اشک سمندر ہوجاتے ہیں
غرق ستمگر ہوجاتے ہیں
آنکھ کھلی تو ہم نے جانا
خواب بھی بے گھر ہوجاتے ہیں
میں کچھ دیر جو چُپ رہتا ہوں
لوگ سخنور ہوجاتے ہیں
ایک عمارت بن جاتی ہے
کتنے بے گھر ہوجاتے ہیں
خنجر تنہا رہ جاتا ہے
زخم بہتّر ہوجاتے ہیں
بیٹےکو بیٹا کرنے میں
گروی زیور ہوجاتے ہیں
درد جب احساں کردیتا ہے
لفظ منور ہوجاتے ہیں
فرق تو رہتا ہے قبروں میں
لوگ برابر ہوجاتے ہیں
دل کا خو بہت ہوتا ہے
شعر تو بہتر ہوجاتے ہیں
صورت ابھرے یا نہیں ابھرے
لوگ تو آذر ہوجاتے ہیں
طارق قمر