انسانی جذبوں کا مرقع ہے۔یہ صحیح معنوں میں پاکستانی ناول ہے۔
عبداللہ حسین کے ناول”باگھ” میں ایک قومی نوعیت کے مسئلہ کوچھیڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ناول میں انتظامیہ کی کارکردگی اور خاص کر پولیس کے رویے کو زیر بحث لایا گیا ہے۔انیس ناگی کے ناول "میں اور وہ”میں اپنے اندر کی آواز کو ماضی کی بازگشت سے علیٰحدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یہ ایسے جذبوں کی کہانی ہے جو دو لخت ہو کر اس کے معاشرتی رویوں کو جنم دیتے ہیں جہاں فرد معاشرے کے ساتھ برسرِ پیکار رہتا ہے۔مزاح نگار صدیق سالک مرحوم کا ناول”پریشر ککر” اپنے عہد کی ایک بہترین تصویر ہے ۔ اس دور میں اپنے عہد کا قصہ، آگ شعلوں اور جھنجلاہٹ کی بات کے ساتھ ساتھ سیاسی گھٹن ،معاشی ناانصافیوں اور طبقاتی کشمکش کی بات بھی کی گئی ہے۔ اس کا دوسرا ناول ایمرجنسی بھی بہت اہم ناول ہے جس میں جاگیردارانہ نظام کی کارستانیوں کو بڑے خوبصورت انداز میں طشت ازبام کیا گیا ہے۔
طارق محمود کا ناول” اللہ میگھ دے” بنگال کے حالات و واقعات ،خاص کر وہاں کے سیاسی تناظر میں لکھا گیا ہے ۔مصنف نے بڑی مہارت سے ان سیاسی،معاشرتی اور اقتصادی عوامل کی نشاندہی کی ہے جو بالآخر بنگلہ دیش پر منتج ہوئے۔آج کے معاشرتی مسائل سے متعلقہ فاروق خالد کا ناول” اپنی دعاؤں کے اسیر” خاصا دلچسپ اور قابلِ غور ناول ہے۔ واقعات کا تانہ بانہ ایسی مہارت سے بنایا گیا ہے کہ قاری اس فضا کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔
ایک اور معاشرتی مسئلہ جو مہاجرین کو درپیش آیا وہ تھا سماجی و معاشرتی ڈھانچے کا انتشار، بٹوارے سے ایک جما جمایا معاشرہ اپنی جگہ سے اکھڑ گیااور خاندان تقسیم ہو گئے یوں دیکھتے ہی دیکھتے پورا معاشرتی اور سماجی نظام انہدام پذیرہوگیا۔نئے ملک اور نئے معاشرے کی تشکیل کے ساتھ ساتھ مہاجرین کو نئے سرے معاشرتی روابط قائم کرنا پڑے۔ پہلے سے قائم شدہ معاشرے کے انہدام کے ساتھ سماجی رشتوں میں بھی فرق آ گیا تھا۔”دستک نہ دو” میں ایسے ہی مسئلے کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مہاجرین کا ایک معاشرتی مسئلہ یہ بھی تھا کہ ان کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار تھا ۔ان کی منزل واضح نہ تھی۔ ان میں بہت سے افراد ایسے تھے جو بہت محنتی، لائق ،قابل، ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ تھے۔اگر انہیں معاشرے میں رہنے کا موقع ملتا تو وہ اپنی لیاقت کی بنا پر ایک عالم مستقبل کی تعبیر کرتے لیکن مہاجرت کے باعث ان کی لیاقت کو گھن لگ گیا۔اپنی جڑوں سے اکھڑ جانے اورنئے معاشرے میں ڈانوں ڈول کیفیت نے انہیں معاشرے میں کوئی کامیاب اور مفید کردار ادا نہ کرنے دیا ۔
شوکت صدیقی کا ناول جانگلوس اُس غریب اور پسماندہ طبقوں کے مسائل کا بہترین عکاس و شاہکار ہے۔تین جلدوں پر مشتمل اس ضخیم ناول میں پسماندہ لوگوں کے مسائل بہت خوبصورت اور جان دار انداز میں بیان کئے گئے۔یہ ناول جاگیرداروں اور ان کے کارندوں کا غریب لوگوں پر ظلم و ستم کا بہترین نمونہ ہے ۔اس کے علاوہ اس میں بھٹہ مزدوروں پر ہونے والے ظلم و جبر کی داستان کو بھی بیان کیا گیاہے۔
زمینداروں کے مسائل کے حوالے سے لکھے جانے والے ناولوں میں علی اکبر ناطق کا ناول” نو لکھی کوٹھی” بھی اہم ہے۔ یہ ناول اگرچہ ایک نوجوان انگریز افسر ولیم کے گرد گھومتا ہے تاہم اس میں ناول نگار نے چھوٹے کاشتکاروں اور مزدوروں کے مسائل کا احاطہ کیا ہے۔سلمہ یاسمین کا ناول سانجھ بھئ چودیس بھی معاشرتی مسائل کے حوالے سے بہترین تخلیق ہے۔اس ناول میں پوٹھوہار کے علاقہ میں رہنے والے لوگوں کے مسائل ،مشکلات اور رسم و رواج کو بیان کیا گیا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک تقسیم ،فسادات ،غربت ،بے روزگاری ، معاشی اور معاشرتی استحصال اور دیگر اہم مسائل کے ساتھ ساتھ جس مسئلہ میں اردو ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ کشمیر ہے۔پاکستانی اردو ناولوں میں جتنے بھی ناول کشمیر کے موضوع پر لکھے گئے ان میں ایک خاص جغرافیائی خطے اور قوم سے نسبت رکھنے والے واقعات کا مخصوص نقطہ نظر پیش کیا گیا ہے۔حالات و واقعات کے پیش نظر ان تصنیفات میں المیہ ایک مشترک عنصر بن کر سامنے آتا ہے ۔ ان میں بے بسی، مجبوری ،لاچاری، ظلم و ستم، تشدد اور دکھ درد شامل ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کلاسیکی ادب میں وہ تخلیقات بلند مقام رکھتی ہیں جن میں خیر و شر کے ساتھ ساتھ دکھ اور المیہ اور معاشرتی برائیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ کشمیر کے موضوع پر لکھے گئے ناولوں میں ہمیں یہ تمام عناصر دیکھنے کو ملتے ہیں۔مسئلہ کشمیر کے موضوع پر لکھے گئے ناولوں میں وہاں کی تہذیب و تمدن اورسیاسی تاریخ خاص طور پر نمایاں ہیں۔
ادب کی تخلیق ایک سماجی و معاشرتی عمل ہے اور ادب معاشرے کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔خارجی عوامل کا اثر اس کی افتادطبع پر بھی ہوتا ہے۔ کشمیر کے موضوع پر تخلیق ہونے والا ادب بالخصوص آزادی کی تحریک کا نمائندہ بن گیا۔ پاکستانی اردو ناولوں میں اس تحریک کے اجتماعی پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا ۔ کرداروں کے ذریعے کشمیریوں کے جذبات اور ان کی نفسیاتی کیفیات کو بھی اجاگر کیا گیا ہے ۔کشمیر پر لکھے جانے والے ناول اپنے عہد کے ترجمان ہیں۔
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تک آتے آتے ناول انسانی زندگی کے مسائل کے اس قدر قریب آگیا کہ قاری کو ناول پڑھتے پڑھتے ایسا لگا کہ یہ کسی کی آپ بیتی ہے یا پھر ناول نگار کی اپنی کہانی ہے۔یوں تومرۃالعروس سے لے کر بہاؤ تک ہر ناول میں عورت کی کہانی موجود ہے کیوں کہ عورت زندگی کی ایک اہم حقیقت ہے۔
یہ حقیقت بعض اوقات درپردہ اور کچھ صورتوں میں واضح طور پر سامنے رہتی ہے۔ ماں ،بہن، محبوبہ ،طوائف، عورت کے کتنے ہی روپ ہیں جو کہانیوں میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ان کہانیوں کو لکھنے والوں میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں۔جن میں اےآر خاتون رضیہ بٹ ،سلمہ کنول، ہاجرہ مسرور،بشریٰ رحمان، رضیہ فصیح احمد،زبیدہ خاتون ، الطاف فاطمہ،قرۃ العین، عصمت چغتائی اور بانو قدسیہ وغیرہ وہ خواتین ناول نگار ہیں جن کے ناولوں میں گھر کی چار دیواری کے اندر رشتے ناتوں، زیورات ،کپڑوں سے لے کر معاشرتی اور عصری حالات ومسائل تک کو اجاگر کیا گیا۔ ان خواتین نے عورت کی نفسیات ،جذبات اور مسائل کی بھرپور عکاسی کی ہے۔

 

حوالہ جات :
1۔رشید احمد گوریچہ،ڈاکٹر،مشمولہ،”ناول کی تاریخ و تنقید”،لاہور اکیڈمی،1964ء، ص۔23
2۔ ابواللیث صدیقی، ڈاکٹر،بحوالہ، "کشاف تنقیدی اصطلاحات”،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1985ء، ص۔192
3۔ ممتاز حسین، بحوالہ، "کشاف تنقیدی اصطلاحات”،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 1985ء، ص۔192
4۔ علی عباس حسینی،”ناول کی تاریخ و تنقید”،لاہور اکیڈمی،1964ء،ص۔80
5.Henry Pratt Fairchild,Dicricatar of Sociology and Related Sciences, Littlefiels Adams & CoPaterson,New Jersey, 1964, Page No. 300
6۔ خالد علوی،”اسلام کامعاشرتی نظام”، المکتبہ لاہور،1991ء، ص۔81
7۔ محمد ضیا الرحمٰن اعظمی،”اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا”،جلد دوم،غلام علی پرنٹرز، لاہور،1988ء، ص۔79

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
تحریر: ابو مدثر