نہ غموں کو تازہ بنا مرے نہ شبوں کا مجھ سے سوال کر
کہیں اشک میرے چھلک نہ جائیں ذرا تو ان کا خیال کر
مرے دل ذرا تو سکون کر وہ چلا گیا ہے تو چپ ہی رہ
ابھی جینے دے مجھے اور بھی مری زندگی نہ محال کر
مجھے دوستی کا نہ ہاتھ دے ، نہ یوں بات کر مرے اجنبی
تو چلا ہی جائے گا ایک دن ، تو جدائی کو نہ محال کر
وہ جو چھو لے یوں ہی گلاب کو، تو بدن پہ زخم پڑیں ہزار
وہ ہے نازکی سے بنا ہوا اسے دیکھنا بھی سنبھال کر
میں اداس ہوں ترے واسطے مجھے نسبتیں تری چاہئیں
مجھے بھی ہو تجھ سے مناسبت کسی دن کو وقفِ ملال کر
تو پلٹ کے آئے گا گر کبھی مجھے منتظر ہی تو پائے گا
تجھے مل سکے کوئی خوب ہے ، نہ ملے تو پھر نہ ملال کر
یا ہے موت اب نہ ملے اگر یا ہے زندگی وہ اگر ملے
یہی صورتیں ہیں نجات کی تو بس انتظارِ وصال کر
اسے کیا ہوا مجھے کیا پتا ، وہ جہاں مرا مجھے کیا پتا
مری بات ہے مری بات کر کسی اور کا نہ ملال کر
محمد حذیفہ جلال