سوداگر
اے خوابوں کے سوداگر!
آج میں تجھ کو سونپتی ہوں
اپنے سارے سچے خواب
اپنے دِل کی زندہ دھڑکن
اپنے روپ کے سارے راز
جانتی ہوں کہ مجھ سے پہلے
تمھارا پیار! تمھارے جذبے
خوابوں کا عنوان رہے ہیں
کئی آنکھوں نے مجھ سے پہلے
دیکھے ہوں گے خواب تمھارے
کئی ہونٹوں پہ نام تمھارا
اُبھر کے آخر ڈوبا ہو گا
کئی آنکھوں میں روپ تمھارا
عکس کی صورت لرزا ہو گا
کتنے دلوں کی دھڑکن دھڑکن
گونجے ہوں گے گیت تمھارے
کتنے ہاتھوں اور بانہوں میں
خوشبو تیری رچتی ہو گی
کتنی سانسوں کے دامن میں
کتنے رنگ مہکتے ہوں گے
کتنی سوچیں آ کر تیرے
خیال پہ اِک دِن اٹکی ہوں گی
کتنی بصارتیں تیری خاطر
جانے کب تک ترسی ہوں گی
کتنے عقیدے، کتنے مذہب
لرزتے ہوں گے تیری خاطر
کتنے دلوں کی سونی راہیں
اب بھی تجھے بلاتی ہوں گی
کتنی امیدیں ، کتنی کلیاں
تیری راہ سجاتی ہوں گی
کتنے سرخ گلابوں میں بھی
تیری یادوں کی رُت ہو گی
تیرے قدموں کی آہٹ پر
کتنے رستے جھومتے ہوں گے
کتنے راہی راہ میں بیٹھے
تیرا رستہ تکتے ہوں گے
کتنی سیپوں کے ہونٹوں میں
تیرے نام کا موتی ہو گا
کتنی خالی خالی بانہیں
تجھ کو پاس بُلاتی ہوں گی
کتنی بیاضیں ،کتنے صفحے
تیرے نام سے روشن ہوں گے
کتنے قلموں کی نوکوں نے
نامے تجھ کو لکھے ہوں گے
کتنی سونی سونی نظریں
خواب تمھارے بُنتی ہوں گی
کتنے پھول اٹھا کر سر کو
تیری صورت تکتے ہوں گے
کتنی بھینی سی مہکاریں
تیرے بدن سے لپٹی ہوں گی
کتنے بادل ایسے ہیں جو
چھوکر تجھ کو برسے ہوں گے
کتنے پیڑوں کے سینوں پر
رقم تمہارا نام بھی ہو گا
کتنی سوچوں کی گلیوں میں
تیری یادیں زندہ ہوں گی
کھلتے ہوں گے کتنے دریچے
تیری دید کی آس میں ساجن!
کتنے ارماں ، تیری خاطر
اپنے ہی خوں میں نہائے ہوں گے
کتنی راتوں کی تنہائی
تیری خاطر جاگی ہو گی
کتنے ناموں کی رسوائی
نام پہ تیرے لکھی ہو گی
کتنی پلکیں نام پہ تیرے
کیسے لرزی کانپی ہوں گی
کتنی بوجھل بوجھل آنکھیں
تیری جانب اُٹھتی ہوں گی
کیا کیا سوچیں سوچتی ہوں گی
کتنے دِل اور کتنے ارماں
تیری منت مانتے ہوں گے
کتنے چہرے ایسے ہوں گے
نام پہ تیرے کھلتے ہوں گے
کتنے خوابوں کے کتبوں پر
اسم تمہارا کندہ ہو گا
کتنے بارش کے قطروں نے
تیرے گال کو چوما ہو گا
کتنے چائے کے کپ اب بھی
تیری خاطر رکھے ہوں گے
کتنے پاؤں کی زنجیریں
تیرے خیال کی کڑیاں ہوں گی
کتنی مہکی مہکی زلفیں
جو شانوں پہ بکھری ہوں گی
کتنے بتوں نے تجھ کو پاکر
عرش بھی اپنے چھوڑے ہوں گے
کتنی منڈیروں سے بیلیں بھی
جھانک کے تجھ کو دیکھتی ہوں گی
کتنے جاڑوں کی سہ پہریں
تجھ کو دیکھ کے ڈوبی ہوں گی
کتنی شاموں کی بے چینی
تیرے غم میں سہمی ہو گی
کتنی راتوں کی تاریکی
تیرے ہجر میں گہری ہو گی
کتنے بادل دکھ پر تیرے
ٹوٹ ٹوٹ کے برسے ہوں گے
کتنے گیتوں کی سرگم میں
تیرا لہجہ شامل ہو گا
کتنے گھروں کی بنیادوں میں
تیرا نام بھی شامل ہو گا
کتنی خواہش کی پریوں نے
تیرے گھنگھرو باندھے ہوں گے
کتنی چِتاؤں کے بستر پر
تیرا پیار بھی جلتا ہو گا
کتنے تارے اترے ہوں گے
تیری راہوں کو چمکانے
کتنے پرندوں کی چہکاریں
گیت تمہارے گاتی ہوں گی
کتنے فطرت کے رنگوں نے
تجھ کو ہمدم دیکھا ہو گا
اے خوابوں کے سوداگر !!!!
آج سے میں بھی شامل ہوں
تیری زیست کے افسانوں میں
ساری صبحوں ، شاموں میں
پیار کے سب پیمانوں میں
اے خوابوں کے سوداگر!
آج میں تجھ کو سونپتی ہوں
اپنے سارے سچے خواب
اپنے روپ کے سارے راز
شازیہ اکبر