- Advertisement -

یہ کچھ یادوں کے آنسو ہیں دِل پگھلانے والے!

عابد ضمیر ہاشمی کا اردو کالم

یہ کچھ یادوں کے آنسو ہیں دِل پگھلانے والے!

سارے وسائل‘ شان و شوکت‘سٹیٹس کو‘کے ہوتے بھی ہم بے چین ہیں‘ معاشرہ اضطرابی دلدل میں دھنس رہا ہے۔لاکھ کاوشوں کے باوجود نسل ِ نو بے نشان منزل کی مسافرہے۔ لیکن اِن مسائل کا حل ہم سے نہیں ہو رہا‘آخر وجہ کیا ہے؟آج ہماری اخلاقی زندگی زبوں حالی کا شکار ہے ہماری معاشرت سے انسانی خصائل ناپیدہو چکے ہیں کوئی ایسا عیب نہیں جو ہماری فطرت ثانیہ نہ بن چکا ہو۔ کوئی ایسی برائی نہیں جس میں ہم مبتلا نہ ہوں اور ایسی اخلاقی خرابی نہیں جو ہماری قومی بنیادوں کو کمزور نہ کر رہی ہو۔ ہم خود ان کمزوریوں میں مبتلا ہیں کون ایسا رہبر ہے‘ جو ہماری اِن تباہ کن عادات قبیحہ کے خوفناک نتائج سے ہمیں واقف کرے‘اور متوقع خوفناک انجام سے آگاہ کرے۔

دراصل اخلاقی اقدار وہ اصول ہیں جن کا فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سے افعال صحیح ہیں اور کون سے اعمال غلط؟۔ جب کوئی شخص اس طرح کے اقدار کو اپنے روزمرہ کے طرز عمل میں لاگوکرتاہے تو وہ اخلاقی طور پر کام کرتا ہے۔ اس کی مثالیں ذمہ داری‘ دیانتداری‘ وفاداری اور اخلاص ہیں۔اخلاقیات فلسفے کی ایک شاخ ہے جو افراد اور اخلاقیات کے طرز عمل کے مطالعہ کے لئے وقف ہے۔ اخلاقیات کی عکاسی کے ذریعے‘ہر شخص کو اپنے بارے میں خود فیصلہ کرنا چاہئے کہ صحیح یا غلط کیا ہے؟معاشرتی طور پر کیا صحیح ہے اور کیا نہیں؟ جانے کہاں گئے وہ لوگ جو تعلقات سماجی رتبوں‘شان و شوکت‘سٹیٹس کو‘ ذاتی مفادات کو دیکھ کر استوار نہیں کرتے تھے بلکہ نظریات جن سے ملک‘ قوم‘ معاشرے کو بہترین بنانا‘اخلاقیات کو نبھانا سماجی اور مذہبی فریضہ سمجھا جاتا تھا۔ معاشرہ کے افراد کا ایک دوسرے سے تعلق ہر خوشی‘ غمی پر مزید مضبوط ہوجاتا تھا اور اپنے معاشرے کے سفید پوش‘ مجبور‘بے سہار‘ نادار وں کے ساتھ کھڑے ہونا قابل ِ سعادت رسم چلی آرہی تھی‘ لیکن پھر ہمارے انداز بدلے‘زمانے کے انداز بدلے اور یہ معیار یہ بن گیا کہ ملک‘معاشرہ‘ انسانیت کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ہم نے تعصب‘سٹیٹس کو اور بس پیسے کمانے کے چکر میں اپنی روایات کو چھوڑ دیا‘ جس کاخمیازہ ہماری نسلوں کو تباہی کی صورت میں مل رہا ہے۔عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ تہذیب کی نمو اور آبیاری کا کام بس مخصوص لوگوں کی ذمہ داری ہے اور انہیں کو تہذیبی روایات نبھانا‘رکھ رکھاؤ اور پرانی سوچ کو نئی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ہوتا ہے۔

ہماری بہت ہی شاندار و اعلیٰ اوصاف پر مشتمل تہذیب ہوتی تھی جس میں تفریق نہیں تھی اور نہ ہی کوئی کسی کمتری کا شکار ہوتا تھا۔ اول تو ایسی بات تو کوئی کرتا ہی نہیں تھا اور اگر کوئی ایسی حرکت کر بھی گزرتا تو اسے انتہائی نامعقول سمجھا جاتا تھا۔ معاشرے میں کسی غریب گھرانے کو تنگی کا احساس نہیں دلایا جاتا تھا بلکہ اللہ کریم کے حکم ”ان کے چہروں سے انہیں پہچان لیا کرو“ صاحب ِ ثروت خود سے ان کی مجبوریوں کا خیال رکھتے تھے‘ راستے‘ پانی‘دوسروں کے لئے آسانیاں باٹنا سعادت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اب احساس توکجا ہم بغیر دِل آزاری کیے‘ راستے‘ پانی‘ اذیت دینے اپنی وارثت سمجھتے۔وہ لوگ کسی کے کام آنا باعث ِ افتخار سمجھا کرتے تھے‘ہم کسی کو تنگ کر کے خود کو افلاطون سمجھ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے لیے تعلیمی اسناد دکھانے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی بلکہ اخلاق‘ اندازِ گفتگو‘نشست و برخاست اور تہذیبی رکھ رکھاؤ ہی خاندانی ہونے کی عام نشانیاں تھیں۔ آج کی طرح برانڈڈ لباس‘جوتے اور پرس یعنی ظاہری اور اوپری لبادہ کسی کے خاندانی وقار میں اضافے کا سبب نہیں بنتا تھا بلکہ یہ نو دولتیا پن کہلاتا تھا۔

پھر محلوں اور گلیوں میں بھی رشتے‘ سگے رشتوں‘انسانی ہمدردی جیسے رشتے ہی محترم اور دیرپا ہوا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا جب محلوں‘ گلیوں اور گھروں کے چبوتروں پر بچے کھیلوں میں مگن رہا کرتے تھے۔ جب ایک گھر میں اچار ڈالتا تو گلی کے ہی نہیں بلکہ محلے کے کئی گھروں میں بانٹا جاتا تھا اور آس پڑوس کے گھروں میں سالن بھیجنا ایک معمول کی بات تھی۔کسی غریب کے بچے کی بغیر تشہر سکول فیس دے دینا‘یونیفارم مہیا کرنا ذریعہ نجات سمجھا جاتا تھا‘ لیکن ان شائد یہی چیزیں فیس بُک‘ واٹس ایپ سٹیٹس کی نظر ہو چکی اور غریب کے بچوں کی عزت نفس نام کی چیز ہی تلف کر دی گئی۔وہ تعلیم تو کیا؟ احساس کمتری میں مبتلا ہو گئے۔اب بہت یاد آتے ہیں وہ دِن وہ سہانے‘ وہ رونق وہ میلے‘ وہ گاؤں وہ ٹیلے۔

70 اور 80 کی دہائی میں بھی آج کل کی طرح کے فیشن عام تھا‘ لیکن ہر با وقار شخصیت میں سادگی کا عنصر غالب رہتا اور سادگی صرف لباس میں ہی نہیں بلکہ رہن سہن کا بھی حصہ تھی۔ اُس وقت کے ڈرامے دیکھ لیں‘ اپنے گھروں اور محلوں کو یاد کریں اور سوچیں کہ کیا کیا حسین یادیں زمانے کے ہاتھوں مٹی ہوا چاہتی ہیں۔ ہم ڈیکوریٹڈ ڈرائنگ رومز‘ویل فرنشڈ بیڈ رومز میں مزے کرتے ہیں کیونکہ اب آپ کو ڈر ہے کہ کہیں آپ کسی سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ ہم سب اس ذہنی مرض میں مبتلا ہیں کہ ہمیں بہترین موبائل‘ اچھی سی گاڑی‘برانڈڈ لباس ضرور چاہیے کیونکہ ان سب چیزوں کے بغیر آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔

اَدب احترا م‘ انسانیت‘ ہمدردی‘ اخوت کا رجحان تو ہواہی ہوگیا‘پہلے محلوں میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی‘ رواداری‘ احساس کی فضا ہوا کرتی تھی۔ گھروں میں بچوں اور بڑوں کو کتاب پڑھنے کی ترغیب دی جاتی تھی بلکہ بہترین تحفہ کتاب، گھڑی اور پین سمجھا جاتا تھا اور اب لوگ اچھی کتاب پر بات ہی نہیں کرتے بلکہ بڑے بڑے اسٹورز پر لگنے والی ملبوسات، جوتوں اور ہینڈ بیگز پر سیل کی کہانیاں عام ہیں، اسی لیے اب کتاب مہنگی اور لباس اور جوتے سستے سمجھے جاتے ہیں۔ہمارامعاشرہ غریب پرور نہیں رہا اور ہم اس کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں، لیکن اب اس کے بھیانک نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔ ہماری زندگیوں میں ٹھہراؤ، تحمل اور برداشت کا سلسلہ رُک سا گیا ہے۔ اب کسی کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دینا، سفید ریش کے لئے راستہ دینا، کسی کی مجبوری کو رفع کرنااور دکھ سکھ بانٹ لینا خوبی نہیں، کمزروی اور سٹیسٹس کے خلاف عادت سمجھی جاتی۔

روپے پیسے کی اہمیت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی، لیکن اس کو قبلہ و کعبہ بنا لینا کچھ عرصہ پہلے سے ہمارے حصہ میں آیا اور اب ہم میں رچ بس گیا اور انسانیت الوداع ہونا شروع ہوئی۔ ہم سب روپے پیسے کمانے میں ایسے لگے کہ اپنے بچوں کو نہ اچھا بچپن دے پارہے ہیں اور نہ ہی اچھی شخصیت۔ ہمارے معاشرے میں اپنی ہی نہیں بلکہ پڑوس‘محلے کے غریب‘ مجبور بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں صرف گھر والوں کا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خاندان کے کتنے ہی بڑوں‘ گلی اور آس پڑوس کے کتنے ہی ماموں‘خالہ‘چچا‘دادا‘ نانی جیسے کرداروں نے اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ گلی کے ہر بڑے کو حق حاصل تھا کہ وہ بچوں اور بڑوں کو ہر غلط بات پر ٹوکیں اور ان کو اچھے برے کی تمیز کرانے میں ان کی مدد کریں۔

اَب ایسی ہوا چلی ہے کہ اچھے اور مضبوط رشتوں پر بھی سوالیہ نشان اٹھنے لگے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں کون غریب کون امیر؟ کون بڑا، کون چھوٹا؟ کیاتہذیب‘کیا بد تہذیبی؟ کسی کے پاس کسی کے لیے وقت نہ رہا۔ یقینا انسانیت کے دم سے بھی معاشروں میں رونق ہوتی ہے اور احساس کے دم سے ہی معاشرہ اورمیں دیگر بھلائی کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اب وہ اقدار کمزور اور ناتواں ہوگئے ہیں تو دوسروں کا کیاکام ہے کہ وہ ہماری مزاج پرسی کو آئیں‘لیکن اب یہ سب باتیں پیسا کمانے کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہیں۔

روز ایک نئی دوڑ تیز اور تیز بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے اور ہم کسی اور کام کے قابل نہیں رہے‘ مطلب پرستی‘ انا‘عصبیت‘ کھوکھلے نظام نے ہمیں سب کچھ آراستہ کر کے دیکھا جس کا حقیقت سے دورتلک کوئی واسطہ ہی نہیں۔ اس میں ہماری بھی غفلت ہے۔ ہم بس غیروں کی سازش قرار دے کر بری الذمہ ہو جاتے۔

یقین کیجیے کہ جن لوگوں نے اپنی تہذیب‘ تمدن اخلاقی روایات کی قدر کی اپنے اصولوں کو مقدم جانا‘ اپنے ملک‘ قوم‘ معاشرے کو مقدم رکھا‘ ان کی مثالیں دُنیا دیتی ہے۔ ان لوگوں سے قوم نے ہی نہیں بلکہ باقی اقوام نے بھی بہت کچھ سیکھا۔ روپیہ پیسا ایک حقیقت ہے لیکن یہ سب کچھ نہیں ہے۔ دراصل اچھی اقدار اور محنت سے زندگیاں بدلتی ہیں۔ آئیں ایک نئی سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں بدلیں‘ یقین کریں انسانیت‘ دوسروں کی بھلائی میں حقیقی حسن ہے!اور اس کا ایک ہی حل ہے وہ ہے سیرت ِ معصطفیٰﷺ!

 

عابد ضمیر ہاشمی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک غزل از عامر ابدال